مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5919.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک رات اپنی خالہ سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے گھر سویا جبکہ اس رات رسول اللہ ﷺ ان کی باری کی وجہ سے ان کے پاس تھے۔ رسول اللہ ﷺ رات کی نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ ﷺ نے میرےگیسو پکڑے اور مجھے اپنی دائیں جانب کر لیاعمرو بن محمد نے کہا: ہم سے ہیشم نے بیان کیا، انہیں ابو بشیر نے خبر دی کہ ابن عباس نے کہا: آپ نے میری چوٹی یا میرا سر پکڑا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے گیسو تھے۔ اس سے زلفیں بنانے کا جواز ثابت ہوا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی گیسو تھے، چنانچہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے بالوں کی چار لٹیں، یعنی گندھی ہوئی چار زلفیں تھیں۔ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3631) اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری لمبی لمبی زلفیں تھیں۔ میری والدہ ماجدہ نے مجھے کہا کہ انہیں مت کاٹو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیار سے کھینچتے تھے اور پکڑ لیا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4196) (2) اہل بدعت کے ہاں یہ رواج ہے کہ وہ اپنے پیروں کے نام سے کچھ بال رکھ لیتے ہیں، چنانچہ سر میں ایک لٹ لٹکتی رہتی ہے۔ ان کا یہ عمل حرام ہے کیونکہ یہ بال غیراللہ کے لیے رکھے جاتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5695
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5919
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5919
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5919
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
بالوں کو گوندھ کر زلفیں بنانا ذؤابہ کہلاتا ہے۔ اس کی جمع ذوائب ہے۔ اسے کتاب اللباس میں اس لیے لایا گیا ہے کہ لباس کی طرح ان بالوں میں بھی زینت ہے، گویا زینت ہونے میں بال اور لباس دونوں مشترک ہیں۔ اس عنوان کے تحت گیسو بنانے کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک رات اپنی خالہ سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے گھر سویا جبکہ اس رات رسول اللہ ﷺ ان کی باری کی وجہ سے ان کے پاس تھے۔ رسول اللہ ﷺ رات کی نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ ﷺ نے میرےگیسو پکڑے اور مجھے اپنی دائیں جانب کر لیاعمرو بن محمد نے کہا: ہم سے ہیشم نے بیان کیا، انہیں ابو بشیر نے خبر دی کہ ابن عباس نے کہا: آپ نے میری چوٹی یا میرا سر پکڑا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے گیسو تھے۔ اس سے زلفیں بنانے کا جواز ثابت ہوا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی گیسو تھے، چنانچہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے بالوں کی چار لٹیں، یعنی گندھی ہوئی چار زلفیں تھیں۔ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3631) اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری لمبی لمبی زلفیں تھیں۔ میری والدہ ماجدہ نے مجھے کہا کہ انہیں مت کاٹو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیار سے کھینچتے تھے اور پکڑ لیا کرتے تھے۔ (سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4196) (2) اہل بدعت کے ہاں یہ رواج ہے کہ وہ اپنے پیروں کے نام سے کچھ بال رکھ لیتے ہیں، چنانچہ سر میں ایک لٹ لٹکتی رہتی ہے۔ ان کا یہ عمل حرام ہے کیونکہ یہ بال غیراللہ کے لیے رکھے جاتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے فضل بن عنبسہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشیم بن بشیر نے خبر دی، کہا ہم کو ابو البشر جعفر نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری نے کہا اور ہم سے قریبہ بن سعید نے کہا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا، ان سے ابو بشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ بنت حارث ؓ کے گھر گزاری، رسول اللہ ﷺ کے لیے اس رات انہیں کے ہاں باری تھی۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ پھر حضور اکرم ﷺ رات کی نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے بائیں کھڑا ہو گیا۔ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ اس پر آنحضرت ﷺ نے میرے سر کے بالوں کی ایک لٹ پکڑی اور مجھے اپنی داہنی طرف کدیا۔
حدیث حاشیہ:
حدثنا عمرو بن محمد، حدثنا هشيم، أخبرنا أبو بشر، بهذا، وقال بذؤابتي أو برأسي. ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ، کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی ، پھر یہی حدیث نقل کی اس میں یوں ہے کہ میری چوٹی پکڑ کریا میرا سر پکڑ کر آپ نے مجھے اپنے داہنے جانب کردیا ۔ تشریح : معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما گیسووالے تھے۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بال پکڑ کر دائیں طرف کھڑا کر دیا۔ اس لیے کہ ان کا بائیں طرف کھڑا ہونا غلط تھا ۔ ایسی حالت میں مقتدی کو امام کے دائیں کھڑا ہونا چاہیئے۔ بدعتی قبر پرست پیر زادوں کا سجادہ نشینوں کی طرح گیسورکھ کر ان کو کاندھوں سے بھی نیچے تک لٹکانا اور ریاکاری کے لیے اپنے کو پیر درویش ظاہر کرنا یہ وہ بد ترین حرکت ہے جس سے اہل اسلام کو سخت پر ہیز کی ضرورت ہے۔ بلکہ ایسے پیروں اور فقیروں اورمکاروں کے جال میں ہر گز نہ آنا چاہیئے۔ اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نہ باید داد دست
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : Once I stayed overnight in the house of my aunt Maimuna bint Al-Harith and Allah's Apostle (ﷺ) was with her as it was her turn. Allah's Apostle (ﷺ) got up to offer the night prayer. I stood on his left but he took hold of my two locks of hair and made me stand on his right.