مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5861.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رات کو چٹائی سے حجرہ سا بنا لیتے اور نماز پڈھا کرتے اور اسی چٹائی کو دن کے وقت بچھا لیتے اور اس پر بیٹھا کرتے تھے۔ پھر رات کے وقت کی اقتدا میں نماز ادا کرنے لگے۔ جب مجمع زیادہ بڑھ گیا تو آپ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”لوگو! عمل اتنے ہی کیا کرو جس قدر تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا جب تم نہ تھک جاؤ۔ اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جسے پابندی سے ہمیشہ کیا جائے، خواہ کم ہی ہو۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے چٹائی وغیرہ پر بیٹھنا ثابت کیا ہے۔ قبل ازیں کتاب الصلاۃ میں چٹائی پر نماز پڑھنے کا عنوان قائم کیا تھا۔ دراصل انہوں نے ایک روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شریح بن ہانی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز پڑھتے تھے جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے گھیرنی والی بنایا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (مسند أبی یعلی: 426/7، حدیث: 4448) (2) بہرحال چٹائی وغیرہ پر بیٹھنا اور اس پر نماز پڑھنا ثابت ہے۔ آیت کریمہ سے اس کی ممانعت کشید کرنا محل نظر ہے۔ (فتح الباري: 387/10)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5640
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5861
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5861
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5861
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
چٹائی وہ ہوتی ہے جو کھجور کے پتوں وغیرہ سے بنائی جائے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چیز جو نیچے بچھائی جائے اور وہ زیادہ نہ ہو، اس پر بیٹھنا عاجزی کی علامت ہے۔
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ رات کو چٹائی سے حجرہ سا بنا لیتے اور نماز پڈھا کرتے اور اسی چٹائی کو دن کے وقت بچھا لیتے اور اس پر بیٹھا کرتے تھے۔ پھر رات کے وقت کی اقتدا میں نماز ادا کرنے لگے۔ جب مجمع زیادہ بڑھ گیا تو آپ ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”لوگو! عمل اتنے ہی کیا کرو جس قدر تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا جب تم نہ تھک جاؤ۔ اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جسے پابندی سے ہمیشہ کیا جائے، خواہ کم ہی ہو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے چٹائی وغیرہ پر بیٹھنا ثابت کیا ہے۔ قبل ازیں کتاب الصلاۃ میں چٹائی پر نماز پڑھنے کا عنوان قائم کیا تھا۔ دراصل انہوں نے ایک روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے کہ شریح بن ہانی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز پڑھتے تھے جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے گھیرنی والی بنایا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔ (مسند أبی یعلی: 426/7، حدیث: 4448) (2) بہرحال چٹائی وغیرہ پر بیٹھنا اور اس پر نماز پڑھنا ثابت ہے۔ آیت کریمہ سے اس کی ممانعت کشید کرنا محل نظر ہے۔ (فتح الباري: 387/10)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمدبن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا، ان سے ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ رات میں چٹائی کا گھیرا بنا لیتے تھے اور ان گھیرے میں نماز پڑھتے تھے اور اسی چٹائی کو دن میں بچھاتے تھے اور اس پر بیٹھتے تھے پھر لوگ (رات کی نماز کے وقت) نبی کریم ﷺ کے پاس جمع ہونے لگے اور آنحضرت ﷺ کی نماز کی اقتداء کرنے لگے جب مجمع زیادہ بڑھ گیا تو آنحضرت ﷺ متوجہ ہوئے اور فرمایا لوگو! عمل اتنے ہی کیا کرو جتنی کہ تم میں طاقت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نہیں تھکتا جب تک تم (عمل سے) نہ تھک جاؤ اور اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے جسے پابندی سے ہمیشہ کیا جائے، خواہ وہ کم ہی ہو۔
حدیث حاشیہ:
بہترین عمل وہ ہے جس پر مواظبت کی جائے مثلاً تہجد یا اور کوئی نفلی نماز ہے خواہ رکعات کم ہی ہوں مگر ہمیشگی کرنے سے کچھ خیر وبرکت حاصل ہوتی ہے۔ آج کیا کل ترک کر دیا ایسا عمل اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی وزن نہیں رکھتا۔ یہ حکم نفل عبادت کے لیے ہے۔ فرائض پر تو محافظت کرنا لازم ہی ہے۔ روایت میں چٹائی کا ذکر آیا ہے وجہ مطابقت باب اور حدیث میں یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : The Prophet (ﷺ) used to construct a loom with a Hasir at night m order to pray therein, and during the day he used to spread it out and sit on it. The people started coming to the Prophet (ﷺ) at night to offer the prayer behind him When their number increased, the Prophet (ﷺ) faced them and said. O people! Do only those good deeds which you can do, for Allah does not get tired (of giving reward) till you get tired, and the best deeds to Allah are the incessant ones though they were few