باب: ایسی مجلس والوں کو سلام کرنا جس میں مسلمان اور مشرک سب شامل ہوں
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: Greeting a mix-up gathering)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6254.
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی نبی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا اور آپ بنو حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ غزوہ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ ایک ایسی مجلس کے پاس گزرے جس میں مسلمان بت پرست مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ اس مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد غبار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ نبی ﷺ نے اہل مجلس کو سلام کیا اور وہاں رک گئے۔ آپ نے سواری سے اتر کر انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی۔ عبداللہ بن ابی کہنے لگا: اے آدمی! اگر یہ حق ہے تو ہماری مجالس میں آکر ہماری اذیت کا باعث نہ بنو، اپنے گھر چلے جاؤ، جو کوئی ہم میں سے تمہارے پاس آئے اسے بیان کیا کرو۔ حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں پھر مسلمانوں مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو، میں ميں ہونے لگی۔ قریب تھا کہ وہ آپس میں لڑ پڑیں، نبی ﷺ انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے۔ جب وہ چپ ہوگئے تو آپ ﷺ اپنی سواری پر بیٹھ کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: اے سعد! کیا تم نے سنا ہے آج ابو حباب نے کیا بات کہی ہے؟ اس نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اسے معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ اللہ تعالٰی نے جو کچھ آپ کو دیا ہے وہ حق ہے دراصل بات یہ ہے کہ اس بستی کے لوگ اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ اس کی تاج پوشی کریں اور اس کے سر پر سر داری کی پگڑی باندھیں، لیکن جب اللہ تعالٰی نے اس منصوبے کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا ہے جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو یہ بھڑک اٹھا ہے اسی وجہ سے اس نے یہ کردار ادا کیا ہے جو آپ نے مشاہدہ کیا ہے چنانچہ نبی ﷺ نے اسے معاف کر دیا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو معاف کرکے کمال دانائی اور دور اندیشی کی ایک شاندار روایت برقراررکھی۔ اللہ تعالیٰ آپ پر ان گنت درودوسلام نازل فرمائے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے یہ مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی مجلس میں مسلمان اور کافر اکٹھے ہوں تو انھیں سلام کہا جا سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب انسان کسی ایسی مجلس سے گزرے جہاں کافر اور مسلمان دونوں قسم کے لوگ موجود ہوں تو عام الفاظ سے سلام کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی نیت مسلمانوں کو سلام کہنے کی ہو کیونکہ حدیث میں کافر اور اہل کتاب کو ابتداءً سلام کہنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس امر کی صراحت ہے۔ (مسند أحمد:143/4) اور جوابًا بھی صرف وعلیکم کہنے کا حکم ہے اگرچہ بعض اہل علم نے اس کے متعلق نرم گوشہ رکھا ہے اور بطور دلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلام کا حوالہ دیا ہے جو انھوں نے گھر سے رخصت ہوتے وقت اپنے باپ کو کہا تھا۔ (مریم19: 47) لیکن یہ سلام شرعی نہیں اور نہ بطور دعا ہی تھا بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کے ارادے سے کہا تھا۔ (فتح الباري:48/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6028
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6254
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6254
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6254
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی نبی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے پیچھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا اور آپ بنو حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ غزوہ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ ایک ایسی مجلس کے پاس گزرے جس میں مسلمان بت پرست مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا۔ اس مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد غبار پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ نبی ﷺ نے اہل مجلس کو سلام کیا اور وہاں رک گئے۔ آپ نے سواری سے اتر کر انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی اور قرآن مجید کی تلاوت فرمائی۔ عبداللہ بن ابی کہنے لگا: اے آدمی! اگر یہ حق ہے تو ہماری مجالس میں آکر ہماری اذیت کا باعث نہ بنو، اپنے گھر چلے جاؤ، جو کوئی ہم میں سے تمہارے پاس آئے اسے بیان کیا کرو۔ حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں پھر مسلمانوں مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو، میں ميں ہونے لگی۔ قریب تھا کہ وہ آپس میں لڑ پڑیں، نبی ﷺ انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے۔ جب وہ چپ ہوگئے تو آپ ﷺ اپنی سواری پر بیٹھ کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: اے سعد! کیا تم نے سنا ہے آج ابو حباب نے کیا بات کہی ہے؟ اس نے یہ یہ باتیں کی ہیں؟ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اسے معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ اللہ تعالٰی نے جو کچھ آپ کو دیا ہے وہ حق ہے دراصل بات یہ ہے کہ اس بستی کے لوگ اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ اس کی تاج پوشی کریں اور اس کے سر پر سر داری کی پگڑی باندھیں، لیکن جب اللہ تعالٰی نے اس منصوبے کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا ہے جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو یہ بھڑک اٹھا ہے اسی وجہ سے اس نے یہ کردار ادا کیا ہے جو آپ نے مشاہدہ کیا ہے چنانچہ نبی ﷺ نے اسے معاف کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو معاف کرکے کمال دانائی اور دور اندیشی کی ایک شاندار روایت برقراررکھی۔ اللہ تعالیٰ آپ پر ان گنت درودوسلام نازل فرمائے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے یہ مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب کسی مجلس میں مسلمان اور کافر اکٹھے ہوں تو انھیں سلام کہا جا سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب انسان کسی ایسی مجلس سے گزرے جہاں کافر اور مسلمان دونوں قسم کے لوگ موجود ہوں تو عام الفاظ سے سلام کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی نیت مسلمانوں کو سلام کہنے کی ہو کیونکہ حدیث میں کافر اور اہل کتاب کو ابتداءً سلام کہنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس امر کی صراحت ہے۔ (مسند أحمد:143/4) اور جوابًا بھی صرف وعلیکم کہنے کا حکم ہے اگرچہ بعض اہل علم نے اس کے متعلق نرم گوشہ رکھا ہے اور بطور دلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلام کا حوالہ دیا ہے جو انھوں نے گھر سے رخصت ہوتے وقت اپنے باپ کو کہا تھا۔ (مریم19: 47) لیکن یہ سلام شرعی نہیں اور نہ بطور دعا ہی تھا بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کے ارادے سے کہا تھا۔ (فتح الباري:48/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ مجھے اسامہ بن زید ؓ نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بندھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آنحضر ت ﷺ نے سواری پراپنے پیچھے اسامہ بن زید ؓ کو بٹھایا تھا۔ آپ بنی حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لئے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آنحضرت ﷺ ایک مجلس پر سے گزرے جس میں مسلمان بت پرست مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ عبد اللہ بن ابی ابن سلول بھی ان میں تھا۔ مجلس ميں عبد اللہ بن رواحہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد پڑا تو عبد اللہ نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپالی اور کہا کہ ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر حضور اکرم ﷺ نے سلام کیا اور وہاں رک گئے اور اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کے لئے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ عبد اللہ بن ابی ابن سلول بولا، میاں میں ان باتوں کے سمجھنے سے قاصر ہوں اگر وہ چیز حق ہے جو تم کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آکر ہمیں تکلیف نہ دیا کرو۔ اس پر ابن رواحہ نے کہا آنحضرت ﷺ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر توتو میں میں ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ کوئی ارادہ کر بیٹھیں اور ایک دوسرے پر حملہ کر دیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ انہیں برابر خاموش کراتے رہے اور جب وہ خاموش ہوگئے تو آنحضرت ﷺ اپنی سواری پر بیٹھ کر سعد بن عبادہ ؓ کے یہاں گئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا، سعد تم نے نہیں سنا کہ ابو حباب نے آج کیا بات کہی ہے۔ آپ کا اشارہ عبد اللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ یہ باتیں کہی ہیں۔ حضرت سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اسے معاف کر دیجئے اور درگزر فرمايے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ حق آپ کو عطا فرمایا ہے جو عطا فرمانا تھا۔ اس بستی (مدینہ منورہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس پر متفق ہوگئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حق سے حسد ہو گیا اور اسی وجہ سے اس نے یہ معاملہ کیا ہے جو آپ نے دیکھا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اسے معاف کر دیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جہاں باب کا مضمون واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے وہاں آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال دانائی، دوراندیشی، عفو، حلم کی بھی ایک شاندار تفصیل ہے کہ آپ نے ایک انتہائی گستاخ کو دامن عفو میں لے لیا اور عبد اللہ بن ابی جیسے خفیہ دشمن اسلام کی حرکت شنیعہ کو معاف فرما دیا۔ اللہ پاک ایسے پیارے رسول پر ہزارہا ہزار ان گنت درود وسلام نازل فرمائے۔ آمین۔ اس میں آج کے ٹھیکہ داران اسلام کے لئے بھی درس ہے جو ہر وقت شعلہ جوالہ بن کر اپنے علم وفضل کی دھاک بٹھانے کے لئے اخلاق نبوی کا عملا ً مضحکہ اڑاتے رہتے ہیں اور ذراسی خلاف مزاج بات پاکر غیظ وغضب کا مظاہرہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ اکثر مقلدین جامدین کا یہی حال ہے إلا ماشاء اللہ۔ اللہ پاک ان مذہب کے ٹھیکہ داروں کو اپنا مقام سمجھنے کی توفیق بخشے آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa-bin Az-Zubair (RA) : Usama bin Zaid said, "The Prophet (ﷺ) rode over a donkey with a saddle underneath which there was a thick soft Fadakiya velvet sheet. Usama bin Zaid was his companion rider, and he was going to pay a visit to Sa'd bin Ubadah (who was sick) at the dwelling place of Bani Al-Harith bin Al-Khazraj, and this incident happened before the battle of Badr. The Prophet (ﷺ) passed by a gathering in which there were Muslims and pagan idolators and Jews, and among them there was 'Abdullah bin Ubai bin Salul, and there was 'Abdullah bin Rawaha too. When a cloud of dust raised by the animal covered that gathering, 'Abdullah bin Ubai covered his nose with his Rida (sheet) and said (to the Prophet), "Don't cover us with dust." The Prophet (ﷺ) greeted them and then stopped, dismounted and invited them to Allah (i.e., to embrace Islam) and also recited to them the Holy Qur'an. 'Abdullah bin Ubai' bin Salul said, "O man! There is nothing better than what you say, if what you say is the truth. So do not trouble us in our gatherings. Go back to your mount (or house,) and if anyone of us comes to you, tell (your tales) to him." On that 'Abdullah bin Rawaha said, "(O Allah's Apostle! (ﷺ) ) Come to us and bring it(what you want to say) in our gatherings, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started quarreling till they were about to fight and clash with one another. The Prophet (ﷺ) kept on quietening them (till they all became quiet). He then rode his animal, and proceeded till he entered upon Sa'd bin 'Ubadah, he said, "O Sa'd, didn't you hear what Abu Habbab said? (He meant 'Abdullah bin Ubai). He said so-and-so." Sa'd bin 'Ubadah said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Excuse and forgive him, for by Allah, Allah has given you what He has given you. The people of this town decided to crown him (as their chief) and make him their king. But when Allah prevented that with the Truth which He had given you, it choked him, and that was what made him behave in the way you saw him behaving." So the Prophet (ﷺ) excused him.