باب: اگر کوئی شخص کہیں ملاقات کو جائے اور دوپہر کو وہیں آرام کرے تو یہ جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: Whoever visited some people and had a mid-day nap)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6281.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے لیے چمڑے کا بستر دیتی تھی اور آپ ﷺ ان کے ہاں اسی پر قیلولہ کر لیتے تھے جب نبی ﷺ سو جاتے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کا پسینہ اور گرے ہوئے بال جمع کر لیتیں اور انہیں ایک شیشی میں ڈال لیتیں، پھر انہیں کسی خوشبو میں ملا لتیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ اس خوشبو میں بھی کچھ حنوط میں ملا دیا جائے، چنانچہ اسے حنوط میں ملا دیا گیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بزرگانِ دین کا اپنے عقیدت مندوں، رشتے داروں اور معتبر دوست احباب کے ہاں قیلولہ کرنا جائز ہے۔ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ (2) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور آپ نے ہمارے ہاں قیلولہ فرمایا تو آپ کو پسینا آ گیا۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا شیشی لے کر آئیں اور اس پسینے کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو فرمایا: ’’ام سلیم! تم یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: آپ کا پسینہ جمع کر رہی ہوں، ہم اسے خوشبو میں ڈالیں گے تو یہ تمام خوشبوؤں میں سے اعلیٰ خوشبو ہوگی۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ ہمارے بچوں کے لیے باعث خیرو برکت ہوگا۔ (صحیح مسلم، الفضائل،حدیث:6056(2331)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6057
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6281
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6281
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6281
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کے لیے چمڑے کا بستر دیتی تھی اور آپ ﷺ ان کے ہاں اسی پر قیلولہ کر لیتے تھے جب نبی ﷺ سو جاتے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کا پسینہ اور گرے ہوئے بال جمع کر لیتیں اور انہیں ایک شیشی میں ڈال لیتیں، پھر انہیں کسی خوشبو میں ملا لتیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ اس خوشبو میں بھی کچھ حنوط میں ملا دیا جائے، چنانچہ اسے حنوط میں ملا دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بزرگانِ دین کا اپنے عقیدت مندوں، رشتے داروں اور معتبر دوست احباب کے ہاں قیلولہ کرنا جائز ہے۔ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ (2) حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا، حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی خالہ تھیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور آپ نے ہمارے ہاں قیلولہ فرمایا تو آپ کو پسینا آ گیا۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا شیشی لے کر آئیں اور اس پسینے کو جمع کرنا شروع کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو فرمایا: ’’ام سلیم! تم یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: آپ کا پسینہ جمع کر رہی ہوں، ہم اسے خوشبو میں ڈالیں گے تو یہ تمام خوشبوؤں میں سے اعلیٰ خوشبو ہوگی۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ ہمارے بچوں کے لیے باعث خیرو برکت ہوگا۔ (صحیح مسلم، الفضائل،حدیث:6056(2331)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن عبد اللہ انصاری نے، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس ؓ نے کہ (ان کی والدہ) ام سلیم نبی کریم ﷺ کے لئے چمڑے کا فرش بچھا دیتی تھیں اور آنحضرت ﷺ ان کے یہاں اسی پرقیلولہ کر لیتے تھے۔ بیان کیا پھر جب آنحضرت ﷺ سو گئے (اور بیدار ہوئے) تو ام سلیم ؓ نے آنحضرت ﷺ کا پسینہ اور (جھڑے ہوئے) آپ کے بال لے لئے اور (پسینہ کو) ایک شیشی میں جمع کیا اور پھر سک (ایک خوشبو) میں اسے ملا لیا۔ بیان کیا ہے کہ پھر جب انس بن مالک ؓ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے وصیت کی کہ اس سک (جس میں آنحضرت ﷺ کا پسینہ ملا ہوا تھا) میں سے ان کے حنوط میں ملا دیا جائے۔ بیان کیا ہے کہ پھر ان کے حنوط میں اسے ملایا گیا۔
حدیث حاشیہ:
حافظ نے کہا کہ یہ بال حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے لئے تھے۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ بال اسی وقت لے لئے تھے جب آپ نے منیٰ میں سر منڈایا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا آپ کے بدن کا پسینہ جمع کر رہی تھیں اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جاگے تو فرمایا ام سلیم یہ کیا کر رہی ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کا پسینہ خوشبو میں ڈالنے کے لئے جمع کرتی ہوں وہ خود بھی نہایت خوشبودار ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ ہم برکت کے لئے آپ کا پسینہ اپنے بچوں کے واسطے جمع کرتی ہوں چنانچہ حنوط میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بال اور پسینہ ملا ہوا تھا ولا معارضة بین قولھا إنھا کانت تجمعه لأجل طیبة وبین قولھا للبرکة بل یحمل علی أنھا کانت تفصل ذلك الأمرین معا(فتح) یعنی یہ کام برکت اورخوشبو ہر دو مقاصد کے لئے کیا کرتی تھیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Thumama (RA) : Anas said, "Um Sulaim used to spread a leather sheet for the Prophet (ﷺ) and he used to take a midday nap on that leather sheet at her home." Anas added, "When the Prophet (ﷺ) had slept, she would take some of his sweat and hair and collect it (the sweat) in a bottle and then mix it with Suk (a kind of perfume) while he was still sleeping. "When the death of Anas bin Malik (RA) approached, he advised that some of that Suk be mixed with his Hanut (perfume for embalming the dead body), and it was mixed with his Hanut.