Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: To reply a greeting saying, "Alaikas-Salam")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا تھا کہ وعلیہ السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ اور ان پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ( اور نبی کریمﷺنے فرمایا ) فرشتوں نے آدم ؑ کو جواب دیا ” السلام علیک ورحمۃ اللہ “ ( سلام ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت )یہ دونوں حدیثیں اوپر موصولاً گزر چکی ہیں ،ان کو لانے سے حضرت امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ سلام کے جواب میں بڑھا کر کہنا بہتر ہے۔ گو صرف علیک السلام بھی کہنا درست ہے۔
6252.
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”پھر سجدے سے اپنا سر اٹھا حتی کہ اطمینان سے بیٹھ جا۔“
تشریح:
(1) اس حدیث کو "حدیث مسيئ الصلاة'' کہتے ہیں۔ یہ شخص جلدی جلدی نماز پڑھتا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آہستہ آہستہ نماز پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ اس سے پوری نماز کی تعلیم مقصود نہیں بلکہ جو چیزیں قابل اصلاح تھیں ان کی اصلاح فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں جلسۂ استراحت اور تشہد وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ (2)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں سلام کے جواب میں "وعلیک السلام" کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ پہلی حدیث میں جلسۂ استراحت کا ذکر نہیں تھا، دوسری حدیث میں اس کو ثابت کیا ہے کیونکہ اس حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6026
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6252
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6252
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6252
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سلام اللہ کا نام ہے،لہٰذا اس سے پہلے کوئی اور لفظ نہیں لانا چاہیے،یعنی جواب دیتے اور ابتدا کرتے وقت السلام علیک کہا جائے۔کچھ حضرات کہتے ہیں کہ سلام میں مفرد کا صیغہ استعمال نہ کیا جائے بلکہ جمع کے لفظ کے ساتھ سلام کا کہا جائے۔بعض اسلاف کا موقف ہے کہ سلام کا جواب دیتے وقت واؤ کا استعمال ہونا چاہیے، یعنی وعلیک السلام کہنا چاہیے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سلام کا جواب دیتے وقت صرف علیک ہی کہا جائے اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جواب میں زیادہ الفاظ استعمال کیے جائیں صرف علیک السلام نہ کہا جائے بلکہ اس کے ساتھ ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے ان تمام حضرات کی تردید فرمائی ہے کہ جواب میں علیک السلام کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(فتح الباری:11/45)
اور حضرت عائشہ ؓ نے کہا تھا کہ وعلیہ السلام ورحمۃاللہ و برکاتہ اور ان پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ( اور نبی کریمﷺنے فرمایا ) فرشتوں نے آدم ؑ کو جواب دیا ” السلام علیک ورحمۃ اللہ “ ( سلام ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت )یہ دونوں حدیثیں اوپر موصولاً گزر چکی ہیں ،ان کو لانے سے حضرت امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ سلام کے جواب میں بڑھا کر کہنا بہتر ہے۔ گو صرف علیک السلام بھی کہنا درست ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”پھر سجدے سے اپنا سر اٹھا حتی کہ اطمینان سے بیٹھ جا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کو "حدیث مسيئ الصلاة'' کہتے ہیں۔ یہ شخص جلدی جلدی نماز پڑھتا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آہستہ آہستہ نماز پڑھنے کی تلقین فرمائی۔ اس سے پوری نماز کی تعلیم مقصود نہیں بلکہ جو چیزیں قابل اصلاح تھیں ان کی اصلاح فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں جلسۂ استراحت اور تشہد وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ (2)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں سلام کے جواب میں "وعلیک السلام" کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ پہلی حدیث میں جلسۂ استراحت کا ذکر نہیں تھا، دوسری حدیث میں اس کو ثابت کیا ہے کیونکہ اس حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
سیدہ عائشہ ؓ نے ایک مرتبہ سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا: وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ”ان پر بھی اللہ کا سلام ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہوں۔“ نبی ﷺ نے فرمایا: فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو بایں الفاظ سلام کا جواب دیا؛ السلام علیک ورحمۃ اللہ ”آپ پر اللہ کا سلام اور اس کی رحمت ہو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابن بشار نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضر ت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، پھر سر سجدہ سے اٹھا اور اچھی طرح بیٹھ جا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی اس میں جلسہ استراحت کا ذکر ہے جسے کر نا مسنون ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said (in the above narration No. 268), "And then raise your head till you feel at ease while sitting. "