Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: Al-Fa'l (good omen))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5756.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”چھوت چھات بے اصل ہے اور بد شگونی کی بھی کوئی حقیقت نہیں، مجھے تو اچھی فال پسند ہے۔ یعنی کوئی کلمہ خیر یا اچھی بات کسی سے سنی جائے۔“
تشریح:
(1) بدشگونی کو اس لیے بے اصل قرار دیا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے متعلق بدگمانی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتماد اٹھ جاتا ہے اور اچھی فال سے اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن پیدا ہوتا ہے جس کا ایک مومن کو حکم دیا گیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ضرورت کے لیے نکلتے تو آپ کو یہ امر پسند ہوتا تھا کہ آپ يا راشد اور يا نجيح کے الفاظ سنیں۔ (جامع الترمذي، السیر، حدیث: 1616) (2) اسی طرح بیمار آدمی جب سلامتی اور تندرستی کا سنے تو خوش ہوتا ہے، نیز لڑائی کے لیے جانے والا شخص راستے میں کسی ایسے شخص سے ملے جس کا نام فتح خاں ہو، اس سے اچھی فال لی جا سکتی ہے کہ اس جنگ میں ہماری فتح ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے طبعی طور پر انسان کے دل میں اچھی چیز کی محبت پیدا کی ہے جیسا کہ اچھی چیز دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور صاف پانی دیکھ کر سرور آتا ہے اگرچہ اسے پینے یا استعمال کرنے کی ہمت نہ ہو۔ (3) بہرحال جائز فال صرف اسی قدر ہے کہ قصد و ارادے کے بغیر کوئی اچھا لفظ کان میں پڑ جائے تو انسان اسے سن کر اللہ تعالیٰ سے اچھی امید وابستہ کرے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5538
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5756
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5756
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5756
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”چھوت چھات بے اصل ہے اور بد شگونی کی بھی کوئی حقیقت نہیں، مجھے تو اچھی فال پسند ہے۔ یعنی کوئی کلمہ خیر یا اچھی بات کسی سے سنی جائے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) بدشگونی کو اس لیے بے اصل قرار دیا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کے متعلق بدگمانی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتماد اٹھ جاتا ہے اور اچھی فال سے اللہ تعالیٰ کے متعلق حسن ظن پیدا ہوتا ہے جس کا ایک مومن کو حکم دیا گیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی ضرورت کے لیے نکلتے تو آپ کو یہ امر پسند ہوتا تھا کہ آپ يا راشد اور يا نجيح کے الفاظ سنیں۔ (جامع الترمذي، السیر، حدیث: 1616) (2) اسی طرح بیمار آدمی جب سلامتی اور تندرستی کا سنے تو خوش ہوتا ہے، نیز لڑائی کے لیے جانے والا شخص راستے میں کسی ایسے شخص سے ملے جس کا نام فتح خاں ہو، اس سے اچھی فال لی جا سکتی ہے کہ اس جنگ میں ہماری فتح ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے طبعی طور پر انسان کے دل میں اچھی چیز کی محبت پیدا کی ہے جیسا کہ اچھی چیز دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اور صاف پانی دیکھ کر سرور آتا ہے اگرچہ اسے پینے یا استعمال کرنے کی ہمت نہ ہو۔ (3) بہرحال جائز فال صرف اسی قدر ہے کہ قصد و ارادے کے بغیر کوئی اچھا لفظ کان میں پڑ جائے تو انسان اسے سن کر اللہ تعالیٰ سے اچھی امید وابستہ کرے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا چھوت لگ جانے کی کوئی اصل نہیں اور نہ بد شگونی کی کوئی اصل ہے اورمجھے اچھی فال پسند ہے یعنی کوئی کلمہ خیر اور نیک بات جو کسی کے منہ سے سنی جائے (جیسا کہ اوپر بیان ہوا)۔
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بد شگونی کا ذکر آیا توآپ نے فرمایا کہ فَإذا رَأى أحَدُكُمْ ما يَكْرَه فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ لا يَأتي بالحَسَناتِ إلا أنتَ، وَلا يَدْفَعُ السَّيِّئاتِ إلا أنْتَ، وَلا حوْلَ وَلا قُوَّةَ إلا بِكَ (فتح) یعنی اگر تم میں سے کوئی ایسی مکروہ چیز دیکھے تو کہے یا اللہ! تمام بھلائیاں لانے والا تو ہی ہے اور برائیوں کا دفع کرنے والا بھی تیرے سوا کوئی نہیں ہے گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت اور ان کا سر چشمہ اے اللہ! تو ہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "No 'Adha (no contagious disease is conveyed to others without Allah's permission), nor Tiyara, but I like the good Fal, i.e., the good word."