باب : کفارہ میں مدبر، ام الولد اور مکاتب اور ولد الزنا کا آزاد کرنا درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Expiation for Unfulfilled Oaths
(Chapter: Manumission of Mudabbar, and Umm Walad and a Mukatab for expiation; and the manumission of a bastard)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور طاؤس نے کہا کہ مدبر اور ام الولد کا آزاد کرنا کافی ہوگاتشریح : مدبر اس غلام کو کہتے ہیں جس کے مالک نے یہ کہہ دیا ہو کہ میری موت کے بعد غلام آزاد ہے۔ ام الولد وہ لونڈی جس کے پیٹ سے مالک کا کوئی بچہ ہو۔ ایسی کنیز مالک کی موت کے بعد شریعت کی رو سے خود بخود آزاد ہوجاتی ہے۔ مکاتب وہ غلام ہے جس نے اپنے مالک سے کسی مقررہ مدت میں ایک خاص رقم کی ادائیگی کا معاہدہ لکھ دیا ہو کہ اس مدت میں اگر وہ رقم ادا کردے گا تو آزاد ہوجائے گا ان تمام صورتوں میں غلام مکمل غلام نہیں ہے اور نہ اسے آزاد ہی کہا جاتا ہے۔ مصنف نے بحث یہ کی ہے کہ کیا اس صورت میں کفارہ میں ان کی آزادی ایک غلام کی آزادی کے حکم میں مانی جاسکتی ہے؟
6716.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ انصار میں سے ایک آدمی نے اپنے غلام کو مدبر بنایا جبکہ اس کے پاس غلام کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا۔ نبی ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”یہ غلام مجھ سے کون خریدتا ہے؟“ نعیم بن نحام نے آٹھ سو درہم کے عوض اسے خرید لیا۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں۔ وہ ایک قبطی غلام تھا جو پہلے ہی سال مر گیا۔
تشریح:
(1) جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ ہر قسم کے کفارے میں مدبر، ام ولد اور مکاتب وغیرہ کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے جمہور کے موقف کی تائید کی ہے کہ جب مدبر غلام کو فروخت کیا جا سکتا ہے، تو اسے آزاد کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ ام ولد اور مکاتب کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ (2) ولد الزنا اگر مومن ہے تو وہ کافر غلام کے مقابلے میں افضل ہے۔ قرآنی آیت مطلق ہے تو اسے کفارۂ قسم میں آزاد کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6478
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6716
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6716
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6716
تمہید کتاب
كفارات، كفارة کی جمع ہے۔ اس کی اصل ک،ف،ر ہے۔ اس کے لغوی معنی ڈھانکنا اور چھپانا ہیں۔ کفارہ گناہ کو ڈھانک لیتا ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔ کاشتکار کو بھی کافر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ) ''جیسے بارش ہوتی ہے تو اس کی نباتات نے کاشت کاروں کو خوش کر دیا۔'' (الحدید: 57/20) اس آیت کریمہ میں کاشت کاروں کو کفار کہا گیا ہے اور اس میں اس کے لغوی معنی ملحوظ ہیں، یعنی وہ بیچ کو زمین میں چھپا دیتے ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں کہا جاتا ہے: (كفرت الشمس النجوم) ''سورج نے ستاروں کو چھپا دیا۔'' بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سورج کو اوٹ میں کر دیتا ہے۔ اہلِ عرب رات پر بھی کافر کا اطلاق کرتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں سے ہر چیز کو چھپا دیتی ہے۔ آدمی جب ہتھیاروں سے ڈھانک دیا جاتا ہے تو اس پر لفظ کافر بولا جاتا ہے۔ اس کفارہ کے دوسرے معنی ازالۂ کفر بھی ہیں جیسا کہ تمریض کے معنی ازالۂ مرض ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ) ''اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور اللہ سے ڈر جاتے تو ہم ان کے گناہ مٹا دیتے۔'' (المائدۃ: 5/65) اس آیت میں تکفیر کے معنی ازالۂ کفر ہیں۔ اس میں ستر کے معنی بھی کیے جا سکتے ہیں۔شرعی اصطلاح میں کفارہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو قسم توڑنے والا دیتا ہے۔ اسی طرح قتل اور ظہار کے تاوان کو بھی کفارہ کہا جاتا ہے۔ اس میں لغت کے اعتبار سے دونوں معنوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یعنی اس کفارہ کے باعث قسم توڑنے کے گناہ کو مٹا دیا جاتا ہے اور مکلف کے نامۂ اعمال سے اسے زائل اور ختم کر دیا جاتا ہے اور دوسرے معنی بھی اس میں موجود ہیں کہ کفارہ اس کے برے فعل کو چھپا دیتا ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مکلف ایسا ہو جاتا ہے گویا اس نے وہ فعل سر انجام ہی نہیں دیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت قسموں کا کفارہ بیان کیا ہے اور چھوٹے چھوٹے دس (10) عنوان قائم کر کے کفارے کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ اس مناسبت سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صاع مدینہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مُد کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی وضاحت بھی آئندہ کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کی وضاحت کے لیے پندرہ (15) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ اس عنوان کے معلق احادیث اور دیگر آثار و اقوال ہیں۔ جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت فہم، قوت استنباط اور زورِ اجتہاد و استدلال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام ہماری ان معروضات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ منتخب احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
تمہید باب
مدبر وہ غلام ہے جسے اس کے مالک نے کہہ دیا ہو کہ تو میری موت کے بعد آزاد ہے۔ ام ولد وہ لونڈی ہے جس کا اس کے مالک سے بچہ پیدا ہو چکا ہے۔ ایسی لونڈی بھی مالک کی موت کے بعد خودبخود آزاد ہو جاتی ہے۔ مکاتب وہ غلام ہے جس نے اپنے آقا سے کسی مقررہ مدت میں ایک خاص رقم کی ادائیگی کا معاہدہ لکھ دیا ہو۔ ان تمام صورتوں میں وہ نہ تو مکمل غلام ہے اور نہ مکمل آزاد۔ امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس قسم کا غلام کفارۂ قسم میں آزاد کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کا غلام کفارے میں آزاد کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
اور طاؤس نے کہا کہ مدبر اور ام الولد کا آزاد کرنا کافی ہوگاتشریح : مدبر اس غلام کو کہتے ہیں جس کے مالک نے یہ کہہ دیا ہو کہ میری موت کے بعد غلام آزاد ہے۔ ام الولد وہ لونڈی جس کے پیٹ سے مالک کا کوئی بچہ ہو۔ ایسی کنیز مالک کی موت کے بعد شریعت کی رو سے خود بخود آزاد ہوجاتی ہے۔ مکاتب وہ غلام ہے جس نے اپنے مالک سے کسی مقررہ مدت میں ایک خاص رقم کی ادائیگی کا معاہدہ لکھ دیا ہو کہ اس مدت میں اگر وہ رقم ادا کردے گا تو آزاد ہوجائے گا ان تمام صورتوں میں غلام مکمل غلام نہیں ہے اور نہ اسے آزاد ہی کہا جاتا ہے۔ مصنف نے بحث یہ کی ہے کہ کیا اس صورت میں کفارہ میں ان کی آزادی ایک غلام کی آزادی کے حکم میں مانی جاسکتی ہے؟
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ انصار میں سے ایک آدمی نے اپنے غلام کو مدبر بنایا جبکہ اس کے پاس غلام کے علاوہ اور کوئی مال نہ تھا۔ نبی ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”یہ غلام مجھ سے کون خریدتا ہے؟“ نعیم بن نحام نے آٹھ سو درہم کے عوض اسے خرید لیا۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں۔ وہ ایک قبطی غلام تھا جو پہلے ہی سال مر گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ ہر قسم کے کفارے میں مدبر، ام ولد اور مکاتب وغیرہ کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے جمہور کے موقف کی تائید کی ہے کہ جب مدبر غلام کو فروخت کیا جا سکتا ہے، تو اسے آزاد کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ ام ولد اور مکاتب کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ (2) ولد الزنا اگر مومن ہے تو وہ کافر غلام کے مقابلے میں افضل ہے۔ قرآنی آیت مطلق ہے تو اسے کفارۂ قسم میں آزاد کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
امام طاؤس نے کہا: کفارے میں مدبر اور ام ولد کا آازاد کرنا کافی ہے۔
* وضاحت: مدبر وہ غلام ہے جیسے اس کے مالک کی موت کے بعد آزاد ہے۔ ام ولد وہ لونڈی ہے جس کا اس کا مالک سے بچہ پیدا ہوچکا ہے۔ ایسی لونڈی بھی مالک کی موت کے بعد خود بخود ہوجاتی ہے۔ مکاتب وہ غلام ہے جس نے اپنے آقا سے کسی مقرر مدت میں ایک خاص رقم کی ادائیگی کا معاہدہ طے کرلیا ہو، ان تمام صورتوں میں وہ نہ تو مکمل غلام ہے اور نہ مکمل آزاد ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم کو حماد بن زید نے خبر دی، انہیں عمروبن دینار نے اور ان سے حضرت جابر ؓ نے کہ قبیلہ انصار کے ایک صاحب نے اپنے غلام کو مدبر بنا لیا اور ان کے پاس اس غلام کے سوا اور کوئی مال نہیں تھا۔ جب اس کی اطلاع نبی کریم ﷺ کو ملی تو آپ نے دریافت فرمایا کہ مجھ سے اس غلام کو کون خریدتا ہے۔ نعیم بن نحام ؓ نے آٹھ سو درہم میں آنحضرت ﷺ سے اسے خرید لیا۔ میں نے حضرت جابر ؓ کو یہ کہتے سنا کہ وہ ایک قبطی غلام تھا اور پہلے سال مر گیا۔ آنحضرت ﷺ نے اسے نیلام فرما کر اس رقم سے اسے مکمل آزاد کرا دیا۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr (RA) : Jabir said: An Ansari man made his slave a Mudabbar and he had no other property than him. When the Prophet (ﷺ) heard of that, he said (to his companions), "Who wants to buy him (i.e., the slave) for me?" Nu'aim bin An-Nahham bought him for eight hundred Dirhams. I heard Jabir saying, "That was a coptic slave who died in the same year."