باب: محدث کا لفظ حَدَّثَنَا، وَأَخْبَرَنَا، وَأَنْبَأَنَا استعمال کرنا صحیح ہے
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Concerning the variety of words used by narrators conveying different significations regarding the concept of narrating and which has importance for the Hadith scholars only)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ترجمۃ الباب :
جیسا کہ امام حمیدی نے کہا کہ ابن عیینہ کے نزدیک الفاظ حدثنا اور أخبرنا اور أنبأنا اور سمعت ایک ہی تھے اور عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی یوں ہی کہا حدثنا رسول اللہ ﷺ درحالیکہ آپ سچوں کے سچے تھے۔ اور شقیق نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا، میں نے آنحضرتﷺ سے یہ بات سنی اور حذیفہ نے کہا کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے دو حدیثیں بیان کیں اور ابوالعالیہ نے روایت کیا ابن عباس ؓ سے انھوں نے آنحضرتﷺ سے، آپ ﷺ نے اپنے پروردگار سے اور انس ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کی اور آپ ﷺ نے اپنے پروردگار سے۔ اور ابوہریرہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کی۔ کہا آپ ﷺ اس کو تمہارے رب اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہیں۔تشریح : حضرت امام کا مقصد یہ ہے کہ محدثین کی نقل درنقل کی اصطلاح میں الفاظ حدثنا وأخبرنا وأنبأنا کا استعمال ان کا خود ایجادکردہ نہیں ہے۔ بلکہ خود آنحضرت ﷺ اور صحابہ وتابعین کے پاک زمانوں میں بھی نقل درنقل کے لیے ان ہی لفظوں کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ حضرت امام یہاں ان چھ روایات کو بغیر سندکے لائے ہیں۔ دوسرے مقامات پر ان کی اسناد موجود ہیں۔ اسناد کا علم دین میں بہت ہی بڑا درجہ ہے۔ محدثین کرام نے سچ فرمایا ہے کہ الإسناد من الدین ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء یعنی اسناد بھی دین ہی میں داخل ہے۔ اگراسناد نہ ہوتی تو جس کے دل میں جوکچھ آتا وہ کہہ ڈالتا۔ مگرعلم اسناد نے صحت نقل کے لیے حدبندی کردی ہے اور یہی محدثین کرام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ علم الاسناد کے ماہر ہوتے ہیں اور رجال کے ماله وماعلیه پر ان کی پوری نظر ہوتی ہے اسی لیے کذب وافتراءان کے سامنے نہیں ٹھہرسکتا۔
61.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک ایسا درخت بھی ہے جو کبھی پت جھڑ نہیں ہوتا اور مسلمان کو اس سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟‘‘ یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ فرمائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس روایت میں (حَدِّثُونِيْ) اور(حَدَّثَنَا) کے الفاظ موجود ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ محدثین کی اصطلاحات ایجاد شدہ نہیں بلکہ یہ عہد نبوی میں رائج تھیں بلکہ (أنبأ) اور(نَّبَأَ) کا ثبوت تو قرآن مجید میں ہے: ﴿قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ﴾ (التحريم: 66/3) ’’اس عورت نے کہا کہ آپ کو اس کے متعلق کس نے بتایا؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ منکرین حدیث کی یہ ہفوات ہیں کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہےاورعجمی سازش کا شاخسانہ ہے۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ 2۔ اس روایت کے مختلف طرق کو جمع کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تحدیث، اخبار اور انباء کا استعمال قوت وضعف میں برابر ہے کیونکہ اس روایت میں (حدثوني) کا لفظ ہے، کتاب التفسیر میں (اخبروني) ہے، علامہ اسماعیلی نے (أنبئوني) کے الفاظ نقل کیے ہیں، پھرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے صیغۂ اخبار استعمال کیا گیا ہے۔ ان تمام طرق کو جمع کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان تینوں الفاظ کا مرتبہ ایک ہی ہے کیونکہ تحدیث کی جگہ پر (اِخبَار) اور اخبار کی جگہ پر تحدیث اسی طرح انباء کااستعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ان میں کوئی خاص فرق ہوتا تو اہل زبان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تواس قسم کا ردوبدل نہ کرتے۔ (فتح الباري: 191/1) 3۔ اس حدیث کے فوائد ہم آئندہ ذکر کریں گے البتہ چند ایک یہاں بیان کردیتے ہیں۔ (الف) حیا ایک پسندیدہ خصلت ہے بشرطیکہ کسی مصلحت کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (ب) کھجور اور اس کا پھل بابرکت چیز ہے۔ (ج) علم اللہ کا عطیہ ہے بعض دفعہ اکابرعلماء سے ایسی چیزیں مخفی رہ جاتی ہیں جو اصاغر اہل علم کو معلوم ہوتی ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
61
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
61
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
61
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
61
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اس باب کے انعقاد کے دو مقاصد ہوسکتے ہیں۔(الف)۔محدثین کی نظر میں سند کی بہت اہمت ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسناد داخل دین ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ محدثین کے ہاں سند میں جو نقل روایت کے لیے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یہ ان کی اپنی ایجاد ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان الفاظ کے استعمال کاکوئی ثبوت ملتا ہے؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصود یہ ہے کہ محدثین نے نقل روایت کے متعلق جو الفاظ مخصوص کررکھے ہیں یہ طریقہ نقل اسلاف سے ثابت ہے،اس کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قطعات حدیثیہ کو ذکر فرماکر ثابت کردیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بلکہ خود ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کااستعمال فرمایا ہے۔1۔محدثین کے ہاں نقل روایت کے متعلق مختلف الفاظ کی حثییت کیاہے؟کیا یہ الفاظ برابر کے ہیں یا ان میں قوت وضعف کا فرق ہے؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ بیشترمحدثین کے نزدیک ان الفاظ کی حیثیت برابر ہے۔ان میں مراتب کا فرق نہیں ہے ۔محدث کو اختیار ہے چاہے لفظ (حَدَّثنا) استعمال کرے چاہے(سَمِعتُ) کا صیغہ لائے۔اگرچہ بعض محدثین نے (أنبأنا) کے صیغے کو کمزور یا ناقابل اعتبار قراردیا ہے۔ تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ تمام طریقے جائز اور قابل استناد ہیں۔واضح رہے کہ محدثین کے ہاں نقل روایت کےمختلف طریقے ہیں۔مثلاً۔سَمِعتُ ، حَدَّثنا، أُخْبِرْنَا ، أنبأنا وغيره۔یہ طریقے حدیث کی تمام کتابوں میں پائے جاتے ہیں ۔تحدیث ،اخبار،انباء۔توقرآنی آیات سے ثابت ہیں۔اصل لغت کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔البتہ بعض محدثین کی نظر میں فرق مراتب کا لحاظ رکھا گیا ہے جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں یہ چھ روایات سند کے بغیر لائے ہیں لیکن دوسرے مقامات پرا ن کی اسناد موجود ہیں۔2۔قال ابن مسعود۔۔۔اسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب القدر(6594) میں موصولاً بیان کیا ہے۔3۔قال شقیق۔۔۔مصنف نے سند کے ساتھ کتاب الجنائز (1238) اور کتاب التفسیر(4497) میں ذکر کیا ہے۔لیکن اس میں ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سَمِعتُ کے صیغے سے روایت کرنے کا ذکر نہیں بلکہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں،البتہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے سماع کی صراحت کے ساتھ موصولاً بیان کیا ہے۔( صحیح مسلم الایمان حدیث 268(92)۔) 4۔حدیث ابی حذیفہ بھی کتاب الرقاق (6497) میں باسند موجود ہے۔باقی احادیث قدسیہ جوحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہیں،بھی کتاب التوحید میں موصولاً ذکر فرمائی ہیں۔( فتح الباری 191/1۔) اس سے واضح ہوتا ہے کہ محدثین کی نظرمیں سند کی کتنی اہمیت ہے۔اسی لیے کہا گیا ہے:(الإسناد من الدين ، ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء)"اسناد دین کا حصہ ہے،اگر سلسلہ سند نہ ہوتاتو ہر شخص جو چاہتا کہتا۔"
ترجمۃ الباب :
جیسا کہ امام حمیدی نے کہا کہ ابن عیینہ کے نزدیک الفاظ حدثنا اور أخبرنا اور أنبأنا اور سمعت ایک ہی تھے اور عبداللہ بن مسعود ؓ نے بھی یوں ہی کہا حدثنا رسول اللہ ﷺ درحالیکہ آپ سچوں کے سچے تھے۔ اور شقیق نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا، میں نے آنحضرتﷺ سے یہ بات سنی اور حذیفہ نے کہا کہ ہم سے رسول اللہﷺ نے دو حدیثیں بیان کیں اور ابوالعالیہ نے روایت کیا ابن عباس ؓ سے انھوں نے آنحضرتﷺ سے، آپ ﷺ نے اپنے پروردگار سے اور انس ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کی اور آپ ﷺ نے اپنے پروردگار سے۔ اور ابوہریرہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کی۔ کہا آپ ﷺ اس کو تمہارے رب اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہیں۔تشریح : حضرت امام کا مقصد یہ ہے کہ محدثین کی نقل درنقل کی اصطلاح میں الفاظ حدثنا وأخبرنا وأنبأنا کا استعمال ان کا خود ایجادکردہ نہیں ہے۔ بلکہ خود آنحضرت ﷺ اور صحابہ وتابعین کے پاک زمانوں میں بھی نقل درنقل کے لیے ان ہی لفظوں کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ حضرت امام یہاں ان چھ روایات کو بغیر سندکے لائے ہیں۔ دوسرے مقامات پر ان کی اسناد موجود ہیں۔ اسناد کا علم دین میں بہت ہی بڑا درجہ ہے۔ محدثین کرام نے سچ فرمایا ہے کہ الإسناد من الدین ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء یعنی اسناد بھی دین ہی میں داخل ہے۔ اگراسناد نہ ہوتی تو جس کے دل میں جوکچھ آتا وہ کہہ ڈالتا۔ مگرعلم اسناد نے صحت نقل کے لیے حدبندی کردی ہے اور یہی محدثین کرام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ علم الاسناد کے ماہر ہوتے ہیں اور رجال کے ماله وماعلیه پر ان کی پوری نظر ہوتی ہے اسی لیے کذب وافتراءان کے سامنے نہیں ٹھہرسکتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک ایسا درخت بھی ہے جو کبھی پت جھڑ نہیں ہوتا اور مسلمان کو اس سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟‘‘ یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خیالات جنگل کے درختوں کی طرف گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے، مگر میں (کہتے ہوئے) شرما گیا۔ پھر صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ فرمائیں وہ کون سا درخت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس روایت میں (حَدِّثُونِيْ) اور(حَدَّثَنَا) کے الفاظ موجود ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ محدثین کی اصطلاحات ایجاد شدہ نہیں بلکہ یہ عہد نبوی میں رائج تھیں بلکہ (أنبأ) اور(نَّبَأَ) کا ثبوت تو قرآن مجید میں ہے: ﴿قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ﴾ (التحريم: 66/3) ’’اس عورت نے کہا کہ آپ کو اس کے متعلق کس نے بتایا؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ منکرین حدیث کی یہ ہفوات ہیں کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہےاورعجمی سازش کا شاخسانہ ہے۔ ﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾ 2۔ اس روایت کے مختلف طرق کو جمع کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تحدیث، اخبار اور انباء کا استعمال قوت وضعف میں برابر ہے کیونکہ اس روایت میں (حدثوني) کا لفظ ہے، کتاب التفسیر میں (اخبروني) ہے، علامہ اسماعیلی نے (أنبئوني) کے الفاظ نقل کیے ہیں، پھرصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے صیغۂ اخبار استعمال کیا گیا ہے۔ ان تمام طرق کو جمع کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان تینوں الفاظ کا مرتبہ ایک ہی ہے کیونکہ تحدیث کی جگہ پر (اِخبَار) اور اخبار کی جگہ پر تحدیث اسی طرح انباء کااستعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ان میں کوئی خاص فرق ہوتا تو اہل زبان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تواس قسم کا ردوبدل نہ کرتے۔ (فتح الباري: 191/1) 3۔ اس حدیث کے فوائد ہم آئندہ ذکر کریں گے البتہ چند ایک یہاں بیان کردیتے ہیں۔ (الف) حیا ایک پسندیدہ خصلت ہے بشرطیکہ کسی مصلحت کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (ب) کھجور اور اس کا پھل بابرکت چیز ہے۔ (ج) علم اللہ کا عطیہ ہے بعض دفعہ اکابرعلماء سے ایسی چیزیں مخفی رہ جاتی ہیں جو اصاغر اہل علم کو معلوم ہوتی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
ہمیں امام حمیدی نے بتایا کہ محدث ابن عیینہ کے نزدیک حدثنا، أخبرنا، أنبانا اور سمعت برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: رسول اللہﷺ نے ہمیں حدیث بیان فرمائی اور آپ صادق و مصدوق ہیں۔ حضرت شقیق نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبیﷺسے ایک بات سنی۔ حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے دو حدیثیں بیان فرمائیں۔ حضرت ابوالعالیہ نے روایت کیا حضرت ابن عباس ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے اور آپ نے اپنے بزرگ و برتر پروردگار سے بیان کیا۔ حضرت انس ؓ نے نبی ﷺ سے روایت کی، انہوں نے اپنے رب سے بیان فرمایا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے روایت کیا اور کہا: رسول اللہ ﷺ اسے تمہارے رب عزوجل سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن دینار سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے، کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔‘‘ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کا خیال جنگل کے درختوں کی طرف دوڑا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ مگر میں اپنی (کم سنی کی) شرم سے نہ بولا۔ آخر صحابہ نے آنحضرت ﷺ ہی سے پوچھا کہ وہ کون سا درخت ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس روایت کو حضرت امام قدس سرہ اس باب میں اس لیے لائے ہیں کہ اس میں لفظ حدثنا وحدثوني خود آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ علیہم اجمعین کی زبانوں سے بولے گئے ہیں۔ پس ثابت ہوگیا کہ یہ اصطلاحات عہد نبوی ﷺ سے مروج ہیں۔ بلکہ خود قرآن مجید ہی سے ان سب کا ثبوت ہے۔ جیسا کہ سورۃ تحریم میں ہے: ﴿قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا ۖقَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ﴾(التحريم: 3) (اس عورت نے کہا کہ آپﷺ کو اس بارے میں کس نے خبر دی۔ آپﷺ نے فرمایاکہ مجھ کو اس نے خبر دی جو جاننے والا خبر رکھنے والا پروردگار عالم ہے) پس منکرین حدیث کی یہ ہفوات کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہے بالکل غلط اور قرآن مجید کے بالکل خلاف اور واقعات کے بھی بالکل خلاف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Amongst the trees, there is a tree, the leaves of which do not fall and is like a Muslim. Tell me the name of that tree." Everybody started thinking about the trees of the desert areas. And I thought of the date-palm tree but felt shy to answer the others then asked, "What is that tree, O Allah's Apostle?" He replied, "It is the date-palm tree."