باب: اس بیان میں کہ آنحضرت ﷺ کسی لباس یا فرش کے پابند نہ تھے جیسا مل جاتا اسی پر قناعت کرتے
)
Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: The Prophet (saws) used to be contented with whatever clothes or mats were available)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5844.
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ رات کے وقت بیدار ہوئے اور آپ فرما رہے تھے: "لا إله إلا اللہ'' آج کس قدر فتنے نازل ہوئے ہیں؟ اور کس قدر خزانے اترے ہیں؟ کوئی ہے جو ان حجروں میں سونے والیوں کو بیدار کرے؟ دیکھو! بہت سی عورتیں جو دنیا میں لباس پہنتی ہیں وہ قیامت کے روز ننگی ہوں گی امام زہری بیان کرتے ہیں کہ سیدہ ہند ؓ کی آستینوں میں اس کی انگلیوں کے پاس بٹن لگے ہوئے تھے۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں باریک اور چست لباس کی مذمت بیان ہوئی ہے کہ جو عورتیں دنیا میں باریک اور چست لباس پہنتی ہیں اور اپنا جسم دوسروں کو دکھاتی ہیں انہیں آخرت میں سزا دی جائے گی کہ وہ ننگی ہوں گی۔ (2) اس میں اشارہ ہے کہ عورتوں کو قیمتی اور نفیس لباس نہیں پہننا چاہیے بلکہ انہیں سادہ زندگی بسر کرتے ہوئے بقدر کفایت لباس زیب تن کرنا چاہیے۔ (3) حضرت ہند بنت حارث رضی اللہ عنہا کی آستین فراخ ہوتی تھیں، انہوں نے اپنی آستینوں پر بٹن لگا رکھے تھے تاکہ ان کے بدن کا کوئی حصہ ظاہر ہونے کے باعث حدیث میں مذکور وعید میں داخل نہ ہوں۔ (4) اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باریک اور چست لباس نہیں پہنتے تھے کیونکہ آپ نے ایسے لباس سے دوسروں کو خبردار کیا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک لباس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کو خبردار کریں پھر خود ہی اسے زیب تن کریں، گویا اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کی سادگی بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباري: 373/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5623
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5844
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5844
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5844
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج شریف میں کسی قسم کا تکلف نہ تھا اور آپ نے کسی خاص لباس یا بستر کے انتخاب میں کوئی پابندی نہیں کی بلکہ جیسا دستیاب ہوتا اس پر قناعت کرتے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیمتی لباس یا گراں قیمت بستر کے طالب نہیں تھے۔ آپ کے لباس اور بستر میں نہایت سادگی تھی۔ واللہ اعلم
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ رات کے وقت بیدار ہوئے اور آپ فرما رہے تھے: "لا إله إلا اللہ'' آج کس قدر فتنے نازل ہوئے ہیں؟ اور کس قدر خزانے اترے ہیں؟ کوئی ہے جو ان حجروں میں سونے والیوں کو بیدار کرے؟ دیکھو! بہت سی عورتیں جو دنیا میں لباس پہنتی ہیں وہ قیامت کے روز ننگی ہوں گی امام زہری بیان کرتے ہیں کہ سیدہ ہند ؓ کی آستینوں میں اس کی انگلیوں کے پاس بٹن لگے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں باریک اور چست لباس کی مذمت بیان ہوئی ہے کہ جو عورتیں دنیا میں باریک اور چست لباس پہنتی ہیں اور اپنا جسم دوسروں کو دکھاتی ہیں انہیں آخرت میں سزا دی جائے گی کہ وہ ننگی ہوں گی۔ (2) اس میں اشارہ ہے کہ عورتوں کو قیمتی اور نفیس لباس نہیں پہننا چاہیے بلکہ انہیں سادہ زندگی بسر کرتے ہوئے بقدر کفایت لباس زیب تن کرنا چاہیے۔ (3) حضرت ہند بنت حارث رضی اللہ عنہا کی آستین فراخ ہوتی تھیں، انہوں نے اپنی آستینوں پر بٹن لگا رکھے تھے تاکہ ان کے بدن کا کوئی حصہ ظاہر ہونے کے باعث حدیث میں مذکور وعید میں داخل نہ ہوں۔ (4) اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باریک اور چست لباس نہیں پہنتے تھے کیونکہ آپ نے ایسے لباس سے دوسروں کو خبردار کیا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک لباس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں کو خبردار کریں پھر خود ہی اسے زیب تن کریں، گویا اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کی سادگی بیان ہوئی ہے۔ (فتح الباري: 373/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف صنعانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر بن راشد نے خبردی، انہیں زہری نے خبر دی، انہیں ہندہ بنت حارث نے خبر دی اوران سے حضرت ام سلمہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ رات کے وقت بیدار ہوئے اورکہا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کیسی کیسی بلائیں اس رات میں نازل ہو رہی ہیں اور کیا کیا رحمتیں اس کے خزانوں سے اتر رہی ہیں۔ کوئی ہے جو ان حجرہ والیوں کو بیدار کر دے ۔ دیکھو بہت سی دنیا میں پہننے اوڑھنے والیاں آخرت میں ننگی ہوں گی۔ زہری نے بیان کیا کہ ہندہ اپنی آستینوں میں انگلیوں کے درمیان گھنڈیاں لگا تی تھیں۔ تاکہ صرف انگلیاں کھلیں اس سے آگے نہ کھلے۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ ہندہ کو اپنا جسم چھپانے کا بڑا خیال رہتا تھا۔ اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ اس میں باریک اور عمدہ کپڑوں کی مذمت ہے جو عورتیں باریک کپڑے پہنتی ہیں اور اپنا جسم اوروں کو دکھلاتی ہیں وہ آخرت میں ننگی ہوں گی یہی سزا ان کو دی جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Salama (RA) : One night the Prophet (ﷺ) woke up, saying, "None has the right to be worshipped but Allah! How many afflictions have been sent down tonight, and how many treasures have been sent down (disclosed)! Who will go and wake up (for prayers) the lady dwellers of these rooms? Many well dressed soul (people) in this world, will be naked on the Day of Resurrection."