مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5823.
سیدہ ام خالد بنت خالد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کےپاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ چادر کس کو پہنائیں؟“ صحابہ کرام خاموش رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ام خالد ؓ کو میرے پاس لاؤ۔“ چنانچہ انہیں اٹھا کر لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنا کریہ دعا دی: ”اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔“ اس چادر میں سبز یا زرد نقش ونگار تھے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ام خالد! یہ نقش ونگار سناہ“ ہیں۔ حبشی زبان میں لفظ ”سناہ“ خوبصورت کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔
تشریح:
(1) حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا حبشہ میں پیدا ہوئی تھیں اور حبشی زبان جانتی تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر حبشی زبان میں ہی اس کپڑے کی تعریف فرمائی۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چادر کے سرخ یا زرد نقش و نگار دیکھنے لگے اور فرماتے جاتے: سناہ سناہ، یعنی بہت خوبصورت ہے، بہت خوبصورت ہے۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4024) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اسے یوں دعا دی جاتی: ’’اللہ کرے تم اسے خوب پرانا کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے بعد تمہیں اور بھی عنایت فرمائے۔‘‘ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4020) (3) اس حدیث میں کالے رنگ کے کمبل کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا کو پہنایا تھا، عنوان سے یہی مطابقت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5602
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5823
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5823
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5823
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
سیدہ ام خالد بنت خالد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کےپاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی دھاری دار اونی چادر بھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم یہ چادر کس کو پہنائیں؟“ صحابہ کرام خاموش رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ام خالد ؓ کو میرے پاس لاؤ۔“ چنانچہ انہیں اٹھا کر لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنا کریہ دعا دی: ”اللہ کرے تم اسے خوب پہنو اور پرانا کرو۔“ اس چادر میں سبز یا زرد نقش ونگار تھے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ام خالد! یہ نقش ونگار سناہ“ ہیں۔ حبشی زبان میں لفظ ”سناہ“ خوبصورت کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا حبشہ میں پیدا ہوئی تھیں اور حبشی زبان جانتی تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر حبشی زبان میں ہی اس کپڑے کی تعریف فرمائی۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چادر کے سرخ یا زرد نقش و نگار دیکھنے لگے اور فرماتے جاتے: سناہ سناہ، یعنی بہت خوبصورت ہے، بہت خوبصورت ہے۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4024) (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اسے یوں دعا دی جاتی: ’’اللہ کرے تم اسے خوب پرانا کرو اور اللہ تعالیٰ اس کے بعد تمہیں اور بھی عنایت فرمائے۔‘‘ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4020) (3) اس حدیث میں کالے رنگ کے کمبل کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام خالد رضی اللہ عنہا کو پہنایا تھا، عنوان سے یہی مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے سعید بن فلاں یعنی عمرو بن سعید بن عاص نے اور ان سے ام خالد بنت خالد ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں کچھ کپڑے لائے گئے جس میں ایک چھوٹی کالی کملی بھی تھی۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تمہارا کیاخیال ہے یہ چادر کسے دی جائے؟ صحابہ کرام ؓ خاموش رہے پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا ام خالد کو میرے پاس بلا لاؤ۔ انہیں گود میں اٹھا کر لایا گیا (کیونکہ بچی تھیں) اور آنحضرت ﷺ نے وہ چادر اپنے ہاتھ میں لی اور انہیں پہنایا اور دعا دی کہ جیتی رہو۔ اس چادر میں ہرے اور زرد نقش و نگار تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ام خالد! یہ نقش ونگار ”سناہ “ ہیں ”سناہ“ حبشی زبان میں خوب اچھے کے معنی میں آتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ام خالد حبش ہی میں پیدا ہوئی تھیں وہ حبشی زبان جاننے لگی تھیں، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خوش ہو کر حبشی زبان ہی میں اس کپڑے کی تعریف فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Khalid bint Khalid (RA) : The Prophet (ﷺ) was given some clothes including a black Khamisa. The Prophet (ﷺ) said, "To whom shall we give this to wear?" The people kept silent whereupon the Prophet (ﷺ) said, "Fetch Um Khalid for me." I (Um Khalid) was brought carried (as I was small girl at that time). The Prophet (ﷺ) took the Khamisa in his hands and made me wear it and said, "May you live so long that your dress will wear out and you will mend it many times." On the Khamisa there were some green or pale designs (The Prophet (ﷺ) saw these designs) and said, "O Um Khalid! This is Sanah." (Sanah in a Ethiopian word meaning beautiful).