Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: Wearing a cloak of narrow sleeves while on a journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5798.
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ جب وآپس آئے تو میں پانی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے وضو کیا جبکہ آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ دھویا۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھوں کی اس کی آستینوں سے نکالنا چاہا لیکن وہ تنگ تھیں اس لیے آپ نے اپنے ہاتھ جبے کے ینچے سے نکالے اور پھر بازؤں کو دھویا، سر اور موزوں پر مسح فرمایا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں ایک تنگ آستینوں والا جبہ پہنا تھا۔ سفر میں اس طرح کے جبے کی ضرورت ہوتی ہے، البتہ اپنے گھر میں کھلی آستینوں والا جبہ پہنا جاتا ہے۔ (2) لباس کے متعلق شریعت میں بہت وسعت ہے۔ ہر ملک اور قوم کا لباس جدا جدا ہوتا ہے۔ جائز و ناجائز کی چند حدود بیان کر کے اسے مقامی حالات پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ لوگ اپنی صوابدید کے مطابق اپنا لباس اختیار کریں۔ اس کے دو بنیادی فائدے ہیں: ستر پوشی کا کام دے اور باعث زینت ہو، البتہ اس کی تراش وغیرہ انسان اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5579
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5798
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5798
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5798
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ جب وآپس آئے تو میں پانی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے وضو کیا جبکہ آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے کلی کی، ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ دھویا۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھوں کی اس کی آستینوں سے نکالنا چاہا لیکن وہ تنگ تھیں اس لیے آپ نے اپنے ہاتھ جبے کے ینچے سے نکالے اور پھر بازؤں کو دھویا، سر اور موزوں پر مسح فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں ایک تنگ آستینوں والا جبہ پہنا تھا۔ سفر میں اس طرح کے جبے کی ضرورت ہوتی ہے، البتہ اپنے گھر میں کھلی آستینوں والا جبہ پہنا جاتا ہے۔ (2) لباس کے متعلق شریعت میں بہت وسعت ہے۔ ہر ملک اور قوم کا لباس جدا جدا ہوتا ہے۔ جائز و ناجائز کی چند حدود بیان کر کے اسے مقامی حالات پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ لوگ اپنی صوابدید کے مطابق اپنا لباس اختیار کریں۔ اس کے دو بنیادی فائدے ہیں: ستر پوشی کا کام دے اور باعث زینت ہو، البتہ اس کی تراش وغیرہ انسان اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابو الضحیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مسروق نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے گئے پھر واپس آئے تو میں پانی لے کر حاضر تھا۔ آ پ نے وضو کیا آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ دھویا پھر اپنی آستینیں چڑھانے لگے لیکن وہ تنگ تھی اس لیے آپ نے اپنے ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکالے اور انہیں دھویا اور سر پر اور موزوں پر مسح کیا۔
حدیث حاشیہ:
تنگ آستینوں کا جبہ پہننا بھی ثابت ہوا لباس کے متعلق شریعت میں بہت وسعت ہے اس لیے کہ ہر ملک اورہر قوم کا لباس الگ الگ ہوتا ہے جائز یا ناجائز کے چند حدود بیان کر کے ان کے لباس کو ان کے حالات پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Mughira bin Shu'ba (RA) : The Prophet (ﷺ) went to answer the call of nature, and when he returned, I met him with water and he performed the ablution while he was wearing a Sham, cloak. He rinsed his mouth, put the water in his nose and blew it out, washed his face and tried to take his hands out of his sleeves, but they were too narrow, so he took out his hands from under his chest and washed them and then passed his wet hands over his head and Khuffs (leather socks) .