باب:وہ شخص جو مجلس کےآخر میں بیٹھ جائے اور وہ شخص جو درمیان میں جہاں کہیں جگہ دیکھے بیٹھ جائے (بشرطیکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو)
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whoever sat at the farther end of a gathering. And whoever found a place amongst a gathering and took his seat there)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
66.
حضرت ابو واقد لیثی ؓ سے روایت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں لوگوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں تین آدمی آئے۔ ان میں سے دو تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آ گئے اور ایک واپس چلا گیا۔ راوی نے کہا کہ وہ دونوں کچھ دیر رسول اللہ ﷺ کے پاس ٹھہرے رہے۔ ان میں سے ایک نے حلقے میں گنجائش دیکھی تو بیٹھ گیا اور دوسرا سب سے پیچھے بیٹھ گیا، تیسرا تو واپس ہی جا چکا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ (وعظ سے) فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ان تینوں آدمیوں کا حال نہ بتاؤں؟ ان میں سے ایک نے اللہ کی طرف پناہ لی تو اللہ نے بھی اسے اپنی طرف جگہ دے دی اور دوسرا شرمایا تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور تیسرے نے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے اعراض فرمایا۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے علمی مجلس کے آداب پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی طالب علم یا کوئی دوسرا خواہشمند شیخ کے نزدیک بیٹھنا چاہتا ہے تو اسے بروقت آنا چاہیے۔ اسے اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے اہل مجلس کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے بہتر ہے کہ سب سے آخر میں بیٹھ جائے۔ مجلس میں بیٹھنے والوں میں سے کسی ایک کی دوسرے پربرتری ثابت کرنا مقصود نہیں۔ فیوض وبرکات کے اعتبار سے تمام اہل مجلس برابر ہیں۔ ایسی مجالس پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ 2۔ اگر بعد میں آنے والا دیکھتا ہے کہ شیخ کے پاس جگہ خالی ہے تو اسے اجازت ہے کہ وہ حاضرین کے پاس سے گزر کر خالی جگہ میں بیٹھ جائے۔ یہ تخطی رقاب (گردنیں پھلانگ کر جانا) نہیں جوشرعاً ممنوع ہے۔ یہ اس لیے جائز ہے کہ پہلے سے بیٹھنے والوں نے بدنظمی کی ہے اور آگے جگہ خالی چھوڑرکھی ہے۔ اس سے آگے بیٹھنے والے کے شوق اور رغبت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس بنا پر وہ پیچھے بیٹھنے والے سے افضل ہوگا کیونکہ اسے حصول خیر کا شوق زیادہ ہے۔ (فتح الباري: 207/1) 3۔ حدیث میں ہے کہ دوسرے شخص نے حیا کا معاملہ کیا۔ اس کے دو معنی ہیں: (الف) شرم کی وجہ سے اس نے اہل مجلس سے مزاحمت نہیں کی بلکہ جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا، مقصد تو علمی مجلس میں شریک ہونا تھا، اہل مجلس کے تکلیف دینے سے کیا فائدہ؟ (ب) بیٹھنے کا خیال تو نہ تھا مگر اہل مجلس سے شرم کرتے ہوئے پیچھے بیٹھ گیا۔ حدیث میں یہی معنی مقصود ہیں کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ یہ شخص مجلس سے آگے نکل چکا تھا مگر اسے شرم دامن گیر ہوئی تو واپس آیا اور بیٹھ گیا۔(المستدرک للحاکم: 255/4) ایسی صورت میں (لَا يَشْقَى جَلِيسُهُمْ) کے تحت معاملہ ہوگا۔ 4۔ اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت حیا کا ثبوت ملتا ہے۔ بعض اہل علم نے اس کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد رحم کرنا اور کسی کو عذاب نہ دینا ہے لیکن محققین اسلاف نے اس انداز کو پسند نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک قابل تعریف موقف یہ ہے کہ اللہ کی صفات کو جوں کا توں تسلیم کیا جائے۔ 5۔ تیسرے شخص کی بے رخی کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ منافق تھا، کیونکہ اخلاص کے باوجود بعض اوقات انسان اپنی ضروریات کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے اتنی بات ضرور ہے کہ وہ خاص رحمت جو اہل حلقہ پر ہورہی تھی، اس سے وہ محروم رہ گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
66
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
66
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
66
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
66
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اقسام تحمل حدیث بیان کرنے کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ علمی مجالس میں شرکت کے آداب بیان کرتے ہیں کہ علمی مجلس میں جہاں جگہ میسر ہووہیں بیٹھ جانا چاہیے۔ان مجالس سے روگردانی کسی طرح جائز نہیں۔اگرتکبر کی وجہ سے اعراض ہے تو حرام،اگربے پروائی کی بنا پر ایسا ہوتو اگرچہ حرام نہیں تاہم علم سے محرومی تو ہے۔
حضرت ابو واقد لیثی ؓ سے روایت ہے، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں لوگوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں تین آدمی آئے۔ ان میں سے دو تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آ گئے اور ایک واپس چلا گیا۔ راوی نے کہا کہ وہ دونوں کچھ دیر رسول اللہ ﷺ کے پاس ٹھہرے رہے۔ ان میں سے ایک نے حلقے میں گنجائش دیکھی تو بیٹھ گیا اور دوسرا سب سے پیچھے بیٹھ گیا، تیسرا تو واپس ہی جا چکا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ (وعظ سے) فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ان تینوں آدمیوں کا حال نہ بتاؤں؟ ان میں سے ایک نے اللہ کی طرف پناہ لی تو اللہ نے بھی اسے اپنی طرف جگہ دے دی اور دوسرا شرمایا تو اللہ نے بھی اس سے شرم کی اور تیسرے نے روگردانی کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے اعراض فرمایا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث سے علمی مجلس کے آداب پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی طالب علم یا کوئی دوسرا خواہشمند شیخ کے نزدیک بیٹھنا چاہتا ہے تو اسے بروقت آنا چاہیے۔ اسے اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے اہل مجلس کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے بہتر ہے کہ سب سے آخر میں بیٹھ جائے۔ مجلس میں بیٹھنے والوں میں سے کسی ایک کی دوسرے پربرتری ثابت کرنا مقصود نہیں۔ فیوض وبرکات کے اعتبار سے تمام اہل مجلس برابر ہیں۔ ایسی مجالس پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ 2۔ اگر بعد میں آنے والا دیکھتا ہے کہ شیخ کے پاس جگہ خالی ہے تو اسے اجازت ہے کہ وہ حاضرین کے پاس سے گزر کر خالی جگہ میں بیٹھ جائے۔ یہ تخطی رقاب (گردنیں پھلانگ کر جانا) نہیں جوشرعاً ممنوع ہے۔ یہ اس لیے جائز ہے کہ پہلے سے بیٹھنے والوں نے بدنظمی کی ہے اور آگے جگہ خالی چھوڑرکھی ہے۔ اس سے آگے بیٹھنے والے کے شوق اور رغبت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس بنا پر وہ پیچھے بیٹھنے والے سے افضل ہوگا کیونکہ اسے حصول خیر کا شوق زیادہ ہے۔ (فتح الباري: 207/1) 3۔ حدیث میں ہے کہ دوسرے شخص نے حیا کا معاملہ کیا۔ اس کے دو معنی ہیں: (الف) شرم کی وجہ سے اس نے اہل مجلس سے مزاحمت نہیں کی بلکہ جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا، مقصد تو علمی مجلس میں شریک ہونا تھا، اہل مجلس کے تکلیف دینے سے کیا فائدہ؟ (ب) بیٹھنے کا خیال تو نہ تھا مگر اہل مجلس سے شرم کرتے ہوئے پیچھے بیٹھ گیا۔ حدیث میں یہی معنی مقصود ہیں کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ یہ شخص مجلس سے آگے نکل چکا تھا مگر اسے شرم دامن گیر ہوئی تو واپس آیا اور بیٹھ گیا۔(المستدرک للحاکم: 255/4) ایسی صورت میں (لَا يَشْقَى جَلِيسُهُمْ) کے تحت معاملہ ہوگا۔ 4۔ اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت حیا کا ثبوت ملتا ہے۔ بعض اہل علم نے اس کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد رحم کرنا اور کسی کو عذاب نہ دینا ہے لیکن محققین اسلاف نے اس انداز کو پسند نہیں کیا بلکہ ان کے نزدیک قابل تعریف موقف یہ ہے کہ اللہ کی صفات کو جوں کا توں تسلیم کیا جائے۔ 5۔ تیسرے شخص کی بے رخی کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ منافق تھا، کیونکہ اخلاص کے باوجود بعض اوقات انسان اپنی ضروریات کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے اتنی بات ضرور ہے کہ وہ خاص رحمت جو اہل حلقہ پر ہورہی تھی، اس سے وہ محروم رہ گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ان سے مالک نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ کے واسطے سے ذکر کیا، بے شک ابومرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب نے انھیں ابو واقد اللیثی سے خبر دی کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ ﷺ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمی وہاں آئے (ان میں سے) دو رسول اللہ ﷺ کے سامنے پہنچ گئے اور ایک واپس چلا گیا۔ (راوی کہتے ہیں کہ) پھر وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے (جب) مجلس میں (ایک جگہ کچھ) گنجائش دیکھی، تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا اہل مجلس کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا جو تھا وہ لوٹ گیا۔ تو جب رسول اللہ ﷺ (اپنی گفتگو سے) فارغ ہوئے (تو صحابہ ؓ سے) فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ تو (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ سے پناہ چاہی اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے کو شرم آئی تو اللہ بھی اس سے شرمایا ( کہ اسے بھی بخش دیا ) اور تیسرے شخص نے منہ موڑا، تو اللہ نے (بھی) اس سے منہ موڑ لیا۔
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ مجالس علمی میں جہاں جگہ ملے بیٹھ جانا چاہیئے۔ آپ نے مذکورہ تین آدمیوں کی کیفیت مثال کے طور پر بیان فرمائی۔ ایک شخص نے مجلس میں جہاں جگہ دیکھی وہاں ہی وہ بیٹھ گیا۔ دوسرے نے کہیں جگہ نہ پائی تومجلس کے کنارے جا بیٹھا اور تیسرے نے جگہ نہ پاکر اپنا راستہ لیا۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس سے اعراض گویا اللہ سے اعراض ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے اس کے بارے میں سخت الفاظ فرمائے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مجلس میں آدمی کو جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جانا چاہیئے اگرچہ اس کو سب سے آخر میں جگہ ملے۔ آج بھی وہ لوگ جن کو قرآن وحدیث کی مجلس پسند نہ ہوبڑے ہی بدبخت ہوتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Waqid Al-Laithi (RA): While Allah's Apostle (ﷺ) was sitting in the mosque with some people, three men came. Two of them came in front of Allah's Apostle (ﷺ) and the third one went away. The two persons kept on standing before Allah's Apostle (ﷺ) for a while and then one of them found a place in the circle and sat there while the other sat behind the gathering, and the third one went away. When Allah's Apostle (ﷺ) finished his preaching, he said, "Shall I tell you about these three persons? One of them be-took himself to Allah, so Allah took him into His grace and mercy and accommodated him, the second felt shy from Allah, so Allah sheltered Him in His mercy (and did not punish him), while the third turned his face from Allah and went away, so Allah turned His face from him likewise. "