Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: To reply a greeting saying, "Alaikas-Salam")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا تھا کہ وعلیہ السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ اور ان پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ( اور نبی کریمﷺنے فرمایا ) فرشتوں نے آدم ؑ کو جواب دیا ” السلام علیک ورحمۃ اللہ “ ( سلام ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت )یہ دونوں حدیثیں اوپر موصولاً گزر چکی ہیں ،ان کو لانے سے حضرت امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ سلام کے جواب میں بڑھا کر کہنا بہتر ہے۔ گو صرف علیک السلام بھی کہنا درست ہے۔
6251.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا جبکہ رسول اللہ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس نے نماز پڑھی پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: وعلیک السلام، واپس جا اور دوبارہ نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا اور نماز پڑھ کر پھر حاضر خدمت ہوکر سلام کہا تو آپ نے فرمایا: ”وعلیک السلام واپس جا پھر نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔“ اس نے دوسری مرتبہ یا اس کے بعد عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے (نماز) سکھا دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو پہلے اچھی طرح وضو کر، پھر قبلہ رو ہو کر اللہ اکبر کہہ اس کے بعد جو قرآن تجھے میسر ہو اسے پڑھ پھر رکوع کر حتیٰ کہ پورے اطمینان سے رکوع کرنے کے بعد سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہو جا پھر سجدہ کر حتیٰ کہ پوری طرح سجدہ کر پھر سر اٹھا حتیٰ کہ اطمنیان سے بیٹھ جا۔ پھر یہی عمل اپنی ساری نماز میں ادا کر۔ ” (راوی حدیث ) ابو اسامہ نے دوسرے سجدے کے بعد یوں کہا: پھر سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجا“
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6025
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6251
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6251
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6251
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سلام اللہ کا نام ہے،لہٰذا اس سے پہلے کوئی اور لفظ نہیں لانا چاہیے،یعنی جواب دیتے اور ابتدا کرتے وقت السلام علیک کہا جائے۔کچھ حضرات کہتے ہیں کہ سلام میں مفرد کا صیغہ استعمال نہ کیا جائے بلکہ جمع کے لفظ کے ساتھ سلام کا کہا جائے۔بعض اسلاف کا موقف ہے کہ سلام کا جواب دیتے وقت واؤ کا استعمال ہونا چاہیے، یعنی وعلیک السلام کہنا چاہیے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سلام کا جواب دیتے وقت صرف علیک ہی کہا جائے اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جواب میں زیادہ الفاظ استعمال کیے جائیں صرف علیک السلام نہ کہا جائے بلکہ اس کے ساتھ ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے ان تمام حضرات کی تردید فرمائی ہے کہ جواب میں علیک السلام کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(فتح الباری:11/45)
اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا تھا کہ وعلیہ السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ اور ان پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ( اور نبی کریمﷺنے فرمایا ) فرشتوں نے آدم ؑ کو جواب دیا ” السلام علیک ورحمۃ اللہ “ ( سلام ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت )یہ دونوں حدیثیں اوپر موصولاً گزر چکی ہیں ،ان کو لانے سے حضرت امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ سلام کے جواب میں بڑھا کر کہنا بہتر ہے۔ گو صرف علیک السلام بھی کہنا درست ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا جبکہ رسول اللہ مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے۔ اس نے نماز پڑھی پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سلام کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا: وعلیک السلام، واپس جا اور دوبارہ نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا اور نماز پڑھ کر پھر حاضر خدمت ہوکر سلام کہا تو آپ نے فرمایا: ”وعلیک السلام واپس جا پھر نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔“ اس نے دوسری مرتبہ یا اس کے بعد عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے (نماز) سکھا دیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو پہلے اچھی طرح وضو کر، پھر قبلہ رو ہو کر اللہ اکبر کہہ اس کے بعد جو قرآن تجھے میسر ہو اسے پڑھ پھر رکوع کر حتیٰ کہ پورے اطمینان سے رکوع کرنے کے بعد سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہو جا پھر سجدہ کر حتیٰ کہ پوری طرح سجدہ کر پھر سر اٹھا حتیٰ کہ اطمنیان سے بیٹھ جا۔ پھر یہی عمل اپنی ساری نماز میں ادا کر۔ ” (راوی حدیث ) ابو اسامہ نے دوسرے سجدے کے بعد یوں کہا: پھر سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجا“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
سیدہ عائشہ ؓ نے ایک مرتبہ سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ”ان پر بھی اللہ کا سلام ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں۔“ نبی ﷺ نے فرمایا: فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو بایں الفاظ سلام کا جواب دیا؛ السلام علیک ورحمۃ اللہ ”آپ پر اللہ کا سلام اور اس کی رحمت ہو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحق بن منصور نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن نمیر نے خبر دی، ان سے عبید اللہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ مسجد کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے نماز پڑھی اور پھر حا ضر ہو کر آنحضرت ﷺ کو سلام کیا۔ آنحضرتﷺنے فر مایا ”علیک السلام“ واپس جا اور دوبارہ نماز پڑھ، کیو نکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گئے اور نماز پڑھی۔ پھر (نبی کریم ﷺ) کے پاس آئے اور سلام کیا آپ نے فرمایا وعلیک السلام۔ واپس جاؤ پھر نماز پڑھو۔ کیو نکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گیا اور اس نے پھر نماز پڑھی۔ پھر واپس آیا اور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپﷺ نے جواب میں فرمایا وعلیکم السلام۔ واپس جاؤ اور دو بارہ نمازپڑھو۔ کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ ان صاحب نے دوسر ی مرتبہ، یا اس کے بعد، عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے نماز پڑھنی سکھا دیجئے۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا جب نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو تو پہلے پو ری طرح وضو کیا کرو، پھر قبلہ رو ہوکر تکبیر (تحریمہ) کہو، اس کے بعد قر آن مجید میں سے جو تمہارے لئے آسان ہو وہ پڑھو، پھر رکوع کرو اور جب رکوع کی حالت میں برابر ہو جاؤ تو سر اٹھاؤ۔ جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو پھر سجدہ میں جاؤ، جب سجدہ پو ری طرح کر لو تو سر اٹھاؤ اور اچھی طرح سے بیٹھ جاؤ۔ یہی عمل اپنی ہر رکعت میں کرو۔ اور ابو اسامہ راوی نے دوسرے سجدہ کے بعد یوں کہا پھر سر اٹھا یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجا۔
حدیث حاشیہ:
تو اس میں جلسئہ استراحت کا ذکر نہیں۔ اس شخص کا نام خلاد بن رافع تھا یہ نماز جلدی جلدی ادا کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز آہستہ سے پڑھنے کی تعلیم فرمائی۔ حدیث میں لفظ وعلیک السلام مذکور ہے۔ باب سے یہی مطابقت ہے۔ ابو اسامہ راوی کے اثر کو خود حضرت امام نے کتاب الایمان والنذر میں وصل کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : A man entered the mosque while Allah's Apostle (ﷺ) was sitting in one side of the mosque. The man prayed, came, and greeted the Prophet. Allah's Apostle (ﷺ) said to him, "Wa 'Alaikas Salam (returned his greeting). Go back and pray as you have not prayed (properly)." The man returned, repeated his prayer, came back and greeted the Prophet. The Prophet (ﷺ) said, "Wa alaika-s-Salam (returned his greeting). Go back and pray again as you have not prayed (properly)." The man said at the second or third time, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Kindly teach me how to pray". The Prophet (ﷺ) said, "When you stand for prayer, perform ablution properly and then face the Qibla and say Takbir (Allahu-Akbar), and then recite what you know from the Qur'an, and then bow with calmness till you feel at ease then rise from bowing, till you stand straight, and then prostrate calmly (and remain in prostration) till you feel at ease, and then raise (your head) and sit with calmness till you feel at ease and then prostrate with calmness (and remain in prostration) till you feel at ease, and then raise (your head) and sit with calmness till you feel at ease in the sitting position, and do likewise in whole of your prayer." And Abu Usama added, "Till you stand straight." (See Hadith No. 759, Vol.1)