باب : اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا” اللہ پاک تمہاری اولاد کے مقدمہ میں تم کو یہ حکم دیتا ہے کہ مرد بچے کو دوہرا حصہ اور بیٹی کو اکہرا حصہ ملے گا۔ اگر میت کا بیٹا نہ ہو ، نِری بیٹیاں ہوں دو یا دو سے زائد تو ان کو دو تہائی ترکہ ملے گا۔ اگر میت کی ایک بیٹی ہو تو اس کو آدھا ترکہ ملے گا اور میت کے ماں باپ ہر ایک کو ترکہ میں سے چھٹا چھٹا حصہ ملے گا اگر میت کی اولاد ہو( بیٹا یا بیٹی، پوتا یا پوتی) اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کو تہائی حصہ( باقی سب باپ کو ملے گا) اگر ماں باپ کے سوا میت کے کچھ بھائی بہن ہوں تب ماں کو چھٹا حصہ ۱ ملے گا یہ سارے حصے میت کی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد ادا کئے جائیں گے( مگر وصیت میت کے تہائی مال تک جہاں تک پوری ہوسکے پوری کریں گے۔ باقی دو تہائی وارثوں کا حق ہے اور قرض کی ادائےگی سارے مال سے کی جائے گی اگر کل مال قرض میں چلا جائے تو وارثوں کو کچھ نہ ملے گا) تم کیا جانو باپ یا بیٹوں میں سے تم کو کس سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے( اس لئے اپنی رائے کو دخل نہ دو) یہ حصے اللہ کے مقرر کئے ہوئے ہیں( وہ اپنی مصلحت کو خوب جانتا ہے) کیو ں کہ اللہ بڑے علم اور حکمت والا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Laws of Inheritance (Al-Faraa'id)
(Chapter: “Allah commands you as regards your children’s (inheritance)…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور تمہاری بیویاں جو مال اسباب چھوڑ جائیں اگر اس کی اولاد نہ ہو( نہ بیٹا نہ بیٹی) تب تو تم کو آدھا ترکہ ملے گا۔ اگر اولاد ہو تو چوتھائی یہ بھی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد ملے گا اسی طرح تم جو مال و اسباب چھوڑ جاؤ اور تمہاری اولاد بیٹا بیٹی کوئی نہ ہو تو تمہاری بیویوں کو اس میں سے چوتھائی ملے گا اگر اولاد ہو تو آٹھواں حصہ یہ بھی وصیت اور قرضہ ادا کرنے کے بعد اور اگر کوئی مرد یا عورت مرجائے اور وہ کلالہ ہو( نہ اس کا باپ ہو نہ بیٹا) بلکہ ماں جائے ایک بھائی یا بہن ہو( یعنی اخیافی) تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر اسی طرح کئی اخیائی بھائی بہن ہوں تو سب مل کر ایک تہائی پائیں گے۔ یہ بھی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد بشرطیکہ میت نے وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لئے وصیت نہ کی ہو“ ۔ ( یعنی ثلث مال سے زیادہ کی) یہ سارا فرمان اللہ پاک کا اور اللہ ہر ایک کا حال خوب جانتا ہے وہ بڑے تحمل والا ہے( جلدی عذاب نہیں کرتا) “ ۔کتاب الفرائض جمع فریضۃ کحدیقۃ و حدائق والفریضۃ فعلیہ بمعنی مفروضۃ ماخوذۃ من الفرض وہو القطع یقال فرضت لفلان کذا ای قطعت لہ شیئا من المال قالہ الخاطبی و خصت المواریث باسم الفرائض من قول تعالیٰ نصیبا مفروضا....اومعلوما او مقطوعا عن غیرہم ( خلاصہ فتح الباری ) لفظ فرائض فریضہ کی جمع ہے جیسے حدیقہ کی جمع حدائق ہے اورلفظ فریضہ بمعنی مفروضہ ہے جو فرض سے ماخوذ ہے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لئے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث کو نام فرائض سے خاص کیاگیا ہے جیسا کہ آیت میں ہے۔ نصیبا مفروضہ حصہ مقرر کیا ہوا یعنی ان کے غیر سے کاٹا ہوا۔ کتاب الفرائض میں ترکہ کے مسائل بیان کئے جاتے ہیں جو ترکہ سے حق داروں کو حصے ملتے ہیں۔ فرائض کا ایک مستقل علم ہے جسکی تفصیلات بہت ہیں یہ علم ہر کسی کو نہیں آتا اس میں علم ریاضی حساب کی کافی ضرورت پڑتی ہے۔ ہماری جماعت میں حضرت مولانا عبدالرحمن بجوادی علم فرائض کے امام تھے۔ آپ نے فتاویٰ ثنائیہ حصہ دوم میں کتاب الفرائض پر ایک جامع مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔ غفراﷲ لہ ( آمین ) باقی سب باپ کو ملے گا۔ بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ باپ کے ہوتے ہوئے بھائی بہن ترکہ سے محروم ہیں لیکن ماں کا حصہ کم کردیتے ہیں۔ یعنی ان کے وجود سے ماں کا تہائی حصہ کم ہوکر چھٹا رہ جاتا ہے۔
6723.
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ پیدل چل کر میری عیادت کے لیے آئے۔ یہ دونوں حضرات جب ائے تو مجھ غشی طاری تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا اور وضو سے بچا ہوا پانی مجھ پر چھڑکا۔ مجھے جب ہوش آیا تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کا کیا کروں؟ اپنے مال کے متعلق کیا فیصلہ کروں؟ (یہ سن کر) آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ میراث کی آیت کریمہ نازل ہوئی۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری تو صرف بہنیں ہیں تو اس وقت آیت فرائض نازل ہوئی۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث: 6743) کتاب التفسیر میں ہے کہ اس وقت ﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾(النساء:11/4) نازل ہوئی۔ (صحیح البخاري، حدیث: 4577) ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں تو کلالہ ہوں اور میری وراثت کس کو ملے گی تو آیت فرائض نازل ہوئی۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 194) امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾(النساء: 176/4) نازل ہوئی۔ (2) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں آیات میں کلالہ کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں مادری بہن بھائیوں کے لیے وراثت کا ذکر تھا جبکہ دوسری آیت میں حقیقی اور پدری بہن بھائیوں کو کلالہ کی وراثت ملنے کا بیان ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی شان نزول اس طرح مروی ہے کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! حضرت سعد تو آپ کے ہمراہ غزوۂ اُحد میں شہید ہو گئے اور ان کی یہ دو بیٹیاں ہیں لیکن ان کے بھائی نے ان کا سارا مال قبضے میں لے لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا، اس کے بعد آیت میراث نازل ہوئی تو آپ نے اس کے بھائی کو بلا کر کہا کہ سعد کے ترکے سے دو تہائی اس کی بیٹیوں کو اور آٹھواں حصہ اس کی بیوی کو دو، ان سے جو باقی بچے گا وہ آپ کا ہے۔‘‘ (مسند أحمد: 352/3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے کہ ابتدائی حصہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں کے متعلق نازل ہوا ہو اور جس آیت میں کلالہ کا ذکر ہے وہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔ (فتح الباري: 308/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6485
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6723
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6723
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6723
تمہید کتاب
فرائض، فريضة کی جمع ہے۔ فریضہ اس ذمہ داری کو کہتے ہیں جو مکلف پر شرعاً عائد کی جائے، جیسے: نماز، روزہ، حج اور زکاۃ وغیرہ فرض ہیں۔ میراث کو بھی فریضہ اور فرض کہا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں: کاٹنا اور مقرر کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لیے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث میں فرائض سے مراد وراثت کے مستحق لوگوں کے لیے وہ مقرر حصے ہیں جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔ یہ نام قرآن کریم کی آیت کریمہ (نَصِيبًا مَّفْرُوضًا) سے ماخوذ ہے۔ (النساء: 4/7) کتاب الفرائض میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ترکے کے مسائل اور ورثاء کو ملنے والے حصے بیان کیے ہیں۔ فرائض کا علم ایک ایسا علم ہے جس کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ ان سے آگاہ ہونا ہر کسی کا کام نہیں کیونکہ ان میں علم ریاضی اور حساب، نیز جدید اعشاری قواعد و ضوابط کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم تمہید کے طور پر چند حقائق ذکر کرتے ہیں تاکہ صحیح بخاری میں آمدہ وراثت کے احکام و مسائل سمجھنے میں آسانی ہو۔٭ اسلام دین فطرت ہے، اس لیے انسان کی فطری خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس میں شخصی جائیداد اور انفرادی ملکیت کی پوری پوری گنجائش ہے۔ اس میں احکام وصیت و وراثت اور مسائل ہبہ و وقف کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انفرادی نظریۂ ملکیت ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، پھر تمدن کی ترقی کے لیے انتقال ملکیت بھی ضروری ہے جس کی دو صورتیں ممکن ہیں ایک اختیاری اور دوسری غیر اختیاری۔ اختیاری انتقال ملکیت کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ معاوضہ لے کر کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا ایسا اشیائے خریدوفروخت یا اس کے مشابہ لین دین میں ہوتا ہے۔ ٭ بلا معاوضہ کوئی چیز دوسرے کے حوالے کرنا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت صحت ہو اور اپنی زندگی میں کوئی چیز دوسرے کے حوالے کر دی جائے تو اسے ہبہ یا ہدیہ کہا جاتا ہے اور اگر بلا معاوضہ انتقال ملکیت بحالت مرض موت ہو اور مرنے کے بعد وہ چیز کسی دوسرے کو ملے تو اسے وصیت کہا جاتا ہے۔ انتقال ملکیت کی دوسری صورت جو غیر اختیاری ہے اس میں ایک انسان کی مملوکہ اشیاء خودبخود اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں۔ اس میں انتقال کرنے والے کے ارادے، نیت یا اختیار کو قطعاً کوئی دخل نہیں ہوتا، اس غیر اختیاری انتقال ملکیت کو شرعی اصطلاح میں ''وراثت'' کہا جاتا ہے۔انتقال ملکیت کے ان مذکورہ دونوں طریقوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ اختیاری طریقۂ انتقال میں بعض اوقات ایجاب و قبول اور بعض صورتوں میں صرف ایجاب شرط ہوتا ہے جیسا کہ خریدوفروخت اور وقف میں ہوتا ہے جبکہ وراثت میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی وارث اس کا مالک بن جاتا ہے۔آغاز اسلام میں انتقال ملکیت کے لیے وصیتی طریقہ رائج کیا گیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ جائیداد کا مالک خود اس امر کا اہتمام کرتا کہ اس کے مرنے اس کی جائیداد کا بندوبست کس طرح ہو اور کون کون لوگ اس میں حصہ دار ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''تم پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے اور کچھ مال و دولت چھوڑے جا رہا ہو تو مناسب طور پر اپنے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر جائے، ایسا کرنا اہل تقویٰ کے ذمے حق ہے۔'' (البقرۃ: 2/180) لیکن انسان کی خودغرضی اسے اکثر اوقات ظلم و زیادتی پر آمادہ کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں کسی رشتہ دار کی ناجائز طرف داری یا بلاوجہ حق تلفی ہو جاتی ہے جو خاندان کے مختلف افراد کے درمیان رسہ کشی کا باعث بن جاتی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں واضح طور پر رہنمائی فرمائی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''البتہ جس شخص کو وصیت کرنے والے کی طرف سے کسی کے متعلق جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ ورثاء میں سمجھوتہ کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔'' (البقرۃ: 2/182) اسلام نے دانستہ یا نادانستہ طرف داری یا حق تلفی کا اس طرح سدباب کیا ہے کہ مُوَرِث، یعنی فوت ہونے والے کو ایک تہائی کی حد تک وصیت کا اختیار دے کر باقی ترکے کی تقسیم کے لیے واضح اصول مقرر کر دیے تاکہ خاندان میں عزیز و اقارب کے درمیان نفرت و عداوت پیدا نہ ہو، نیز صلہ رحمی اور ہمدردی کے جذبات بھی ماند نہ پڑیں۔اس کے علاوہ وراثت کے احکام کو اس اصول پر استوار کیا کہ فوت ہونے والے کا ترکہ ان لوگوں میں تقسیم ہو جو اپنی قرابت داری کے اعتبار سے مرحوم کی جائیداد کے زیادہ حق دار ہوں، پھر حق وراثت کو ایسا محکم اور پختہ فرض قرار دیا ہے جس میں تغیر و تبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے پیچھے ایک سے زیادہ قرابت دار چھوڑ جاتا ہے جن کے متعلق وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے حقوق دوسرے قرابت داروں کے اعتبار سے زیادہ اہم ہیں۔ عقل انسانی کے اس تذبذب کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دور فرمایا: ''تم نہیں سمجھ سکتے کہ تمہیں فائدہ پہنچانے کے لحاظ سے تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں سے کون تمہارے قریب تر ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔'' (النساء: 4/114) لیکن افسوس کہ وراثت کے متعلق کتاب و سنت میں بیان کردہ واضح شرعی احکام اور ان کی خلاف ورزی پر کھلی وعید کے باوجود ہم مسلمان اس سلسلے میں برسرعام خلاف ورزی کرتے ہیں اور واضح طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ ایک طرف مزعومہ عاق نامے کے ذریعے سے اپنی اولاد کو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف اپنے بیٹوں کی موجودگی میں اپنے پوتوں کو وراثت میں برابر کا حصے دار ٹھہراتے ہیں۔ اسی طرح ترکے کے متعلق بھی ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ عام طور پر ترکہ اسے خیال کیا جاتا ہے جو باپ دادا سے بطور وراثت ملا ہو اور جو کچھ اپنی محنت سے کمایا اسے ترکے میں شمار نہیں کیا جاتا، حالانکہ ہر منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو شرعاً ترکہ کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اس نے اپنے پیچھے چھوڑی ہو اور کسی دوسرے شخص کا اس میں کوئی حق نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے اور اس کا تعلق بھی تقسیم جائیداد سے ہے لیکن ہم اس سلسلے میں کوتاہی کا شکار ہیں، وہ یہ ہے کہ اولاد کی طرف سے بعض اوقات والد پر دباؤ ڈالا جاتا ہے یا والد ازخود کسی پیش بندی کے طور پر اپنی جائیداد زندگی ہی میں تقسیم کر دیتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ ضابطۂ وراثت کے اجراء کے لیے مُوَرِث کی موت کا یقین اور وارث کا زندہ ہونا ضروری ہے۔ زندگی میں ضابطۂ وراثت کے مطابق جائیداد کا تقسیم کرنا کئی ایک خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے، ہاں اگر اولاد کو بطور ہبہ کچھ دینا چاہے تو اس کی شرعاً گنجائش ہے، بشرطیکہ تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر ہبہ دیا جائے۔ چند ایک کو دینا اور دوسروں کو نظر انداز کرنا شرعی طور پر جائز نہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شرعی ورثاء کو محروم کرنے کے لیے ہبہ کو بطور حیلہ استعمال کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔دراصل ہمارے ہاں جہالت کا دور دورہ ہے۔ عصر حاضر میں علم فرائض کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اکثر علمائے کرام بھی اس سے بے بہرہ ہیں، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے۔ فرمان نبوی ہے: ''علم وراثت سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ کیونکہ جلد ہی میری موت واقع ہو جائے گی، علم فرائض بھی قبض کر لیا جائے گا، فتنے رونما ہوں گے حتی کہ دو آدمی اپنے کسی مقررہ حصے میں اختلاف کریں گے اور کوئی آدمی ایسا نہیں پائیں گے جو ان میں فیصلہ کر سکے۔'' (المستدرک للحاکم: 4/333) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ انہوں نے کتاب الفرائض میں وراثت کے بہت سے پیچیدہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ وراثت کے علاوہ دیگر بے شمار معاشرتی مسائل بھی ذکر کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے اس سلسلے میں تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ تنتالیس (43) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سینتیس (37) مکرر اور باقی چھ (6) خالص ہیں، اس کے علاوہ چوبیس (24) آثار بھی ذکر کیے ہیں جو صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں، پھر آپ نے ان منتخب احادیث پر تیس (30) سے زیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں وراثت کی اہمیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت، قیدی کی وراثت، جو خود کو اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف منسوب کرتا ہے، قیافہ شناس وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اسنادی مباحث ہیں جن کی ہم موقع و محل کی مناسبت سے وضاحت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کی توفیق دے اور ہمیں حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین نوٹ: ہم نے ''اسلامی قانون وراثت'' نامی کتاب پر ایک مدلل مقدمہ لکھا ہے، قارئین سے گزارش ہے کہ وہ صحیح بخاری کو پڑھتے ہوئے اسے ضرور زیر مطالعہ لائیں۔ یہ کتاب دارالسلام نے ہی شائع کی ہے۔
تمہید باب
واضح رہے کہ علم وراثت کے لیے یہ دونوں آیات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس لیے آغاز میں انہیں ذکر کیا ہے۔
اور تمہاری بیویاں جو مال اسباب چھوڑ جائیں اگر اس کی اولاد نہ ہو( نہ بیٹا نہ بیٹی) تب تو تم کو آدھا ترکہ ملے گا۔ اگر اولاد ہو تو چوتھائی یہ بھی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد ملے گا اسی طرح تم جو مال و اسباب چھوڑ جاؤ اور تمہاری اولاد بیٹا بیٹی کوئی نہ ہو تو تمہاری بیویوں کو اس میں سے چوتھائی ملے گا اگر اولاد ہو تو آٹھواں حصہ یہ بھی وصیت اور قرضہ ادا کرنے کے بعد اور اگر کوئی مرد یا عورت مرجائے اور وہ کلالہ ہو( نہ اس کا باپ ہو نہ بیٹا) بلکہ ماں جائے ایک بھائی یا بہن ہو( یعنی اخیافی) تو ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر اسی طرح کئی اخیائی بھائی بہن ہوں تو سب مل کر ایک تہائی پائیں گے۔ یہ بھی وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد بشرطیکہ میت نے وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لئے وصیت نہ کی ہو“ ۔ ( یعنی ثلث مال سے زیادہ کی) یہ سارا فرمان اللہ پاک کا اور اللہ ہر ایک کا حال خوب جانتا ہے وہ بڑے تحمل والا ہے( جلدی عذاب نہیں کرتا) “ ۔کتاب الفرائض جمع فریضۃ کحدیقۃ و حدائق والفریضۃ فعلیہ بمعنی مفروضۃ ماخوذۃ من الفرض وہو القطع یقال فرضت لفلان کذا ای قطعت لہ شیئا من المال قالہ الخاطبی و خصت المواریث باسم الفرائض من قول تعالیٰ نصیبا مفروضا....اومعلوما او مقطوعا عن غیرہم ( خلاصہ فتح الباری ) لفظ فرائض فریضہ کی جمع ہے جیسے حدیقہ کی جمع حدائق ہے اورلفظ فریضہ بمعنی مفروضہ ہے جو فرض سے ماخوذ ہے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے اتنا مال فلاں کے لئے کاٹ کر الگ رکھ دیا۔ مواریث کو نام فرائض سے خاص کیاگیا ہے جیسا کہ آیت میں ہے۔ نصیبا مفروضہ حصہ مقرر کیا ہوا یعنی ان کے غیر سے کاٹا ہوا۔ کتاب الفرائض میں ترکہ کے مسائل بیان کئے جاتے ہیں جو ترکہ سے حق داروں کو حصے ملتے ہیں۔ فرائض کا ایک مستقل علم ہے جسکی تفصیلات بہت ہیں یہ علم ہر کسی کو نہیں آتا اس میں علم ریاضی حساب کی کافی ضرورت پڑتی ہے۔ ہماری جماعت میں حضرت مولانا عبدالرحمن بجوادی علم فرائض کے امام تھے۔ آپ نے فتاویٰ ثنائیہ حصہ دوم میں کتاب الفرائض پر ایک جامع مقدمہ تحریر فرمایا ہے۔ غفراﷲ لہ ( آمین ) باقی سب باپ کو ملے گا۔ بھائی بہنوں کو کچھ نہیں ملے گا۔ باپ کے ہوتے ہوئے بھائی بہن ترکہ سے محروم ہیں لیکن ماں کا حصہ کم کردیتے ہیں۔ یعنی ان کے وجود سے ماں کا تہائی حصہ کم ہوکر چھٹا رہ جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ پیدل چل کر میری عیادت کے لیے آئے۔ یہ دونوں حضرات جب ائے تو مجھ غشی طاری تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا اور وضو سے بچا ہوا پانی مجھ پر چھڑکا۔ مجھے جب ہوش آیا تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کا کیا کروں؟ اپنے مال کے متعلق کیا فیصلہ کروں؟ (یہ سن کر) آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ میراث کی آیت کریمہ نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میری تو صرف بہنیں ہیں تو اس وقت آیت فرائض نازل ہوئی۔ (صحیح البخاري، الفرائض، حدیث: 6743) کتاب التفسیر میں ہے کہ اس وقت ﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾(النساء:11/4) نازل ہوئی۔ (صحیح البخاري، حدیث: 4577) ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں تو کلالہ ہوں اور میری وراثت کس کو ملے گی تو آیت فرائض نازل ہوئی۔ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 194) امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾(النساء: 176/4) نازل ہوئی۔ (2) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں آیات میں کلالہ کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں مادری بہن بھائیوں کے لیے وراثت کا ذکر تھا جبکہ دوسری آیت میں حقیقی اور پدری بہن بھائیوں کو کلالہ کی وراثت ملنے کا بیان ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی شان نزول اس طرح مروی ہے کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! حضرت سعد تو آپ کے ہمراہ غزوۂ اُحد میں شہید ہو گئے اور ان کی یہ دو بیٹیاں ہیں لیکن ان کے بھائی نے ان کا سارا مال قبضے میں لے لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا، اس کے بعد آیت میراث نازل ہوئی تو آپ نے اس کے بھائی کو بلا کر کہا کہ سعد کے ترکے سے دو تہائی اس کی بیٹیوں کو اور آٹھواں حصہ اس کی بیوی کو دو، ان سے جو باقی بچے گا وہ آپ کا ہے۔‘‘ (مسند أحمد: 352/3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے کہ ابتدائی حصہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں کے متعلق نازل ہوا ہو اور جس آیت میں کلالہ کا ذکر ہے وہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔ (فتح الباري: 308/8)
ترجمۃ الباب:
: ”اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک تاکیدی حکم ہے اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا اور بڑے تحمل والا ہے۔“ کا بیان۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے، انہوں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو حضرت رسول کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ میری عیادت کے لئے تشریف لائے، دونوں حضرات پیدل چل کر آئے تھے۔ دونوں حضرات جب آئے تو مجھ پر غشی طاری تھی، آنحضرت ﷺ نے وضو کیا اور وضو کا پانی میرے اوپر چھڑکا مجھے ہوش ہوا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اپنے مال کی ( تقسیم) کس طرح کروں؟ یا اپنے مال کا کس طرح فیصلہ کروں؟ آنحضرت ﷺ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیتیں نازل ہوئیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA) : I became sick so Allah's Apostle (ﷺ) and Abu Bakr (RA) came on foot to pay me a visit. When they came, I was unconscious. Allah's Apostle (ﷺ) performed ablution and he poured over me the water (of his ablution) and I came to my senses and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What shall I do regarding my property? How shall I distribute it?" The Prophet (ﷺ) did not reply till the Divine Verses of inheritance were revealed .