باب: اس بارے میں کہ مسئلے مسائل کی باتیں اور نیک باتیں عشاء کے بعد بھی کرنا درست ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Talking about the Islamic jurisprudence and good things after the 'Isha prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
600.
حضرت قرہ بن خالد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک دفعہ حضرت حسن بصری کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے تشریف لانے میں اتنی دیر کر دی کہ (مسجد سے) ان کی برخاستگی کا وقت قریب آ گیا۔ بہرحال وہ تشریف لائے اور فرمایا: ہمیں ہمارے پڑوسیوں نے دعوت دی تھی (اس لیے دیر ہو گئی) پھر انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ہم نے ایک رات نبی ﷺ کا انتظار کیا تاآنکہ آدھی رات ہو گئی، اس کے بعد آپ تشریف لائے اور ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’خبردار! لوگ تو نماز پڑھ کر سو گئے اور تم برابر نماز میں رہے جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہے۔‘‘ اس حدیث کے پیش نظر حضرت حسن بصری نے فرمایا: لوگ اس وقت تک خیر میں رہتے ہیں جب تک وہ خیر کا انتظار کرتے رہیں۔ قرہ بن خالد نے کہا: حضرت حسن بصری کا مذکورہ فرمان بھی حضرت انس ؓ سے مروی اس حدیث سے ماخوذ ہے جو انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کی ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز عشاء کے بعد دین اور خیرخواہی کی باتیں کرنا ممنوع نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیق ؓ رات کے وقت مسلمانوں کے معاملات کے متعلق باہم گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اس مجلس مشاورت میں شریک رہتا تھا۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث :169) اگرچہ عام حالات میں نماز عشاء کے بعد سونا چاہیے لیکن اگر کوئی کار خیر سامنے آ جائے یا علمی کام کرنا ہو یا مسلمانوں کے متعلق کوئی رفاہی معاملہ نمٹانا ہو تو عشاء کے بعد گفتگو کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ صبح کی نماز فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو، چنانچہ امام حسن بصری ؒ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ رات کے وقت مسجد میں ایک علمی مجلس کا اہتمام کرتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے، نیز اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا۔ امام بخاری ؒ کا محل استدلال یہی خطبہ ہے۔ (2) واضح رہے کہ حضرت انس ؓ سے جب یہ روایت حمید الطویل بیان کرتے ہیں تو اس میں رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی اور اس کی چمک وغیرہ کی منظر کشی کی گئی ہے، وہ بھی قابل ملاحظہ ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5869)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
596
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
600
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
600
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
600
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت قرہ بن خالد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک دفعہ حضرت حسن بصری کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے تشریف لانے میں اتنی دیر کر دی کہ (مسجد سے) ان کی برخاستگی کا وقت قریب آ گیا۔ بہرحال وہ تشریف لائے اور فرمایا: ہمیں ہمارے پڑوسیوں نے دعوت دی تھی (اس لیے دیر ہو گئی) پھر انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ہم نے ایک رات نبی ﷺ کا انتظار کیا تاآنکہ آدھی رات ہو گئی، اس کے بعد آپ تشریف لائے اور ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’خبردار! لوگ تو نماز پڑھ کر سو گئے اور تم برابر نماز میں رہے جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہے۔‘‘ اس حدیث کے پیش نظر حضرت حسن بصری نے فرمایا: لوگ اس وقت تک خیر میں رہتے ہیں جب تک وہ خیر کا انتظار کرتے رہیں۔ قرہ بن خالد نے کہا: حضرت حسن بصری کا مذکورہ فرمان بھی حضرت انس ؓ سے مروی اس حدیث سے ماخوذ ہے جو انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز عشاء کے بعد دین اور خیرخواہی کی باتیں کرنا ممنوع نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر صدیق ؓ رات کے وقت مسلمانوں کے معاملات کے متعلق باہم گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اس مجلس مشاورت میں شریک رہتا تھا۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث :169) اگرچہ عام حالات میں نماز عشاء کے بعد سونا چاہیے لیکن اگر کوئی کار خیر سامنے آ جائے یا علمی کام کرنا ہو یا مسلمانوں کے متعلق کوئی رفاہی معاملہ نمٹانا ہو تو عشاء کے بعد گفتگو کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ صبح کی نماز فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو، چنانچہ امام حسن بصری ؒ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ رات کے وقت مسجد میں ایک علمی مجلس کا اہتمام کرتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے، نیز اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا۔ امام بخاری ؒ کا محل استدلال یہی خطبہ ہے۔ (2) واضح رہے کہ حضرت انس ؓ سے جب یہ روایت حمید الطویل بیان کرتے ہیں تو اس میں رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی اور اس کی چمک وغیرہ کی منظر کشی کی گئی ہے، وہ بھی قابل ملاحظہ ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5869)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعلی عبیداللہ حنفی نے، کہا ہم سے قرہ بن خالد سدوسی نے، انھوں نے کہا کہ ایک دن حضرت حسن بصری ؓ علیہ نے بڑی دیر کی۔ اور ہم آپ کا انتظار کرتے رہے۔ جب ان کے اٹھنے کا وقت قریب ہو گیا تو آپ آئے اور (بطور معذرت) فرمایا کہ میرے ان پڑوسیوں نے مجھے بلا لیا تھا ( اس لیے دیر ہو گئی ) پھر بتلایا کہ انس بن مالک ؓ نے کہا تھا کہ ہم ایک رات نبی کریم ﷺ کا انتظار کرتے رہے۔ تقریباً آدھی رات ہو گئی تو آپ ﷺ تشریف لائے، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ اس کے بعد خطبہ دیا۔ پس آپ نے فرمایا کہ دوسروں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے۔ لیکن تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے ہو گویا نماز ہی کی حالت میں رہے ہو۔ امام حسن بصری ؓ علیہ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی خیر کے انتظار میں بیٹھے رہیں تو وہ بھی خیر کی حالت ہی میں ہیں۔ قرہ بن خالد نے کہا کہ حسن کا یہ قول بھی حضرت انس ؓ کی حدیث کا ہے جو انھوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترمذی ؒ نے حضرت عمرؓ کی ایک حدیث روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ اور ابوبکر ؓ رات میں مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اورمیں بھی اس میں شریک رہتا تھا۔ یعنی اگرچہ عام حالات میں عشاء کے بعد سو جانا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی کار خیر پیش آ جائے یاعلمی ودینی کوئی کام کرنا ہو تو عشاء کے بعد جاگنے میں بشرطیکہ صبح کی نماز چھوٹنے کا خطرہ نہ ہو کوئی مضائقہ نہیں۔ امام حسن بصری ؒ کا معمول تھا کہ روزانہ رات میں تعلیم کے لیے مسجد میں بیٹھا کرتے تھے، لیکن آج آنے میں دیر کی اوراس وقت آئے جب یہ تعلیمی مجلس حسب معمول ختم ہوجانی چاہیے تھی۔ حضرت حسن ؒ نے اس کے بعد لوگوں کو نصیحت کی اور فرمایا کہ آنحضور ﷺ نے ایک مرتبہ دیرمیں نمازپڑھائی اور یہ فرمایا۔ یہ حدیث دوسری سندوں کے ساتھ پہلے بھی گزر چکی ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عشاء كے بعد دین اور بھلائی کی باتیں کرنا ممنوع نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qurra bin Khalid (RA): Once he waited for Al-Hasan and he did not show up till it was about the usual time for him to start his speech; then he came and apologized saying, "Our neighbors invited us." Then he added, "Narrated Anas (RA), 'Once we waited for the Prophet (ﷺ) till it was midnight or about midnight. He came and led the prayer, and after finishing it, he addressed us and said, 'All the people prayed and then slept and you had been in prayer as long as you were waiting for it." Al-Hasan said, "The people are regarded as performing good deeds as long as they are waiting for doing good deeds." Al-Hasan's statement is a portion of Anas's Hadith from the Prophet.