Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: The woman who practices tattooing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5945.
حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خون کی قیمت اور کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے: نیز آپ نے سود دینے والے، سود لینے والے، سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی(پر لعنت بھیجی ہے)
تشریح:
(1) امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ واشمہ وہ ہے جو چہرے کی جلد پر سرمے یا سیاہی سے تِل وغیرہ بناتی ہو اور مستوشمہ وہ ہے جو یہ کام کرواتی ہو۔ (سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4170) اس وضاحت میں چہرے کا ذکر اغلبیت کی بنا پر ہے کیونکہ یہ عمل ہر صورت میں حرام ہے، خواہ وہ چہرے پر ہو یا ہاتھ میں یا پیشانی وغیرہ میں۔ اس کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً: بیل بوٹے بنائے جاتے ہیں، کبھی چاند ستارہ بنایا جاتا ہے، بعض اوقات کسی دوست کا نام لکھوا لیا جاتا ہے۔ بہرحال یہ کام حرام ہے کیونکہ اس کے ارتکاب پر لعنت کی وعید ہے۔ اس نشان کا ختم کرنا ضروری ہے، خواہ وہ جگہ زخمی ہو جائے۔ اگر اس محل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے باقی رکھا جا سکتا ہے لیکن اس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اس عمل سے مرد اور عورت دونوں برابر ہیں، یعنی دونوں کے لیے حرام اور ناجائز ہے۔ (فتح الباري: 457/10) (2) قیس بن ابو حازم کہتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر گیا تو میں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے ہاتھ پر سرمہ بھرنے کے نشانات دیکھے تھے، ممکن ہے کہ انہوں نے ممانعت سے پہلے یہ عمل کیا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہاتھ میں کوئی زخم ہو، انہوں نے دوا کے طور پر وہاں سرمہ لگایا ہو اور زخم مندمل ہونے کے بعد سرمے کے نشانات ہاتھ میں باقی رہ گئے۔ (فتح الباري: 462/10)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5722
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5945
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5945
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5945
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
عرب کی عورتوں میں یہ رسم بد تھی کہ خوبصورتی کے لیے جسم کے کسی بھی حصے میں سرمہ بھرنے کا کام کرتی تھیں۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ مطلوبہ جگہ کو سوئی وغیرہ سے خون آلود کر کے وہاں سرمہ بھر دیا جاتا، اس طرح جلد کے عام رنگ سے مختلف سرخ رنگت وہاں ظاہر ہو جاتی۔ چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنا تھا، اس لیے شریعت نے اس کام سے صرف منع ہی نہیں کیا بلکہ اسے باعث لعنت قرار دیا ہے۔
حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خون کی قیمت اور کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے: نیز آپ نے سود دینے والے، سود لینے والے، سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی(پر لعنت بھیجی ہے)
حدیث حاشیہ:
(1) امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ واشمہ وہ ہے جو چہرے کی جلد پر سرمے یا سیاہی سے تِل وغیرہ بناتی ہو اور مستوشمہ وہ ہے جو یہ کام کرواتی ہو۔ (سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4170) اس وضاحت میں چہرے کا ذکر اغلبیت کی بنا پر ہے کیونکہ یہ عمل ہر صورت میں حرام ہے، خواہ وہ چہرے پر ہو یا ہاتھ میں یا پیشانی وغیرہ میں۔ اس کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً: بیل بوٹے بنائے جاتے ہیں، کبھی چاند ستارہ بنایا جاتا ہے، بعض اوقات کسی دوست کا نام لکھوا لیا جاتا ہے۔ بہرحال یہ کام حرام ہے کیونکہ اس کے ارتکاب پر لعنت کی وعید ہے۔ اس نشان کا ختم کرنا ضروری ہے، خواہ وہ جگہ زخمی ہو جائے۔ اگر اس محل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے باقی رکھا جا سکتا ہے لیکن اس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اس عمل سے مرد اور عورت دونوں برابر ہیں، یعنی دونوں کے لیے حرام اور ناجائز ہے۔ (فتح الباري: 457/10) (2) قیس بن ابو حازم کہتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر گیا تو میں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے ہاتھ پر سرمہ بھرنے کے نشانات دیکھے تھے، ممکن ہے کہ انہوں نے ممانعت سے پہلے یہ عمل کیا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہاتھ میں کوئی زخم ہو، انہوں نے دوا کے طور پر وہاں سرمہ لگایا ہو اور زخم مندمل ہونے کے بعد سرمے کے نشانات ہاتھ میں باقی رہ گئے۔ (فتح الباري: 462/10)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد (ابوحجیفہ ؓ ) کو دیکھا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے خون کی قیمت، کتے کی قیمت کھانے سے منع فرمایا اور سود لینے والے اور دینے والے، گودنے والی (پر لعنت بھیجی)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Juhaifa (RA) : The Prophet (ﷺ) forbade the use of the price of blood and the price of a dog, the one who takes (eats) usury the one who gives usury, the woman who practises tattooing and the woman who gets herself tattooed.