مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5771.
حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے انہوں نے اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ کے رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے سنا: ”کوئی شخص بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس نہ لے جائے۔“ حضرت ابو ہریرہ نے اپنی پہلی بیان کردہ حدیث کا انکار کر دیا۔ ہم نے (حضرت ابو ہریرہ ؓ سے) کہا: کیا آپ ہی نے یہ حدیث بیان کی کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی؟ تو انہوں نے غصے میں حبشی زبان میں کوئی بات کی۔ ابو سلمہ نےکہا: میں نے انہیں اس کے علاوہ کوئی دوسری حدیث بھولتے نہیں دیکھا۔
تشریح:
(1) راوی ابو سلمہ کا یہ خیال محل نظر ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھولنے کی وجہ سے حدیث کا انکار کیا بلکہ انکار کی وجہ ان کا حدیث کو تعارض کی شکل میں پیش کرنا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس پر ناراضی ہوئی تو انہوں نے حبشی زبان میں اپنی ناراضی کا اظہار کیا، حالانکہ احادیث میں تعارض نہیں بلکہ دونوں الگ الگ مضمون پر مشتمل ہیں۔ پہلی حدیث سے جاہلوں کے اس عقیدے کی نفی کرنا مقصود ہے کہ بیماری طبعی طور پر ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت سے حصول ضرر کی نفی نہیں ہے اور دوسری حدیث میں بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس لے جانے کی ممانعت اس لیے ہے کہ کم علم لوگ فضول اوہام میں مبتلا ہو جائیں کہ صحت مند اونٹ، بیمار اونٹ کی وجہ سے بیمار ہو گئے، اس طرح وہ عدوٰی کے قائل ہو جائیں گے، حالانکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔ (2) یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھولنے کی وجہ سے انکار کیا ہو جیسا کہ ابو سلمہ نے کہا ہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کیونکہ بھول جانا بشری تقاضا ہے لیکن حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس کے بعد کوئی حدیث نہیں بھولا ہوں۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 119) (3) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے جہلاء کے اس عقیدے کی نفی کی ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی کھوپڑی سے ایک زہریلا کیڑا نکلتا ہے جو مسلسل آواز دیتا ہے: مجھے پلاؤ، مجھے پلاؤ۔ جب مقتول کا بدلہ لے لیا جائے تو وہ غائب ہو جاتا ہے۔ اس عقیدے کی کوئی حیثیت نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا: عربوں کے توہمات میں سے ایک یہ تھا کہ اگر کوئی قتل ہو جائے اور اس کا بدلہ نہ لیا جائے تو مردے کی کھوپڑی سے ایک الو برآمد ہوتا ہے جو اس کے اوپر منڈلاتا رہتا ہے اور آواز دیتا ہے: پیاس، پیاس، اگر مقتول کا بدلہ لے لیا جائے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے، اس وہم کی بنیاد پر وہ لوگ جیسے بھی بن پڑتا بدلہ لینے پر اصرار کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وہم کی تردید فرمائی ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5553
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5771
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5771
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5771
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
هَامَه ایسے زہریلے جانور کو کہتے ہیں جس کے ڈس لینے سے آدمی مر جاتا ہے۔ اگر کسی کے ڈس لینے سے آدمی کی موت واقع نہ ہو تو اسے سامہ کہتے ہیں، جیسے بچھو وغیرہ۔ (عمدۃ القاری: 14/749) دور جاہلیت میں عربوں کا عقیدہ تھا کہ جب آدمی قتل ہو جائے اور اس کا انتقال نہ لیا جائے تو دفن کرنے کے بعد اس کی کھوپڑی سے ایک زہریلا کیڑا برآمد ہوتا ہے جو اس کی قبر کے اردگرد گھومتا رہتا ہے اور مجھے پلاؤ، مجھے پلاؤ کہتا رہتا ہے۔ اگر اس کا انتقال لے لیا جائے تو غائب ہو جاتا ہے بصورت دیگر وہ چکر لگاتا رہتا ہے۔ (فتح الباری: 10/297) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کے اس عقیدے کی تردید کی ہے۔ اس هامه کی تفسیر میں اختلاف کے پیش نظر امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان اور حدیث کو دوبارہ پیش کیا ہے۔ اس کی باقی تفسیریں ہم عنوان: 45 اور حدیث: 5757 کے تحت ذکر کر آئے ہیں۔
حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے انہوں نے اس کے بعد حضرت ابو ہریرہ ؓ کے رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے سنا: ”کوئی شخص بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس نہ لے جائے۔“ حضرت ابو ہریرہ نے اپنی پہلی بیان کردہ حدیث کا انکار کر دیا۔ ہم نے (حضرت ابو ہریرہ ؓ سے) کہا: کیا آپ ہی نے یہ حدیث بیان کی کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی؟ تو انہوں نے غصے میں حبشی زبان میں کوئی بات کی۔ ابو سلمہ نےکہا: میں نے انہیں اس کے علاوہ کوئی دوسری حدیث بھولتے نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) راوی ابو سلمہ کا یہ خیال محل نظر ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھولنے کی وجہ سے حدیث کا انکار کیا بلکہ انکار کی وجہ ان کا حدیث کو تعارض کی شکل میں پیش کرنا تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس پر ناراضی ہوئی تو انہوں نے حبشی زبان میں اپنی ناراضی کا اظہار کیا، حالانکہ احادیث میں تعارض نہیں بلکہ دونوں الگ الگ مضمون پر مشتمل ہیں۔ پہلی حدیث سے جاہلوں کے اس عقیدے کی نفی کرنا مقصود ہے کہ بیماری طبعی طور پر ایک سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت سے حصول ضرر کی نفی نہیں ہے اور دوسری حدیث میں بیمار اونٹ کو صحت مند اونٹوں کے پاس لے جانے کی ممانعت اس لیے ہے کہ کم علم لوگ فضول اوہام میں مبتلا ہو جائیں کہ صحت مند اونٹ، بیمار اونٹ کی وجہ سے بیمار ہو گئے، اس طرح وہ عدوٰی کے قائل ہو جائیں گے، حالانکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔ (2) یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھولنے کی وجہ سے انکار کیا ہو جیسا کہ ابو سلمہ نے کہا ہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کیونکہ بھول جانا بشری تقاضا ہے لیکن حدیث میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس کے بعد کوئی حدیث نہیں بھولا ہوں۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 119) (3) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے جہلاء کے اس عقیدے کی نفی کی ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی کھوپڑی سے ایک زہریلا کیڑا نکلتا ہے جو مسلسل آواز دیتا ہے: مجھے پلاؤ، مجھے پلاؤ۔ جب مقتول کا بدلہ لے لیا جائے تو وہ غائب ہو جاتا ہے۔ اس عقیدے کی کوئی حیثیت نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا: عربوں کے توہمات میں سے ایک یہ تھا کہ اگر کوئی قتل ہو جائے اور اس کا بدلہ نہ لیا جائے تو مردے کی کھوپڑی سے ایک الو برآمد ہوتا ہے جو اس کے اوپر منڈلاتا رہتا ہے اور آواز دیتا ہے: پیاس، پیاس، اگر مقتول کا بدلہ لے لیا جائے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے، اس وہم کی بنیاد پر وہ لوگ جیسے بھی بن پڑتا بدلہ لینے پر اصرار کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وہم کی تردید فرمائی ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ابو سلمہ سے روایت ہے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے سنا کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے پہلی حدیث کا انکار کیا۔ ہم نے (حضرت ابو ہریرہ ؓ سے) عرض کیا کہ آپ ہی نے ہم سے یہ حدیث نہیں بیان کیا ہے کہ چھوت یہ نہیں ہوتا پھر وہ (غصہ میں) حبشی زبان بولنے لگے ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ اس حدیث کے سوا میں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کو اور کوئی حدیث بھولتے نہیں دیکھا۔
حدیث حاشیہ:
راوی کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث بھول گئے اس لیے انہوں نے انکار کیا بلکہ انکار کی وجہ شاگرد کا حدیث کو تعارض کی شکل میں پیش کرنا تھا۔ ان کو اس پر ناراضگی ہوئی کیونکہ یہ دونوں احادیث دو الگ الگ مضامین پر شامل ہیں اور ان میں تعارض کا کوئی سوال نہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ان معاملات میں عام لوگوں کے ذہنوں میں جو وہم پیدا ہوتا ہے اسی سے بچنے کے لیے یہ حکم حدیث میں ہے کہ تندرست جانوروں کو بیمار جانوروں سے الگ رکھو کیونکہ اگر ایک ساتھ رکھنے میں تندرست جانور بھی بیمار ہو گئے تو یہ وہم پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ اس بیمار جانور کی وجہ سے ہوا ہے اور اس طرح کے خیالات کی شریعت حقہ نے تردید کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said: The cattle (sheep, cows, camels, etc.) suffering from a disease should not be mixed up with healthy cattle, (or said: "Do not put a patient with a healthy person ). " (as a precaution).