Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: About hope and hoping too much)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” پس جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے “ اور سورۃ حجر میں فرمایا اے نبی ! ان کافروں کو چھوڑ کہ وہ کھاتے رہیں اور مزے کر تے رہیں اور آرزو ان کو دھوکے میں غافل رکھتی رہے، پس وہ عنقریب جان لیں گے جب ان کو موت اچانک دبوچ لے گی۔ “ علیؓ نے کہا کہ دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے ۔ انسانوں میں دنیا وآخرت دونوں کے چاہنے والے ہیں۔ پس تم آخرت کے چاہنے والے بنو، دنیا کے چاہنے والے نہ بنو، کیونکہ آج تو کام ہی کام ہے حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہوگا اور عمل کا وقت باقی نہیں رہے گا ۔ سورۃ بقرہ میں جو لفظ بمزحزحہ۔ بمعنیٰ مباعدہ ہے اس کے معنی ٰ ہٹانے والا۔تشریح:آیت باب میں لفظ امل سے آرزو و تمنا مراد ہے یعنی خواہشات نفسانی پوری ہونے کی امید رکھنا۔مثلا آدمی یہ خیال کرے کہ ابھی بہت عمر پڑی ہے ‘جلدی کیا ہے آخر عمر میں توبہ کر لیں گے ایسی ہی غلط آرزو کو امل کہتے ہیں بڑھاپے میں ایسی آرزو کی رسی بہت دراز ہوتی جاتی ہے مگر دفعتاً موت آکر دبوچ لیتی ہے الا من رحم اللہ آیت باب میں لفظ زحزح آیا تھا اس کی مناسبت سے بمزحزحہ کی تفسیر بیان کر دی ہے بعض نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے ۔
6417.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مربع خط کھینچا۔ پھراس کے درمیان سے ایک اور خط کھینچا جو مربع خط سے باہرنکلا ہوا تھا۔ اس کے بعد آپ نے درمیانے اندرونی خط کے دائیں بائیں دونوں جانب چھوٹے چھوٹے مزید خط کھینچے پھر فرمایا: ’’یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت سے جو اسے گھیرے ہوئے ہے ۔ اور یہ خط جو باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی اُمید ہے۔ چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ اگر انسان ایک مشکل سے بچ کر نکل جاتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور اگر دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6189
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6417
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6417
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6417
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
خواہشات نفس کے پورے ہونے کی امید رکھنا اَمل کہلاتا ہے۔ بعض اوقات آدمی خیال کرتا ہے کہ ابھی بہت عمر باقی ہے، آخر جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ عمر کے آخری حصے میں توبہ کر لیں گے۔ بڑھاپے میں اس قسم کی نفسانی خواہشات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں اسی کو طول امل کہتے ہیں۔ اگر مختلف حدیثوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان دو بیماریوں نے امت کے بہت بڑے حصے کو برباد کیا ہے۔ جن لوگوں میں فکری اور نظریاتی گمراہی ہے وہ نفسانی خواہشات کا شکار ہیں اور جن کے اعمال خراب ہیں وہ لمبی امید اور محبت دنیا کے مرض میں گرفتار ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ انسان کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جائے کہ یہ دنیوی زندگی فانی اور چند روزہ ہے اور آخرت ہی اصل زندگی ہے اور وہی ہمارا اصل مقام ہے۔ جب یہ یقین پیدا ہو جائے گا تو فکر اور عمل دونوں کی اصلاح آسان ہو جائے گی۔ واللہ المستعان
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” پس جو شخص دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے “ اور سورۃ حجر میں فرمایا اے نبی ! ان کافروں کو چھوڑ کہ وہ کھاتے رہیں اور مزے کر تے رہیں اور آرزو ان کو دھوکے میں غافل رکھتی رہے، پس وہ عنقریب جان لیں گے جب ان کو موت اچانک دبوچ لے گی۔ “ علیؓ نے کہا کہ دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے ۔ انسانوں میں دنیا وآخرت دونوں کے چاہنے والے ہیں۔ پس تم آخرت کے چاہنے والے بنو، دنیا کے چاہنے والے نہ بنو، کیونکہ آج تو کام ہی کام ہے حساب نہیں ہے اور کل حساب ہی حساب ہوگا اور عمل کا وقت باقی نہیں رہے گا ۔ سورۃ بقرہ میں جو لفظ بمزحزحہ۔ بمعنیٰ مباعدہ ہے اس کے معنی ٰ ہٹانے والا۔تشریح:آیت باب میں لفظ امل سے آرزو و تمنا مراد ہے یعنی خواہشات نفسانی پوری ہونے کی امید رکھنا۔مثلا آدمی یہ خیال کرے کہ ابھی بہت عمر پڑی ہے ‘جلدی کیا ہے آخر عمر میں توبہ کر لیں گے ایسی ہی غلط آرزو کو امل کہتے ہیں بڑھاپے میں ایسی آرزو کی رسی بہت دراز ہوتی جاتی ہے مگر دفعتاً موت آکر دبوچ لیتی ہے الا من رحم اللہ آیت باب میں لفظ زحزح آیا تھا اس کی مناسبت سے بمزحزحہ کی تفسیر بیان کر دی ہے بعض نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مربع خط کھینچا۔ پھراس کے درمیان سے ایک اور خط کھینچا جو مربع خط سے باہرنکلا ہوا تھا۔ اس کے بعد آپ نے درمیانے اندرونی خط کے دائیں بائیں دونوں جانب چھوٹے چھوٹے مزید خط کھینچے پھر فرمایا: ’’یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت سے جو اسے گھیرے ہوئے ہے ۔ اور یہ خط جو باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی اُمید ہے۔ چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ اگر انسان ایک مشکل سے بچ کر نکل جاتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور اگر دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:"جوشخص دوزخ سے بچالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا۔"
"بِمُزَحْزِحِهِ" کے معنی ہیں:"ہٹانے والا۔"
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:"انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں کہ کھاپی لیں اور مزے اڑالیں۔"
حضرت علی ابن ابی طالبؓنے فرمایا:دنیا پیٹھ پھیرنے والی ہے اور آخرت سامنے آرہی ہے۔ان دونوں (دنیا وآخرت) میں سے ہر ایک کے طالب ہیں۔تم آخرت کے طلبگار بنو،دنیا کے چاہنے والے نہ بنو۔بلاشبہ آج عمل کا موقع ہے حساب نہیں اور کل حساب ہوگا عمل کا موقع نہیں ملے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ قطان نے خبر دی، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے منذر بن یعلیٰ نے، ان سے ربیع بن خثیم نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چوکھٹا خط کھینچا۔ پھر اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا۔ اس کے بعد درمیان والے خط کے اس حصے میں جو چوکھٹے کے درمیان میں تھا چھوٹے چھوٹے بہت سے خطوط کھینچے اور پھر فرمایا کہ یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو (بیچ کا) خط باہر نکلا ہوا ہے وہ اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خطوط اس کی دنیاوی مشکلات ہیں۔ پس انسان جب ایک (مشکل) سے بچ کر نکلتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس چوکھٹے کی شکل یوں مرتب کی گئی ہے۔ اندر والی لکیر انسان ہے جس کو چاروں طرف سے مشکلات نے گھیر رکھا ہے اور گھیرنے والی لکیر اس کی موت ہے اور باہر نکلنے والی اس کی حرص وآرزو ہے جو موت آنے پر دھری رہ جاتی ہے۔ حیات چند روزہ کا یہی حال ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) drew a square and then drew a line in the middle of it and let it extend outside the square and then drew several small lines attached to that central line, and said, "This is the human being, and this, (the square) in his lease of life, encircles him from all sides (or has encircled him), and this (line), which is outside (the square), is his hope, and these small lines are the calamities and troubles (which may befall him), and if one misses him, an-other will snap (i.e. overtake) him, and if the other misses him, a third will snap (i.e. overtake) him."