مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5899.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”یہود نصاریٰ اپنے بالوں کو رنگ نہیں کرتے تم ان کی مخالفت کرو۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ سفید بالوں کا رنگنا ضروری ہے، خواہ زندگی بھر میں ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جمہور اہل علم نے اس امر کو استحباب پر محمول کیا ہے، یعنی رنگنا بہتر ہے، لیکن بالوں کو سفید رکھنا بھی جائز ہے، تاہم سیاہ خضاب کسی صورت میں جائز نہیں جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا تو ان کے سر اور داڑھی کے بال ثُغَامَہ بوٹی کی طرح سفید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں کسی رنگ سے بدل دو لیکن سیاہ رنگ سے بچو۔‘‘ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5508 (2102)) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آخر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو سیاہ رنگ سے بال رنگیں گے جیسے کبوتروں کے سینے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گے۔‘‘ (سنن النسائی، الزینة، حدیث: 5078) ان احادیث کی بنا پر سر یا داڑھی کے بالوں کو سیاہ رنگ کرنا حرام ہے۔ مردوں اور عورتوں سب کے لیے ایک ہی حکم ہے۔ مہندی یا کتم سے سرخ کرنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’سب سے بہتر چیز جس سے یہ سفید بال رنگے جاتے ہیں، مہندی اور کتم ہے۔ (جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1753) (2) کتم ایک خاص پہاڑی بوٹی ہے جو یمن میں بکثرت پائی جاتی ہے۔ اس کے پتے بطور خضاب استعمال ہوتے ہیں۔ اس کا رنگ سیاہی مائل ہے۔ اسے مہندی میں ملا کر بطور خضاب استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آج کل بازار میں مختلف قسم کی ’’کریم‘‘ مل جاتی ہے جو خضاب کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ بہرحال سیاہ رنگ کے علاوہ کوئی بھی رنگ بالوں کو لگایا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5679
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5899
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5899
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5899
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”یہود نصاریٰ اپنے بالوں کو رنگ نہیں کرتے تم ان کی مخالفت کرو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ سفید بالوں کا رنگنا ضروری ہے، خواہ زندگی بھر میں ایک دفعہ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جمہور اہل علم نے اس امر کو استحباب پر محمول کیا ہے، یعنی رنگنا بہتر ہے، لیکن بالوں کو سفید رکھنا بھی جائز ہے، تاہم سیاہ خضاب کسی صورت میں جائز نہیں جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا تو ان کے سر اور داڑھی کے بال ثُغَامَہ بوٹی کی طرح سفید تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں کسی رنگ سے بدل دو لیکن سیاہ رنگ سے بچو۔‘‘ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5508 (2102)) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آخر زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو سیاہ رنگ سے بال رنگیں گے جیسے کبوتروں کے سینے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گے۔‘‘ (سنن النسائی، الزینة، حدیث: 5078) ان احادیث کی بنا پر سر یا داڑھی کے بالوں کو سیاہ رنگ کرنا حرام ہے۔ مردوں اور عورتوں سب کے لیے ایک ہی حکم ہے۔ مہندی یا کتم سے سرخ کرنا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’سب سے بہتر چیز جس سے یہ سفید بال رنگے جاتے ہیں، مہندی اور کتم ہے۔ (جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1753) (2) کتم ایک خاص پہاڑی بوٹی ہے جو یمن میں بکثرت پائی جاتی ہے۔ اس کے پتے بطور خضاب استعمال ہوتے ہیں۔ اس کا رنگ سیاہی مائل ہے۔ اسے مہندی میں ملا کر بطور خضاب استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آج کل بازار میں مختلف قسم کی ’’کریم‘‘ مل جاتی ہے جو خضاب کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ بہرحال سیاہ رنگ کے علاوہ کوئی بھی رنگ بالوں کو لگایا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا ان سے ابو سلمہ اور سلیمان بن یسار نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ یہود ونصاریٰ خضاب نہیں لگاتے تم ان کے خلاف کرو یعنی خضاب کیا کرو۔
حدیث حاشیہ:
لال یا زرد خضاب کرنا یا مہندی وسم کا خضاب جس سے بالوں میں کالک اور سرخی آتی ہے جائز ہے لیکن بالکل کالا خضاب کرنا ممنوع ہے۔ کہتے ہیں کالا خضاب پہلے فرعون نے کیا تھا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرات شیخین مہندی اور وسم کا خضاب کیا کرتے تھے۔ حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلام کی نیشن یعنی قومیت ایک مستقل چیز ہے جو مسلمان کی خاص وضع قطع شکل صورت لباس وغیرہ میں داخل ہے۔ یہودیوں وغیرہ کی مخالفت کرنے کا مفہوم یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Jews and Christians do not dye their hair so you should do the opposite of what they do.