باب: اگر کسی کپڑے میں سونے کی گھنڈی یا تکمہ لگا ہو
)
Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: Garments having fold buttons)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5862.
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ انہیں والد گرامی حضرت مخرمہ ؓ نے کہا: اے میرے بیٹے! مجھے معلوم ہوا ہے کہ نبی ﷺ کے پاس کوٹ آئے ہیں اور آپ انہیں تقسیم فرما رہے ہیں لہذا تم ہمیں آپ ﷺ کے پاس لے چلو، چنانچہ ہم گئے تو ہم نے نبی ﷺ کو آپ کے گھر ہی پایا میرے والد نے مجھ سے کہا: بیٹے! میرا نام لے کر نبی ﷺ کو بلاؤ۔ میں نے اسے بہت بڑی توہین آمیز بات قرار دیا۔ چنانچہ میں نے اپنے والد سے کہا: میں آپ کی خاطر رسول اللہ ﷺ کو بلاؤں؟ انہوں نے کہا: میرے بیٹے! آپ ﷺ کوئی جابر صفت انسان نہیں ہیں۔ بہرحال میں نے آپ کو بلایا تو آپ باہر تشریف لے آئے۔ آپ کو اوپر ایک دیبا کی قبا تھی جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے آپ نے فرمایا : ”اے مخرمہ! میں نے یہ کوٹ تمہارے لیے چھپا رکھا تھا۔“ چنانچہ آپ نے وہ (کوٹ) انہیں عنایت فرما دیا۔
تشریح:
(1) وہ کوٹ ریشم کا تھا اور اس پر سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ ممکن ہے کہ یہ واقعہ مردوں کے لیے سونے کی حرمت سے پہلے کا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہن کر تشریف لائے اور حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا تاکہ وہ اسے پہنے۔ اگر یہ واقعہ سونے کی حرمت کے بعد کا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ پر رکھا تھا پہنا ہوا نہیں تھا اور آپ نے حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کو اس لیے دیا تاکہ وہ اسے بازار میں فروخت کر کے اس کی قیمت اپنے استعمال میں لائیں یا وہ کوٹ اپنی عورتوں میں سے کسی کو پہننے کے لیے دے دیں۔ (2) واضح رہے کہ حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ مؤلفۃ القلوب سے تھے لیکن ان میں شدت اور سختی کا پہلو غالب تھا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی بہت رحیم و شفیق تھے اور اپنے ساتھیوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آتے تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (فتح الباري: 388/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5641
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5862
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5862
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5862
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
اگر کسی کپڑے کو سونے کے بٹن لگے ہوئے ہوں تو اسے مرد حضرات نہیں پہن سکتے، البتہ عورتوں کو ایسے کپڑے پہننے کی اجازت ہے۔
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ انہیں والد گرامی حضرت مخرمہ ؓ نے کہا: اے میرے بیٹے! مجھے معلوم ہوا ہے کہ نبی ﷺ کے پاس کوٹ آئے ہیں اور آپ انہیں تقسیم فرما رہے ہیں لہذا تم ہمیں آپ ﷺ کے پاس لے چلو، چنانچہ ہم گئے تو ہم نے نبی ﷺ کو آپ کے گھر ہی پایا میرے والد نے مجھ سے کہا: بیٹے! میرا نام لے کر نبی ﷺ کو بلاؤ۔ میں نے اسے بہت بڑی توہین آمیز بات قرار دیا۔ چنانچہ میں نے اپنے والد سے کہا: میں آپ کی خاطر رسول اللہ ﷺ کو بلاؤں؟ انہوں نے کہا: میرے بیٹے! آپ ﷺ کوئی جابر صفت انسان نہیں ہیں۔ بہرحال میں نے آپ کو بلایا تو آپ باہر تشریف لے آئے۔ آپ کو اوپر ایک دیبا کی قبا تھی جس میں سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے آپ نے فرمایا : ”اے مخرمہ! میں نے یہ کوٹ تمہارے لیے چھپا رکھا تھا۔“ چنانچہ آپ نے وہ (کوٹ) انہیں عنایت فرما دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) وہ کوٹ ریشم کا تھا اور اس پر سونے کے بٹن لگے ہوئے تھے۔ ممکن ہے کہ یہ واقعہ مردوں کے لیے سونے کی حرمت سے پہلے کا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہن کر تشریف لائے اور حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا تاکہ وہ اسے پہنے۔ اگر یہ واقعہ سونے کی حرمت کے بعد کا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھ پر رکھا تھا پہنا ہوا نہیں تھا اور آپ نے حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ کو اس لیے دیا تاکہ وہ اسے بازار میں فروخت کر کے اس کی قیمت اپنے استعمال میں لائیں یا وہ کوٹ اپنی عورتوں میں سے کسی کو پہننے کے لیے دے دیں۔ (2) واضح رہے کہ حضرت مخرمہ رضی اللہ عنہ مؤلفۃ القلوب سے تھے لیکن ان میں شدت اور سختی کا پہلو غالب تھا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی بہت رحیم و شفیق تھے اور اپنے ساتھیوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آتے تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (فتح الباري: 388/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور لیث بن سعد نے کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے حضرت مسور بن مخرمہ ؓ نے کہ ان سے ان کے والد حضرت مخرمہ ؓ نے کہا بیٹے مجھے معلوم ہوا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس کچھ قبائیں آئی ہیں اور آپ انہیں تقسیم فرما رہے ہیں۔ ہمیں بھی آنحضرت ﷺ کے پاس لے چلو۔ چنانچہ ہم گئے اور آنحضرت ﷺ کو آپ کے گھر ہی میں پایا۔ والد نے مجھ سے کہا بیٹے میرا نام لے کر آنحضرت ﷺ کو بلاؤ۔ میں نے اسے بہت بڑی توہین آمیز بات سمجھا (کہ آنحضرت ﷺ کو اپنے والد کے لیے بلا کر تکلیف دوں) چنانچہ میں نے والد صاحب سے کہا کہ میں آپ کے لیے آنحضرت ﷺ کو بلاؤں! انہوں نے کہا کہ بیٹے ہاں۔ آپ کوئی جابر صفت انسان نہیں ہیں۔ چنانچہ میں نے بلایا تو آنحضرت ﷺ باہر تشریف لے آئے۔ آپ کے اوپر دیبا کی ایک قبا تھی جس میں سونے کی گھنڈیاں لگی ہوئی تھیں۔ آپ نے فرمایا، مخرمہ اسے میں نے تمہارے لیے چھپا کے رکھا ہوا تھا۔ چنانچہ آپ نے وہ قبا انہیں عنایت فرما دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
My father, Makhrama said to me, "I have come to know that some cloaks have come to the Prophet (ﷺ) and he is distributing them. So O my son! take me to him." We went to the Prophet (ﷺ) and found him in the house. My father said to me, "O my son! Call the Prophet (ﷺ) for me." I found it hard to do so, so I said surprisingly, "Shall I call Allah's Messenger (ﷺ) for you ?" My father said, "O mu son! He is not a tyrant." So I called him and he came out wearing a Dibaj cloak having gold buttons, and said: "O Makhrama, I kept this for you." The Prophet (ﷺ) then gave it to him.