Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: How the Adhan for Salat (Prayer) was started)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وضاحت کہ “ اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو، تو وہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں۔ ” اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب تمہیں جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے پکارا جائے۔ ( تو اللہ کی یاد کرنے کے لیے فوراً چلے آؤ۔
603.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نماز کے اعلان کے لیے لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا، اس سلسلے میں انہوں نے یہودونصاریٰ کا بھی تذکرہ کیا تو حضرت بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے ایک ایک مرتبہ کہے۔
تشریح:
(1) مذکورہ روایت میں بہت اختصار ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ جب مسلمان تعداد میں زیادہ ہو گئے تو انھوں نے ایک تجویز پاس کی کہ نماز کے وقت کے لیے کوئی علامت مقرر کریں جس سے نماز کے وقت کا علم ہوجایا کرے تو کچھ نے آگ جلانے اور کچھ نے ناقوس بجانے کا مشورہ دیا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:606) اس سے زیادہ وضاحت ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے ناقوس بجانے کی تجویز دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اسے تو عیسائی لوگ استعمال کرتے ہیں۔‘‘ پھر بگل پھونکنے کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:’’یہ تو یہود کی علامت ہے۔‘‘لوگوں نے کہا:کسی بلندجگہ پر آگ کا الاؤروشن کردیا جائے تو آپ نے فرمایا:’’یہ تو مجوسیوں کا شعار ہے۔‘‘(فتح الباري:105/2-106) ایک روایت میں نماز کے وقت جھنڈا بلند کرنے کا بھی ذکر ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ اس سلسلے میں کافی پریشان رہتے تھے اور آپ کی پریشانی دیکھ کر حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ بھی بہت فکر مند ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اذان کے متعلق خواب دیکھنے کی سعادت نصیب فرمادی۔ چونکہ وہ بیمار تھے، اس لیے اذان دینے کےلیے حضرت بلال ؓ کا نام تجویز ہوا کہ عبداللہ بن زید ؓ انھیں کلمات اذان کی تلقین کریں اور بلال بآواز بلند اس کا اعلان کریں۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:498)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
599
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
603
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
603
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
603
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اذان کاآغاز کب اور کیسے ہوا۔اس سلسلے میں انھوں نے دو آیات کا حوالہ دیا ہے اور دونوں آیات مدنی ہیں۔ان آیات میں اذان کا ذکر ہے۔معلوم ہوا کہ اذان کا آغاز مدینہ منورہ میں ہوا۔ان آیات سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ اذان کا فیصلہ وحی کے ذریعے سے ہوا تھا۔جو حضرات کہتے ہیں کہ اذان کا آغاز خواب کے ذریعے سے ہوا،ان کا موقف ہے کہ اس خواب کی تائید وحی کے ذریعے سے ہوئی اور ان کے نزدیک امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آیات کا حوالہ تقدم وحی بتانے کےلیے نہیں بلکہ بطور تبرک دیا۔والله اعلم.
اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی وضاحت کہ “ اور جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو، تو وہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں۔ ” اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب تمہیں جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے پکارا جائے۔ ( تو اللہ کی یاد کرنے کے لیے فوراً چلے آؤ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نماز کے اعلان کے لیے لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا، اس سلسلے میں انہوں نے یہودونصاریٰ کا بھی تذکرہ کیا تو حضرت بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے ایک ایک مرتبہ کہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ روایت میں بہت اختصار ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ جب مسلمان تعداد میں زیادہ ہو گئے تو انھوں نے ایک تجویز پاس کی کہ نماز کے وقت کے لیے کوئی علامت مقرر کریں جس سے نماز کے وقت کا علم ہوجایا کرے تو کچھ نے آگ جلانے اور کچھ نے ناقوس بجانے کا مشورہ دیا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:606) اس سے زیادہ وضاحت ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے ناقوس بجانے کی تجویز دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اسے تو عیسائی لوگ استعمال کرتے ہیں۔‘‘ پھر بگل پھونکنے کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:’’یہ تو یہود کی علامت ہے۔‘‘لوگوں نے کہا:کسی بلندجگہ پر آگ کا الاؤروشن کردیا جائے تو آپ نے فرمایا:’’یہ تو مجوسیوں کا شعار ہے۔‘‘(فتح الباري:105/2-106) ایک روایت میں نماز کے وقت جھنڈا بلند کرنے کا بھی ذکر ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ اس سلسلے میں کافی پریشان رہتے تھے اور آپ کی پریشانی دیکھ کر حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ بھی بہت فکر مند ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اذان کے متعلق خواب دیکھنے کی سعادت نصیب فرمادی۔ چونکہ وہ بیمار تھے، اس لیے اذان دینے کےلیے حضرت بلال ؓ کا نام تجویز ہوا کہ عبداللہ بن زید ؓ انھیں کلمات اذان کی تلقین کریں اور بلال بآواز بلند اس کا اعلان کریں۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:498)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جب تم نماز کے لیے اذان دیتے ہو تو یہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے اور اسے شغل بناتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ بےوقوف ہیں۔" نیز اللہ عزوجل کا فرمان ہے: "جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے (تو ذکر الہیٰ کی طرف دوڑ کر آؤ)۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انھوں نے حضرت انس ؓ سے کہ (نماز کے وقت کے اعلان کے لیے) لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ پھر یہود و نصاریٰ کا ذکر آ گیا۔ پھر بلال ؓ کو یہ حکم ہوا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت میں ایک ایک مرتبہ۔
حدیث حاشیہ:
امیرالمحدثین حضرت امام بخاری ؒ نے کتاب الأذان قائم فرما کر باب بدء الأذان کو قرآن پاک کی دوآیات مقدسہ سے شروع فرمایا جس کا مقصد یہ ہے کہ اذان کی فضیلت قرآن شریف سے ثابت ہے اوراس طرف بھی اشارہ ہے کہ اذان کی ابتدا مدینہ میں ہوئی، کیونکہ یہ دونوں سورتیں جن کی آیات نقل کی گئی ہیں، یعنی سورۃ مائدة اورسورۃ جمعہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ اذان کی تفصیلات کے متعلق حضرت مولانا عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ''وهوفیي اللغة الإعلام وفي الشرع الإعلام بوقت الصلوٰة بألفاظ مخصوصة''’’یعنی لغت میں اذان کے معنی اطلاع کرنا اور شرع میں مخصوص لفظوں کے ساتھ نمازوں کے اوقات کی اطلاع کرنا۔‘‘ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں تعمیر مسجد نبوی کے بعد سوچا گیا کہ مسلمانوں کونماز کے لیے وقت مقررہ پر کس طرح اطلاع کی جائے۔ چنانچہ یہودونصاریٰ ومجوس کے مروجہ طریقے سامنے آئے۔ جو وہ اپنی عبادت گاہوں میں لوگوں کو بلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسلام میں ان سب چیزوں کو ناپسند کیاگیاکہ عبادت الٰہی کے بلانے کے لیے گھنٹے یا ناقوس کا استعمال کیا جائے۔ یا اس کی اطلاع کے لیے آگ روشن کردی جائے۔ یہ مسئلہ درپیش ہی تھا کہ ایک صحابی عبداللہ بن زید انصاری خزرجی ؓ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ان کو نماز کے وقتوں کی اطلاع کے لیے مروجہ اذان کے الفاظ سکھا رہا ہے۔ وہ صبح اس خواب کو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کرنے آئے تودیکھا گیا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ بھی دوڑے چلے آرہے ہیں۔ اورآپ بھی حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ خواب میں ان کو بھی ہوبہو ان ہی کلمات کی تلقین کی گئی ہے۔ آنحضرت ﷺ ان بیانات کو سن کر خوش ہوئے۔ اورفرمایا کہ یہ خواب بالکل سچے ہیں۔ اب یہی طریقہ رائج کر دیا گیا۔ یہ خواب کا واقعہ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعدپہلے سال ہی کا ہے۔ جیسا کہ حافظ نے تہذیب التہذیب میں بیان کیا ہے کہ آپ نے جناب عبداللہ بن زید ؓ سے فرمایا کہ تم یہ الفاظ بلال ؓ کو سکھا دو، ان کی آواز بہت بلند ہے۔ اس حدیث اوراس کے علاوہ اوربھی متعدد احادیث میں تکبیر (اقامت) کے الفاظ ایک ایک مرتبہ ادا کرنے کا ذکر ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ''قال الخطابي: مذهب جمهور العلماء والذي جری به العمل في الحرمین والحجاز والشام والیمن ومصر و المغرب إلی أقصی بلاد الإسلام أن الإقامة فرادی'' ( نیل ) ’’یعنی امام خطابی نے کہا کہ جمہور علماءکا یہی فتویٰ ہے تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ حرمین اورحجاز اورشام اوریمن اور مصر اور دور دراز تک تمام ممالک اسلامیہ غربیہ میں یہی معمول ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جاتی ہے۔ اگرچہ تکبیراقامت میں جملہ الفاظ کا دو دو دفعہ مثل اذان کے کہنا بھی جائز ہے۔ مگر ترجیح اسی کو ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔‘‘ مگر برادران احناف اس کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اکہری تکبیر سن کر بیشتر چونک جاتے ہیں اور دوبارہ تکبیر اپنے طریق پر کہلواتے ہیں۔ یہ رویہ کس قدر غلط ہے کہ ایک امر جائز جس پر دنیائے اسلام کا عمل ہے، اس سے اس قدر نفرت کی جائے۔ بعض علمائے احناف نے اکہری تکبیر والی حدیث کو منسوخ قرار دیاہے۔ اورکئی طرح کی تاویلات رکیکہ سے کام لیاہے۔ حضرت الشیخ الکبیر والمحدث الجلیل علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ''والحق أن أحادیث إفراد الإقامة صحیحة ثابتة محکمة لیست بمنسوخة ولابمؤولة۔''(تحفة الأحوذي)’’یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر کی احادیث صحیح اور ثابت ہیں۔ اس قدر مضبوط کہ نہ وہ منسوخ ہیں اورنہ تاویل کے قابل ہیں۔‘‘ اسی طرح تکبیر دودو دفعہ کہنے کی احادیث بھی محکم ہیں۔ پس میرے نزدیک تکبیر اکہری کہنا بھی جائز ہے اوردوہری کہنا بھی جائز ہے۔ تکبیراکہری کے وقت الفاظ ''قد قامت الصلوٰة قد قامت الصلوٰة'' دو دو دفعہ کہنے ہوں گے جیسا کہ روایات میں مذکور ہے۔ حضرت علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں:''وهو مع قلة ألفاظه مشتمل علی مسائل العقائد کما بین ذلك الحافظ في الفتح نقلا عن القرطبي۔'' ’’یعنی اذان میں اگرچہ الفاظ تھوڑے ہیں مگر اس میں عقائد کے بہت سے مسائل آگئے ہیں جیسا کہ فتح الباری میں حافظ نے قرطبی سے نقل کیاہے۔‘‘ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’اذان کے کلمات باوجود قلت الفاظ دین کے بنیادی عقائد اورشعائر پر مشتمل ہیں۔ سب سے پہلا لفظ ''اللہ أکبر'' یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اورسب سے بڑا ہے، یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اورعظمت پر دلالت کرتاہے۔ ''أشهد أن لا إله إلا اللہ'' بجائے خود ایک عقیدہ ہے اورکلمہ شہادت کا جزء۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا اوریکتا ہے۔ اوروہی معبود ہے۔ کلمہ شہادت کا دوسرا جز ''أشهدأن محمدارسول اللہ'' ہے۔ جس سے محمد ﷺ کی رسالت ونبوت کی گواہی دی جاتی ہے۔ ''حي علی الصلوٰة'' پکار ہے، اس کی کہ جس نے اللہ کی وحدانیت اورمحمد ﷺ کی رسالت کی گواہی دے دی وہ نماز کے لیے آئے کہ نماز قائم کی جا رہی ہے۔ اس نماز کے پہنچانے والے اوراپنے قول وفعل سے اس کے طریقوں کو بتلانے والے رسول اللہ ﷺ ہی تھے۔ اس لیے آپ ﷺ کی رسالت کی شہادت کے بعد فوراً ہی اس کی دعوت دی گئی۔ اور اگرنماز آپ ﷺ نے پڑھ لی اور بتمام و اکمال آپ نے اسے ادا کیا تو یہ اس بات کی ضامن ہے کہ آپ نے ’’فلاح‘‘ حاصل کرلی۔ ''حي علی الفلاح '' نماز کے لیے آئیے! آپ کو یہاں فلاح یعنی بقاء دائم اورحیات آخرت کی ضمانت دی جائے گی، آئیے، چلے آئیے کہ اللہ کے سوا عبادت کے لائق اورکوئی نہیں۔ اس کی عظمت وکبریائی کے سایہ میں آپ کو دنیا اورآخرت کے شرور و آفات سے پناہ مل جائے گی۔ اوّل بھی اللہ ہے اورآخر بھی اللہ۔ خالق کل، مالک یکتا اورمعبود، پس اس کی دی ہوئی ضمانت سے بڑھ کر اورکون سی ضمانت ہوسکتی ہے۔ اللہ أکبر، اللہ أکبر، لاإله إلا اللہ۔''( تفهیم البخاري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The people mentioned the fire and the bell (they suggested those as signals to indicate the starting of prayers), and by that they mentioned the Jews and the Christians. Then Bilal (RA) was ordered to pronounce Adhan for the prayer by saying its wordings twice and for the Iqama (the call for the actual standing for the prayers in rows) by saying its wordings once. (Iqama is pronounced when the people are ready for the prayer).