باب:اس بارے میں کہ استاد اپنے شاگردوں کا علم آزمانے کے لیے ان سے کوئی سوال کرے (یعنی امتحان لینے کا بیان)
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The Imam questioning his companions in order to test their knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
62.
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور وہ مسلمان کے مشابہ ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟‘‘ اس پر لوگوں نے صحرائی درختوں کا خیال کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے (لیکن بزرگوں کی موجودگی میں بتانے سے مجھے شرم آئی۔) آخر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہی بتا دیجیے وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس سے معلوم ہوا کہ استاد طلباء کو بیدار رکھنے اور ان کی توجہ سبق میں رکھنے کے لیے ان سے وقتاً فوقتاً سوالات کرتا رہے۔ اس کے دو فائدے ہوتے ہیں: ایک تو یہ کہ طلباء ہروقت ہوشیار اور بیدار رہتے ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ استاد کو طالب علم کے مرتبہ علم کا اندازہ ہوجاتا ہے تاکہ اس کے مرتبے کے مطابق اس سے گفتگو کی جائے، اگرانفرادی توجہ کی ضرورت ہے تو اس سے بھی بخل نہ کیاجائے۔ 2۔ اس سے طریقہ امتحان کا بھی پتہ چلتا ہے کہ طالب علم کے سامنے کوئی ایسی چیز پیش کی جائے جس میں کچھ پیچیدگی ہو، نہ تو اتنی آسان ہو کہ اس میں غوروفکر کی ضرورت ہی نہ پڑے اور نہ اس درجہ مشکل ہی ہو کہ قوت ونظر وفکر کے صرف کرنے کے بعد بھی وہ حل نہ ہوسکے، نیز امتحان ایسی چیزوں سے لیا جائے جو مسئول کی سمجھ سے بالاتر نہ ہوں اور جس چیز کے متعلق سوال کیا جائے اس کا کچھ اتا پتا دیاجائے تاکہ ان ارشادات کی مدد سے طالب علم ا س کا حل تلاش کرسکے۔ 3۔ اس حدیث میں کھجور کو مسلمان سے تشبیہ دی گئی ہے۔ وجہ تشبیہ یہ ہے کہ اس کی برکت مسلمان کی برکت جیسی ہے۔ ایک روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5444) مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں دوسروں کے لیے سرچشمہ خیر ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی حالت میں بے کار نہیں۔ کھجور کے پھل کچے پکے ہر طرح کارآمد ہیں، اس کے پتے بھی کام آتے ہیں۔ اس کا تنا بھی نفع بخش ہوتا ہے، اس کے چھاگل سے رسیاں بنائی جاتی ہیں اور اسے تکیوں میں بھرا جاتا ہے، اس کی گٹھلیاں انسانوں اور حیوانوں کے کام آتی ہیں۔ کھجور کے بےشمار طبی فوائد ہیں جو ہمارے موضوع سے خارج ہیں، البتہ دومجرب فوائد ذکر کیے جاتے ہیں۔ (الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود انھیں بکثرت استعمال کرتے تھے، نیز آپ نے جادوسے بچاؤ کے لیے عجوہ کھجوروں کے استعمال کی تلقین فرمائی ہے۔ اس کے علاوہ تجربہ کار کہنہ مشق اطباء مردانگی کے زیور کی حفاظت یا بحالی کے لیے چھوہاروں اور معجون آردخرما تجویز کرتے ہیں۔ (ب) بچے کی ولادت کے وقت بیشتر خواتین موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہیں، ایسے موقع پر تازہ کھجوروں کا استعمال جادواثر رکھتا ہے اس کا اشارہ سورۂ مریم آیت:25 میں واضح طور پر ملتا ہے۔ 4۔ اس سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زیرکی اور دانائی کا بھی پتہ چلتا ہے اگرچہ اس وقت دو واضح اشارے موجود تھے شاید ان اشاروں کی مدد سے آپ کی جواب تک رسائی ہوئی ہو۔ (الف) آپ کے پاس جمار(کھجور کا گودا) لایا گیا اور آپ اسے تناول فرمانے لگے۔ اسی اثناء میں آپ نے یہ سوال کیا۔ (ب) آپ نے دوران سوال میں اس کا فائدہ بایں الفاظ بتایا کہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے قرآن کریم میں یہ وصف شجرہ طیبہ کا بیان ہوا ہے۔ اور اس سے مراد کھجور کا درخت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
62
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
62
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
62
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
62
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس کے پتے نہیں جھڑتے اور وہ مسلمان کے مشابہ ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟‘‘ اس پر لوگوں نے صحرائی درختوں کا خیال کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے (لیکن بزرگوں کی موجودگی میں بتانے سے مجھے شرم آئی۔) آخر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اللہ کے رسول! آپ ہی بتا دیجیے وہ کون سا درخت ہے؟ آپ نے فرمایا:’’وہ کھجور کا درخت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس سے معلوم ہوا کہ استاد طلباء کو بیدار رکھنے اور ان کی توجہ سبق میں رکھنے کے لیے ان سے وقتاً فوقتاً سوالات کرتا رہے۔ اس کے دو فائدے ہوتے ہیں: ایک تو یہ کہ طلباء ہروقت ہوشیار اور بیدار رہتے ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ استاد کو طالب علم کے مرتبہ علم کا اندازہ ہوجاتا ہے تاکہ اس کے مرتبے کے مطابق اس سے گفتگو کی جائے، اگرانفرادی توجہ کی ضرورت ہے تو اس سے بھی بخل نہ کیاجائے۔ 2۔ اس سے طریقہ امتحان کا بھی پتہ چلتا ہے کہ طالب علم کے سامنے کوئی ایسی چیز پیش کی جائے جس میں کچھ پیچیدگی ہو، نہ تو اتنی آسان ہو کہ اس میں غوروفکر کی ضرورت ہی نہ پڑے اور نہ اس درجہ مشکل ہی ہو کہ قوت ونظر وفکر کے صرف کرنے کے بعد بھی وہ حل نہ ہوسکے، نیز امتحان ایسی چیزوں سے لیا جائے جو مسئول کی سمجھ سے بالاتر نہ ہوں اور جس چیز کے متعلق سوال کیا جائے اس کا کچھ اتا پتا دیاجائے تاکہ ان ارشادات کی مدد سے طالب علم ا س کا حل تلاش کرسکے۔ 3۔ اس حدیث میں کھجور کو مسلمان سے تشبیہ دی گئی ہے۔ وجہ تشبیہ یہ ہے کہ اس کی برکت مسلمان کی برکت جیسی ہے۔ ایک روایت میں اس کی وضاحت بھی ہے۔ (صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5444) مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں دوسروں کے لیے سرچشمہ خیر ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی حالت میں بے کار نہیں۔ کھجور کے پھل کچے پکے ہر طرح کارآمد ہیں، اس کے پتے بھی کام آتے ہیں۔ اس کا تنا بھی نفع بخش ہوتا ہے، اس کے چھاگل سے رسیاں بنائی جاتی ہیں اور اسے تکیوں میں بھرا جاتا ہے، اس کی گٹھلیاں انسانوں اور حیوانوں کے کام آتی ہیں۔ کھجور کے بےشمار طبی فوائد ہیں جو ہمارے موضوع سے خارج ہیں، البتہ دومجرب فوائد ذکر کیے جاتے ہیں۔ (الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود انھیں بکثرت استعمال کرتے تھے، نیز آپ نے جادوسے بچاؤ کے لیے عجوہ کھجوروں کے استعمال کی تلقین فرمائی ہے۔ اس کے علاوہ تجربہ کار کہنہ مشق اطباء مردانگی کے زیور کی حفاظت یا بحالی کے لیے چھوہاروں اور معجون آردخرما تجویز کرتے ہیں۔ (ب) بچے کی ولادت کے وقت بیشتر خواتین موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ہیں، ایسے موقع پر تازہ کھجوروں کا استعمال جادواثر رکھتا ہے اس کا اشارہ سورۂ مریم آیت:25 میں واضح طور پر ملتا ہے۔ 4۔ اس سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی زیرکی اور دانائی کا بھی پتہ چلتا ہے اگرچہ اس وقت دو واضح اشارے موجود تھے شاید ان اشاروں کی مدد سے آپ کی جواب تک رسائی ہوئی ہو۔ (الف) آپ کے پاس جمار(کھجور کا گودا) لایا گیا اور آپ اسے تناول فرمانے لگے۔ اسی اثناء میں آپ نے یہ سوال کیا۔ (ب) آپ نے دوران سوال میں اس کا فائدہ بایں الفاظ بتایا کہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے قرآن کریم میں یہ وصف شجرہ طیبہ کا بیان ہوا ہے۔ اور اس سے مراد کھجور کا درخت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبد اللہ بن دینار نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے انھوں نے آنحضرت ﷺ سے کہ (ایک مرتبہ) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟‘‘ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں میں چلے گئے۔ عبداللہ نے کہا کہ میرے دل میں آیا کہ بتلا دوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن (وہاں بہت سے بزرگ موجود تھے اس لیے) مجھ کو شرم آئی۔ آخر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی بیان فرما دیجیئے۔ آپ ﷺ نے بتلایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث اور واقعہ نبوی سے طالب علموں کا امتحان لینا ثابت ہوا۔ جب کہ کھجور کے درخت سے مسلمان کی تشبیہ اس طرح ہوئی کہ مسلمان متوکل علی اللہ ہوکرہرحال میں ہمیشہ خوش وخرم رہتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Amongst the trees, there is a tree, the leaves of which do not fall and is like a Muslim. Tell me the name of that tree." Everybody started thinking about the trees of the desert areas. And I thought of the date-palm tree. The others then asked, "Please inform us what is that tree, O Allah's Apostle?" He replied, "It is the date-palm tree."