Sahi-Bukhari:
Invocations
(Chapter: Preaching at intervals)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6411.
حضرت شقیق سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کر رہے تھے کہ یزید بن معاویہ تشریف لائے۔ ہم نے عرض کی: آپ تشریف رکھیں، انہوں نے جواب دیا: بلکہ میں اندر جاتا ہوں تاکہ تمہارے ساتھی، یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو باہر لاؤں۔ اگر وہ نہ آئے تو میں تنہا ہی آ جاؤں گا اور تمہارے ساتھ بیٹھ جاؤں گا اس دوران میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے جبکہ وہ ان (یزید بن معاویہ) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، پھر وہ ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا: مجھے تمہارے بیٹھنے کی خبر پہنچی تھی لیکن مجھے تمہارے پاس آنے سے اس امر نے منع کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کبھی کبھی وعظ فرمایا کرتے تھے تاکہ ہم اکتا نہ جائیں۔
تشریح:
مقصد یہ ہے کہ وظائف و اوراد پڑھتے وقت بھی اس امر کا خیال رکھا جائے کہ وقفے وقفے سے ان کی ادائیگی ہو کیونکہ تکرار سے طبیعت بے زار ہو جاتی ہے۔ دل تنگ پڑ جاتا ہے، پھر انسان اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6182
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6411
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6411
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6411
تمہید کتاب
لغوی طور پر الدعوات، دعوة کی جمع ہے جو مصدر اور اس سے مراد دعا ہے۔اس کے معنی طلب کرنا، درخواست کرنا اور ترغیب دینا ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے حوالے سے دعا کے متعدد معنی بیان کیے ہیں: ٭ عبادت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ) (یونس10: 106) " اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت نہ کرو جو تجھے نہ کوئی نفع دے سکے اور نہ نقصان ہی پہنچا سکے۔"٭مدد طلب کرنا: جیسے قرآن میں ہے:( وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ) (البقرہ2: 23) " اللہ کے سوا تم دوسرے مددگاروں کو بھی بلالو۔"٭سوال کرنا: فرمان الٰہی ہے: (ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) (المؤمن40: 60)" مجھ سے سوال کرو میں اسے شرف قبولیت سے نوازوں گا۔"٭قول: یعنی بات کرنا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّـهُمَّ) (یونس10: 10)" جنت میں ان کا قول، یعنی بات یہ ہوگی اے اللہ! تو پاک ہے۔"٭ نداء، یعنی پکارنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَوْمَ يَدْعُوكُمْ فَتَسْتَجِيبُونَ بِحَمْدِهِ) (بنی اسرائیل17: 52) "جس دن وہ تمھیں آواز دے گا تو تم اس کی تعریف کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے۔"٭ثناء، یعنی تعریف کرنا: قرآن مجید میں ہے: (قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ) (بنی اسرائیل 17: 110) " تم اس کی تعریف اللہ کے نام سے کرو یا رحمٰن کے نام سے۔"(فتح الباری:11/113) اصطلاحی طور پر دعاکی تعریف یہ ہے: خیرو برکت کے حصول یا کسی شر سے بچاؤ کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑا گڑانا اور اسے پکارنا، دعا کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کو عبادت قرار دیا ہے، آپ فرماتے ہیں: "دعاہی عبادت ہے۔"(جامع الترمذی، تفسیر القرآن، حدیث:2969) جب دعا عبادت ہے اور انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد بھی یہی ہے تو یقیناً اس سے قرب الٰہی بھی حاصل ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی حیات طیبہ اس عبادت سے خوب منور تھی،صبح سے شام تک، شام سے صبح تک خوشی وغمی، صحت ومرض میں کھانے پینے کے بعد،مسرت وفرحت کے دلکش مواقع پر، آندھی اور طوفان میں، الغرض آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس عبادت کی ترغیب دیتا ہے۔جب دعا ایک عبادت ہے تو غیر اللہ سے دعا کرنا شرک ٹھہراتا ہے، لہٰذا زبان زد عام کلمات، مثلاً: یا رسول اللہ! یا علی! یا حسین اور یاغوث قسم کے انداز سے دعائیں کرنا، نعرے لگانا صریح شرک ہے۔ان سے بچنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق دعا، مومن کا ہتھیار ہے اور یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے آپ کسی بھی وقت کسی بھی موقع پر چلا سکتے ہیں،لیکن اس ہتھیار کے ذریعے سے بہترین نتائج کے حصول کے لیے چند آداب وشرائط ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:٭بوقت دعا انسان یہ اعتقاد رکھے کہ کمال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، اس کی رحمت اور اس کی قدرت ہی کو حاصل ہے،لہٰذا دعا صرف اور صرف مالک دوجہاں، خالق کائنات سے مانگی جائے۔٭قبولیت کی امید کے ساتھ دعا کی جائے۔اس طرح دعا نہ کرے کہ اسے شک ہوکہ نا معلوم یہ دعا قبول ہوگی یا نہیں بلکہ پوری دل جمعی،نہایت خشوع وخضوع اور اس یقین کے ساتھ کرے کہ اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔٭دعا میں حد سے نہ گزرے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کے متعلق دعا نہ کرے جو شرعاً جائز نہ ہو، مثلاً: کسی گناہ پر مبنی کسی کام یا قطع رحمی کے لیے دعا کی جائے، ایسا کرنا شرعاً حلال نہیں۔٭ دعا کرتے وقت یہ بھی اعتقاد ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب کا محتاج اور خالق کائنات بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر وہ کسی بھی نفع یا نقصان کا سزا وار نہیں۔٭دعا کرنے والے کا کھانا، پینا اور لباس حرام کا نہ ہو بلکہ حلال اور طیب ہو کیونکہ مال حرام قبولیت میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خودبھی پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے۔٭ دعا کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا اور اس خوب تعریف کرے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھے، پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے فضل وکرم کی درخواست کرے۔٭قبولیت دعا کے اوقات میں دعا کرے، مثلاً: رات کے آخری حصے میں،اذان اور اقامت کے درمیان وقفے میں،فرض نماز کے بعد، جمعہ کے دن عصر کے بعد، بحالت سجدہ اور بارش برسنے کے وقت دعا کرے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت شدہ دعاؤں، مثلاً: دعائے نور، دعائے حبیب، دعائے گنج عرش اور دعائے منزل وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔٭دعا کی قبولیت کی تاخیر میں دعا ترک نہ کرے کیونکہ قبولیت دعا کی تین صورتیں ہوتی ہیں: (1)دعاکے مطابق حاجت پوری ہوجاتی ہے۔ (2) دعا کے برابر کوئی ناگہانی بلا ٹال دی جاتی ہے۔(3) یا اس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیا جاتا ہے۔(مسند احمد:3/18)٭ آزمائشوں، سختیوں اور مصیبتوں میں تو سب لوگ ہی دعا کرتے ہیں کشادگی، بے فکری اور فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال کی علامت ہے۔دعا کرنے سے پہلے اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ اس پر کوئی سستی وغفلت کا دھبا ہو یا وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہو۔ بہرحال انسان مشکلات ومصائب میں گھر جائے،حالات وواقعات اس کے خلاف ہوجائیں،دشمن، بیماری یا پریشانی کا دباؤ شدید ہوجائے، اپنے بیگانے سب ساتھ چھوڑ جائیں، جب دنیاوی سہارے اور امید، دم توڑ جائیں تو اس وقت دعا کا ہتھیار اور اس کی کارکردگی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ درج بالا آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، ایسے حالات میں کامیابی یقینی اور پکی بات ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق ایک مکمل ضابطہ امت کے حوالے کیا ہے، اس کے لیے انھوں نے اس بڑے عنوان کے تحت انہتر(69) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں پھر انھوں نے ان عنوانات کو ثابت کرنے کے لیے ایک سو پینتالیس(145) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اکتالیس(41) معلق اور ایک سوچار (104) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ان میں ایک سو اکیس(121)مکرر اور چوبیس (24) خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ(8) احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث پر اتفاق کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے (9) آثار بھی بیان کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث وآثار کی روشنی میں دعا کی اہمیت وفضیلت اور آداب وشرائط پر قبولیت کے مقامات واوقات کے متعلق سیر حاصل بحث کی ہے۔ دعا ایک قسم" استعاذہ" یعنی اللہ کی پناہ طلب کرنا ہے۔اس کے متعلق بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ(14) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:"فتنوں سے پناہ، انسانوں کے غلبے سے پناہ، عذاب قبر سے پناہ، زندگی اور موت کے فتنے سے پناہ، آگ کے فتنے سے پناہ، غنا اور فقر سے پناہ،گناہ اور تاوان سے پناہ، بزدلی اور سستی سے پناہ،گھٹیا عمر سے پناہ وغیرہ۔دعا کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح وتہلیل اور ذکر الٰہی کے فضائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں دعا کے متعلق بہت سی دیگر ہدایات سے بھی امت کو آگاہ کیا ہے۔ہمیں چاہیے کہ دل کی گہرائی سے آئندہ آنے والی احادیث کا مطالعہ کریں اور پورے عزم وجزم کے ساتھ ان کے مطابق عمل کرنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا وہ گویا اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہے اور جس کے لیے بکثرت دعا کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے گویا رحمت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اہل ایمان کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے عمل کو اپنا لیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین۔۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے پکارو! میں تمہاری پکار قبول کروں گا بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ایک حدیث میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ (سنن ابی داود، الوتر، حدیث: 1479) بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا ہے۔ (جامع الترمذی، الدعوات، حدیث: 3371) آیت کی رو سے دعا نہ کرنے پر جہنم کی وعید ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کے ذریعے سے خشک زاہدوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کے نزدیک قضا کو تسلیم کرتے ہوئے ترک دعا افضل ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف بہت وزنی ہے، اس لیے تفویض کے بجائے دعا کے عمل کو اختیار کرنا ہی انسان کے شایان شان ہے۔ واللہ اعلم
تمہید باب
وعظ و نصیحت یا درس قرآن و حدیث وقفے وقفے سے کرنا چاہیے تاکہ لوگ تنگ آ کر متنفر نہ ہو جائیں۔
حضرت شقیق سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کر رہے تھے کہ یزید بن معاویہ تشریف لائے۔ ہم نے عرض کی: آپ تشریف رکھیں، انہوں نے جواب دیا: بلکہ میں اندر جاتا ہوں تاکہ تمہارے ساتھی، یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو باہر لاؤں۔ اگر وہ نہ آئے تو میں تنہا ہی آ جاؤں گا اور تمہارے ساتھ بیٹھ جاؤں گا اس دوران میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے جبکہ وہ ان (یزید بن معاویہ) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، پھر وہ ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور فرمایا: مجھے تمہارے بیٹھنے کی خبر پہنچی تھی لیکن مجھے تمہارے پاس آنے سے اس امر نے منع کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کبھی کبھی وعظ فرمایا کرتے تھے تاکہ ہم اکتا نہ جائیں۔
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ وظائف و اوراد پڑھتے وقت بھی اس امر کا خیال رکھا جائے کہ وقفے وقفے سے ان کی ادائیگی ہو کیونکہ تکرار سے طبیعت بے زار ہو جاتی ہے۔ دل تنگ پڑ جاتا ہے، پھر انسان اس سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا، کہا کہ ہم عبد اللہ بن مسعود ؓ کا انتظار کر رہے تھے کہ یزید بن معاویہ (ایک بزرگ تابعی) آئے۔ ہم نے کہا، تشریف رکھئے لیکن انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، میں اندر جاؤں گا اور تمہارے ساتھ (عبد اللہ بن مسعود ؓ ) کو باہر لاؤں گا۔ اگر وہ نہ آئے تو میں ہی تنہا آجاؤں گا اورتمہارے ساتھ بیٹھوں گا۔ پھر عبد اللہ بن مسعود ؓ باہر تشریف لائے اور وہ یزید بن معاویہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے پھر ہمارے سامنے کھڑے ہوئے کہنے لگے میں جان گیا تھا کہ تم یہاں موجود ہو۔ پس میں جو نکلا تو اس وجہ سے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا آپ مقررہ دنوں میں ہم کو وعظ فرمایا کرتے تھے۔ (فاصلہ دے کر) آپ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔
حدیث حاشیہ:
آدم تا ایں دم خدائے پاک کے وجود برحق کو ماننے والی جتنی قومیں گزرچکی ہیں یا موجود ہیں ان سب میں دعا کا تصور وتخیل وتعامل موجود ہے۔ موحد قوموں نے ہر قسم کی نیک دعاؤں کا مرکز اللہ پاک رب العالمین کی ذات واحد کو قرار دیا اور مشرکین اقوام نے اس صحیح مرکز سے ہٹ کر اپنے دیوتاؤں، اولیاء، پیروں، شہیدوں، قبروں، بتوں کے ساتھ یہ معاملہ شروع کر دیا۔ تاہم اس قسم کے تمام لوگوں کا دعا کے تصور پر ایمان رہا ہے اور اب بھی موجود ہے۔ اسلام میں دعاء کو بہت بڑی اہمیت دی گئی ہے، پیغمبر اسلام علیہ صلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں الدعاءُ مُخُّ العِبَادةِ یعنی عبادت کا اصلی مغز دعاء ہی ہے۔ اس لئے اسلام میں جن جن کاموں کو عبادت کا نام دیا گیا ہے ان سب کی بنیاد از اول تا آخر دعاؤں کا ایک بہترین گل دستہ ہے۔ روزہ، حج کا بھی یہی حال ہے۔ زکوٰۃ میں ....دینے والے کے حق میں نیک دعا سکھلا کر بتلا یا گیا ہے کہ اسلام کا اصل مدعا جملہ عبادات سے دعا ہے چنانچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ الدعاءُ ھو العِبَادةُثم قرأ﴿وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾(رواہ أحمد وغیرہ) یعنی دعا عبادت ہے بلکہ ایک روایت کے مطابق دعاؤں میں وہ غضب کی قوت رکھی گئی ہے کہ ان سے تقدیریں بدل جاتی ہیں۔ (موصوف مترجم کا اشارہ شاید اس حدیث کی طرف ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر وقضاء سے سبقت لے جا سکتی ہے تو یہ دعا تھی لیکن اس کا وہ مطلب نہیں جو موصوف نے لیا ہے اس میں تو واضح طور پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ دعا میں بڑی تاثیر ہے جو کسی دوا میں بھی نہیں لیکن یہ تقدیر نہیں بدل سکتی گویا یوں کہئے کہ مومن کا آخری ہتھیار دعا ہے جو تریاق مجرب ہے اگر اس پر حاوی ہے تو صرف قدر وقضاء (عبدالرشید تونسوی) اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص تاکید فرمائی کہ فعلیکم عبادَ اللہ بالدعاءِرواہ الترمذي یعنی اے اللہ کے بندو! بالضرور دعا کو اپنے لئے لازم کر لو۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص اللہ سے دعا نہیں مانگتا سمجھ لو وہ خدا کے غضب میں گرفتار ہے اور فرمایا کہ جس کے لئے دعا بکثرت کرنے کا دروازہ کھول دیا گیا سمجھ لو اس کے لئے رحمت الٰہی کے دروازے کھل گئے اور بھی بہت سی روایات اس قسم کی موجود ہیں۔ پس اہل ایمان کا فرض ہے کہ اللہ پاک سے ہر وقت دعا مانگنا اپنا عمل بنا لیں۔ قبولیت دعا کے لئے قرآن وسنت کی روشنی میں کچھ تفصیلات ہیں، اس مختصر مقالہ میں ان کو بھی سر سری نظر سے ملاحظہ فرما لیجئے تاکہ آپ کی دعا بالضرور قبول ہوجائے۔ (1) دعا کرتے وقت یہ سوچ لینا ضروری ہے کہ اس کا کھانا پینا اس کا لباس حلال مال سے ہے یا حرام سے، اگر رزق حلال و صدق مقال و لباس طیب مہیا نہیں ہے تو دعا سے پہلے ان کو مہیا کرنے کی کوشش کرنی ضروری ہے۔ (2) قبولیت دعا کے لئے یہ شرط بڑی اہم ہے کہ دعا کرتے وقت اللہ برحق پر یقین کامل ہو اور ساتھ ہی دل میں یہ عزم بالجزم ہو کہ جو وہ دعا کررہا ہے وہ ضرور قبول ہوگی رد نہیں کی جائے گی۔ (3) قبولیت دعا کے لئے دعا کے مضمون پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ اگر آپ قطع رحمی کے لئے ظلم وزیادتی کے لئے یا قانون قدرت کے برعکس کوئی مطالبہ اللہ کے سامنے رکھ رہے ہیں تو ہر گز یہ گمان نہ کریں کہ اس قسم کی دعائیں بھی آپ کی قبول ہوں گی۔ (4) دعا کرنے کے بعد فوراً ہی اس کی قبولیت آپ پر ظاہر ہو جائے، ایسا تصور بھی صحیح نہیں ہے، بہت سی دعائیں فوراً اثر دکھاتی ہیں بہت سی کافی دیر کے بعد اثر پذیر ہوتی ہیں۔ بہت سی دعا بظاہر قبول نہیں ہوتیں مگر ان کی برکات سے ہم کسی آنے والی آفت سے بچ جاتے ہیں اور بہت سی دعائیں صرف آخرت کے لئے ذخیرہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ بہر حال دعا بشرائط بالا کسی حال میں بھی بیکار نہیں جاتیں۔ (5) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آداب دعا میں بتلایا ہے کہ اللہ کے سامنے ہاتھوں کو ہتھیلیوں کی طرف سے پھیلا کر صدق دل سے سائل بن کر دعا مانگوفرمایا: ”تمہارا رب کریم بہت ہی حیادارہے اس کو شرم آتی ہے کہ اپنے مخلص بندے کے ہاتھوں کو خالی واپس کر دے، آخرمیں ہاتھوں کو چہرے پرمل لینا بھی آداب دعا سے ہے۔ ( آداب دعا سے ہے کہنے کی بجائے یوں کہا جائے کہ جائز ہے بغیر ملے اگر نیچے گرا دیے جائیں تب بھی آداب دعا میں شامل ہے۔ (عبد الرشیدتونسوی) (6) پیٹھ پیچھے اپنے بھائی مسلمان کے لئے دعا کر نا قبولیت کے لحاظ سے فوری اثر رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ فرشتے ساتھ میں آمین کہتے ہیں اور دعا کرنے والے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا تم کو بھی وہ چیز عطا کرے جو تم اپنے غائب بھائی کے لئے مانگ رہے ہو۔ (7) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پانچ قسم کے آدمیوں کی دعا ضرور قبو ل ہوتی ہے۔ مظلوم کی دعا، حاجی کی دعا جب تک وہ واپس ہو، مجاہد کی دعا یہاں تک کہ وہ اپنے مقصد کو پہنچے۔ مریض کی دعا یہاں تک کہ وہ تندرست ہو، پیٹھ پیچھے اپنے بھائی کے لئے دعا ئے خیر جو قبولیت میں فوری اثر رکھتی ہے۔ (8) ایک دوسری روایت کی بنا پر تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ والدین کا اپنی اولاد کے حق میں دعا کرنا، مظلوم کی دعا بعض روایت کی بنا پر روزہ دار کی دعا اورامام عادل کی دعا بھی فوری اثر دکھلاتی ہے۔ مظلوم کی دعا کے لئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور بارگاہ احدیت سے آواز آتی ہے کہ مجھ کو قسم ہے اپنے جلال کی اور عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ اس میں کچھ وقت لگے۔ (9) کشادگی، بے فکری فارغ البالی کے اوقات میں دعاؤں میں مشغول رہنا کمال ہے، ورنہ شدائد ومصائب میں تو سب ہی دعا کرنے لگ جاتے ہیں اولاد کے حق میں بددعا کرنے کی ممانعت ہے اسی طرح اپنے لئے یا اپنے مال کے لئے بھی بددعا نہ کرنی چاہئے۔ (10) دعا کرنے سے پہلے پھر اپنے دل کا جائزہ لیجئے کہ اس میں سستی غفلت کا کوئی داغ دھبہ تونہیں ہے۔ دعا وہی قبول ہوتی ہے جو دل کی گہرائی سے صدق نیت سے حضور قلب ویقین کا مل کے ساتھ کی جائے۔ یہ چند باتیں بطور ضروری گذارشات کے ناظرین کے سامنے رکھ دی گئی ہیں۔ امید بلکہ یقین کامل ہے کہ بخاری شریف کا مطالعہ فرمانے والے بھائی بہن سب اپنے اس حقیر ترین خادم کو بھی اپنی دعا میں شریک رکھیں گے اور اگر کہیں بھول چوک نظر آئے تو اس سے مخلصانہ طور پر مطلع کریں گے، یا اپنے دامن عفو میں چھپا لیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Shaqiq (RA) : While we were waiting for 'Abdullah (bin Mas'ud). Yazid bin Muawiyah came. I said (to him), "Will you sit down?" He said, "No, but I will go into the house (of Ibn Mas'ud (RA)) and let your companion (Ibn Mas'ud (RA)) come out to you; and if he should not (come out), I will come out and sit (with you)." Then 'Abdullah came out, holding the hand of Yazid, addressed us, saying, "I know that you are assembled here, but the reason that prevents me from coming out to you, is that Allah's Apostle (ﷺ) used to preach to us at intervals during the days, lest we should become bored."