Sahi-Bukhari:
Limits and Punishments set by Allah (Hudood)
(Chapter: Illegal sexual intercourse and the drinking of alcoholic drinks)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباسؓ نے کہا زنا کرتے میں ایمان کا نور اٹھالیا جاتا ہے
6772.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بھی کوئی زنا کرتا ہے تو زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ جب بھی کوئی شراب نوشی کرتا ہے تو شراب پیتے وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ جب بھی کوئی چوری کرتا ہے تو چوری کرتے وقت وہ ایمان سے نہیں ہوتا۔ اور جب بھی کوئی لوٹنے والا لوٹتا ہے کہ لوگ اپنی نظریں اٹھا اٹھا کر اسے دیکھتے ہیں تو وہ مومن نہیں رہتا۔ ابن شہاب نے سعید بن مسیّب اور ابو سلمہ سے، وہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، وہ نبی ﷺ سے لوٹ مار کے الفاظ کے بغیر اسے بیان کرتے ہیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں زنا، شراب نوشی، چوری اور ڈاکا زنی کے وقت ایمان کی نفی آئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص اس وقت کامل ایمان والا نہیں رہتا کیونکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جس نے لاإله إلااللہ کہا وہ جنت میں جائے گا اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5827) نیز حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ انھوں نے چوری اور زنانہ کر نے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ اس کے آخر میں ہے کہ جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ بن جائے گی بصورت دیگر وہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، چاہے تو اسے معاف کر دے اور چاہے تو اسے سزا دے۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث:6784) (2) اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کو کافر نہیں کہا جائے گا، البتہ شرک کرنے سے وہ کافر ہو جائے گا جبکہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے انسان دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور ایسا شخص ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ دیگر احادیث خوارج کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ بہرحال مذکورہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول نہیں بلکہ محققین نے اس کی تاویل کی ہے جس کی تفصیل ہم نے بیان کی ہے۔ (فتح الباري:74/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6532
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6772
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6772
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6772
تمہید کتاب
دنیا میں مال ودولت کی فروانی مفاسد وخرابیاں پیدا کرنے کا باعث ہے،اسی طرح بعض اوقات دنیا کے سازو سامان سے محرومی بھی امن وسکون تباہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔تقسیم ترکہ کے وقت یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں۔کچھ رشتے داروں کو مفت میں دولت مل جاتی ہے تو کچھ تعلق دار اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔پھر کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی روک تھام کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا ہی کا فی نہیں ہوتا بلکہ سخت ترین ملامت اور تکلیف دہ سزا کا مقرر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔شریعت میں ایسی سزاؤں کو حدودوتعزیرات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔غالباً امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الفرائض کے بعد کتاب الحدود کو اسی مقصد کے پیش نظر بیان کیا ہے۔حدود، حد کی جمع ہے۔لغوی اعتبار سے اس کے معنی رکاوٹ ہیں۔چوکیدار کو حداد اسی معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو اندر داخل ہونے سے منع کرتا ہے اور ان کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔شریعت کی نظر میں اس سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ کا حق ہونے کی وجہ سے مقرر ہو۔اس سے تعزیر غیر مقرر سزا ور قصاص وغیرہ خارج ہے۔ چونکہ حد کی مختلف قسمیں ہیں،جیسے، حدزنا، ، حد قذف اور حد شراب نوشی وغیرہ،اس لیے قسموں کے اعتبار سے حد کی جمع حدودآئی ہے۔بعض اوقات حدود سے گناہ بھی مراد لیے جاتے ہیں،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "یہ معاصی اور گناہ اللہ کی حدیں ہیں تم ان قریب نہ جاؤ۔"(البقرۃ 2: 87) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے حدودوتعزیرات کا فلسفہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:معلوم ہونا چاہیے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے حد جاری فرمائی ہے اوراس قسم کے گناہ وہ ہیں جن میں مختلف قسم کے مفاسد موجود ہیں۔ان گناہوں کے کرنے سے زمین میں فساد پھیل جاتا ہے اور اہل زمین کا امن وسکون تباہ ہوجاتا ہے اور ایسے گناہوں کی خواہش انسانی نفوس میں ہمیشہ جذباتی کیفیت پیدا کردیتی ہے جس کی روک تھا سے لوگ قاصر ہوجاتے ہیں اور ان سے ایسے ایسے نقصانات ہوجاتے ہیں کہ اکثر اوقات خود مظلوم شخص بھی ان کی مدافعت نہیں کرپاتا،پھر عام لوگوں میں یہ گناہ بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس قسم کے گناہوں کو روکنے کے لیے صرف آخرت سے ڈرانا کافی نہیں ہوتا بلکہ ان سے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے سخت سزائیں مقرر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جن میں ملامت کا پہلو بھی ہوتا ہے،تاکہ یہ عقوبت وسزا اور خطرۂ لعن طعن سامنے رہے اور لوگ اس قسم کے گناہ کرنے سے ڈرتے رہیں۔شریعت میں سزائیں مقرر کرنے کی یہی وجہ ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ)واضح رہے کہ انسان دو طریقوں سے جرائم سے بچ سکتا ہے،چنانچہ وہ انسان جس میں حیوانیت کا غلبہ ہے اسے سخت قسم کی عقوبت اور سنگین سزا ہی جرم کرنے سے باز رکھ سکتی ہے جیسا کہ حیوانات کو سخت جسمانی سزا ہی سرکشی سے باز رکھتی ہے،اور کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر حیوانیت کے بجائے جاہ وجلال کی محبت غالب ہوتی ہے،اس قسم کے لوگوں کو سخت قسم کی عار اور غیرت جرم کرنے سے روکتی ہے۔ ایسے شخص کے حق میں جسمانی تکلیف کے مقابلے میں عاروغیرت زیادہ کار گر ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حدود میں یہ دونوں طریقے سمو دیے گئے ہیں۔بہر حال جرائم کی روک تھام کے لیے حدود اللہ کا نفاذ انتہائی ضروری ہے۔احادیث میں انھیں قائم کرنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک حد جس کے مطابق زمین میں عمل کیا جاتا ہے وہ اہل زمین کے لیے چالیس دنوں کی بارش سے بہتر ہے۔"(سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2538) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں: " اللہ کی حدود میں سے ایک حد قائم کردینا اللہ کے شہروں میں چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے۔" (سنن ابن ماجہ، الحدود،حدیث:2537) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت زنا کاری،شراب نوشی اور چوری وغیرہ کی حدیں بیان کی ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے حد کو سترہ گناہوں پر واجب مانا ہے۔ان میں سے مرتد ہونا، ڈاکا مارنا، زنا کرنا،تہمت لگانا،شراب پینا اور چوری کرنا۔ان پر حد قائم کرنے کے متعلق علماء کا اتفاق ہے اور کچھ جرائم پر حد قائم کرنے میں اختلاف ہے،مثلاً: مانگی ہوئی چیز کا انکار کرنا،شراب کے علاوہ اور کوئی نشہ اور چیز استعمال کرنام،زنا کے علاوہ کسی چیز کی تہمت لگانا یا لواطت اگرچہ اپنی بیوی سے ہو،حیوانات سے جنسی خواہش پوری کرنا،عورتوں کا باہمی بدکاری کرنا، عورت کا کسی جانور سے خواہش پوری کرنا، جادو کرنا، سستی کہ وجہ سے نماز ترک کرنا اور شرعی عذر کے بغیر انسان کا روزہ توڑ دینا وغیرہ۔(فتح الباری:12/71)جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوجائے گی بصورت دیگر وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے،وہ چاہے تو اسے معاف کردے اور چاہے تو اسے سزا دے کر اس کی تلافی کردے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے"الحدود كفارة“ کے عنوان میں اس امر کو بیان کیا ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: "حدود شرعیہ سے گناہوں کے کفار کی دوجہتیں ہیں کیونکہ اس کا مرتکب یا تو ایسا شخص ہے جو امر الٰہی کا پابند اور حکم الٰہی کی اطاعت کرنے والا ہوگا اور خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والا ہوگا تو ایسے شخص کے حق میں اللہ تعالیٰ کی حد کفارہ بن جاتی ہے اور دوسری جہت یہ ہے کہ اسے تکلیف وایذا پہنچائی جائے،اس طرح اسے گناہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔یہی باز رہنا اس کا کفارہ ہے۔"(حجۃ اللہ البالغہ، بحث حدود)امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الحدود میں مختلف مسائل واحکام کے استنباط کے لیے ایک سوتین (103)احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں اناسی(79) موصول اور چوبیس(24) کے قریب معلق اور متابعات ہیں،نیز باسٹھ(62) مکرر اور سترہ (17) خالص ہیں۔آپ نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین سے بیس(20)آثار بھی پیش کیے ہیں۔ان تمام مرفوع روایات اور آثار پر چھیالیس (46)چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں۔چیدہ چیدہ حسب ذیل ہیں:شراب نوشی کی سنگینی، شرابی کو مارنا، شراب کا رسیا دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا،غیر معین چور کو لعنت کرنا،حدود کفارہ ہیں،اللہ کی خاطر حدود قائم کرنا،امیرو غریب پر حد قائم کرنا،حدود کے متعلق سفارش کی حیثیت، چور کی توبہ،فحش کاری ترک کرنے کی فضیلت ، زنا کاروں کا گناہ، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا، دیوانے مردوعورت کورجم نہ کیا جائے، غیر شادی شدہ زنا کار کو کوڑے مارے جائیں،جرائم پیشہ لوگوں اور ہیجڑوں کو جلا وطن کرنا،تعزیرو تادیب کی سزا،پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا،غلام پر تہمت لگانا،حاکم کی غیر موجودگی میں حدلگانا۔بہرحال اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے بہت سے ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق اصلاح معاشرہ سے ہے۔ہماری گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الحدود کا مطالعہ کریں اور اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی برائیوں کی روک تھام کے لیے بھر پور کوشش کریں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمیں یا رب العالمین.
تمہید باب
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں کہ وہ اپنے غلاموں میں سے ایک ایک کو بلا کرکہتے تھے: کیا میں تمھاری شادی نہ کردوں کیونکہ جو شخص زنا کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس سے نور ایمان چھین لیتا ہے۔ان سے ایک مرفوع روایت بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی شخص زنا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل سے نور ایمان نکال دیتا ہے پھر اگر واپس کرنا چاہے تو واپس کردیتا ہے۔"(المصنف لابن ابی شیبہ، حدیث:17640)
حضرت ابن عباسؓ نے کہا زنا کرتے میں ایمان کا نور اٹھالیا جاتا ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بھی کوئی زنا کرتا ہے تو زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ جب بھی کوئی شراب نوشی کرتا ہے تو شراب پیتے وقت وہ مومن نہیں رہتا۔ جب بھی کوئی چوری کرتا ہے تو چوری کرتے وقت وہ ایمان سے نہیں ہوتا۔ اور جب بھی کوئی لوٹنے والا لوٹتا ہے کہ لوگ اپنی نظریں اٹھا اٹھا کر اسے دیکھتے ہیں تو وہ مومن نہیں رہتا۔ ابن شہاب نے سعید بن مسیّب اور ابو سلمہ سے، وہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے، وہ نبی ﷺ سے لوٹ مار کے الفاظ کے بغیر اسے بیان کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں زنا، شراب نوشی، چوری اور ڈاکا زنی کے وقت ایمان کی نفی آئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ شخص اس وقت کامل ایمان والا نہیں رہتا کیونکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ جس نے لاإله إلااللہ کہا وہ جنت میں جائے گا اگرچہ وہ زنا کرے اور چوری کرے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5827) نیز حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ انھوں نے چوری اور زنانہ کر نے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ اس کے آخر میں ہے کہ جو شخص ان گناہوں کا مرتکب ہوگا اگر دنیا میں اس پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ بن جائے گی بصورت دیگر وہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، چاہے تو اسے معاف کر دے اور چاہے تو اسے سزا دے۔ (صحیح البخاري، الحدود، حدیث:6784) (2) اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کو کافر نہیں کہا جائے گا، البتہ شرک کرنے سے وہ کافر ہو جائے گا جبکہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے انسان دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور ایسا شخص ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ دیگر احادیث خوارج کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ بہرحال مذکورہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول نہیں بلکہ محققین نے اس کی تاویل کی ہے جس کی تفصیل ہم نے بیان کی ہے۔ (فتح الباري:74/12)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عباس ؓنے کہا: زنا کرتے وقت اس (زانی سے نور ایمان اٹھالیا جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب بھی زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں رہتا، جب بھی کوئی شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو وہ مؤمن نہیں رہتا، جب بھی کوئی چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو وہ مؤمن نہیں رہتا، جب بھی کوئی لوٹنے والا لوٹتا ہے کہ لوگ نظریں اٹھا اٹھا کر اسے دیکھنے لگتے ہیں تو وہ مؤمن نہیں رہتا۔ اور ابن شہاب سے روایت ہے، ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ نے بیان کیا ان سے ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اسی طرح سوا لفظ ''نهبة'' کے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "When an adulterer commits illegal sexual intercourse, then he is not a believer at the time he is doing it; and when somebody drinks an alcoholic drink, then he is not believer at the time of drinking, and when a thief steals, he is not a believer at the time when he is stealing; and when a robber robs and the people look at him, then he is not a believer at the time of doing it." Abu Hurairah (RA) in another narration, narrated the same from the Prophet (ﷺ) with the exclusion of robbery.