کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : عیدگاہ میں رجم کرنا( عیدگاہ کے پاس یا خود عیدگاہ میں)
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: The Rajm at the Musalla)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6820.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور زنا کا اقرار کیا۔ نبی ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا حتیٰ کہ اس نے اپنے خلاف چار بار گواہی دی تو نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے۔“ اس نے کہا: نہیں۔ ”آپ نے فرمایا کیا تو شادی شدہ ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نے اس کے متعلق حکم دیا تو اسے عیدہ گاہ میں سنگسار کر دیا گیا۔ جب اس پر پتھر پڑے تو بھاگ نکلا لیکن اسے پکڑ لیا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق کلمہ خیر کیا اور اس کا جنازہ بھی پڑھا۔ یونس اور ابن جریج نے امام زہری سے نماز جنازہ پڑھنے کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) سے پوچھا گیا کہ نماز جنازہ پڑھنے کے الفاظ ثابت ہیں یا نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: معمر نے انہیں بیان کیا ہے پھر ان سے پوچھا گیا: معمر کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے بھی ان الفاظ کو بیان کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔
تشریح:
(1) مدینہ طیبہ کے قرب وجوار میں بقیع الغرقد کے پاس ایک مخصوص میدانی علاقہ تھا جہاں عیدین اور جنازے پڑھے جاتے تھے۔ عیدین کے موقع پر مخصوص ایام والی عورتیں بھی ایک طرف جمع ہوتی تھیں۔ تقدس واحترام میں یہ میدان مسجد کے حکم میں نہ تھا۔ بعض اوقات زنا کاروں کو حد لگانے کے لیے اسی میدانی علاقے کا انتخاب کیا جاتا تھا کیونکہ سنگسار کرنے کی سزا مسجد میں نہیں دی جا سکتی، اس لیے کہ اس سے مسجد خون یا پیشاب کی وجہ سے گندی ہوسکتی ہے۔ (2)امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود یہی ہے کہ عید گاہ اور جنازہ گاہ کا حکم مسجد جیسا نہیں ہے کیونکہ اگر ان کا حکم مسجد جیسا ہوتا تو ان کے متعلق بھی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جاتا جن سے مسجد کو دور رکھا جاتا ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري:158/12) (3) واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے معمر بن راشد کی روایت یقین ووثوق کے ساتھ بیان کی ہے کیونکہ حضرت معمر بہت بڑے فقیہ، متقی اور قابل اعتماد ہیں۔ ایسے شخص کا اضافہ قابل قبول ہوتا ہے۔ بہرحال جسے رجم کیا جائے اس کا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیل پہلے کہیں بیان ہو چکی ہے۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کا ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور زنا کا اقرار کیا۔ نبی ﷺ نے اس سے منہ پھیر لیا حتیٰ کہ اس نے اپنے خلاف چار بار گواہی دی تو نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے۔“ اس نے کہا: نہیں۔ ”آپ نے فرمایا کیا تو شادی شدہ ہے؟“ اس نے کہا: جی ہاں۔ پھر آپ نے اس کے متعلق حکم دیا تو اسے عیدہ گاہ میں سنگسار کر دیا گیا۔ جب اس پر پتھر پڑے تو بھاگ نکلا لیکن اسے پکڑ لیا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ نبی ﷺ نے اس کے متعلق کلمہ خیر کیا اور اس کا جنازہ بھی پڑھا۔ یونس اور ابن جریج نے امام زہری سے نماز جنازہ پڑھنے کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) سے پوچھا گیا کہ نماز جنازہ پڑھنے کے الفاظ ثابت ہیں یا نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: معمر نے انہیں بیان کیا ہے پھر ان سے پوچھا گیا: معمر کے علاوہ کسی دوسرے راوی نے بھی ان الفاظ کو بیان کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) مدینہ طیبہ کے قرب وجوار میں بقیع الغرقد کے پاس ایک مخصوص میدانی علاقہ تھا جہاں عیدین اور جنازے پڑھے جاتے تھے۔ عیدین کے موقع پر مخصوص ایام والی عورتیں بھی ایک طرف جمع ہوتی تھیں۔ تقدس واحترام میں یہ میدان مسجد کے حکم میں نہ تھا۔ بعض اوقات زنا کاروں کو حد لگانے کے لیے اسی میدانی علاقے کا انتخاب کیا جاتا تھا کیونکہ سنگسار کرنے کی سزا مسجد میں نہیں دی جا سکتی، اس لیے کہ اس سے مسجد خون یا پیشاب کی وجہ سے گندی ہوسکتی ہے۔ (2)امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے مقصود یہی ہے کہ عید گاہ اور جنازہ گاہ کا حکم مسجد جیسا نہیں ہے کیونکہ اگر ان کا حکم مسجد جیسا ہوتا تو ان کے متعلق بھی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جاتا جن سے مسجد کو دور رکھا جاتا ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري:158/12) (3) واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے معمر بن راشد کی روایت یقین ووثوق کے ساتھ بیان کی ہے کیونکہ حضرت معمر بہت بڑے فقیہ، متقی اور قابل اعتماد ہیں۔ ایسے شخص کا اضافہ قابل قبول ہوتا ہے۔ بہرحال جسے رجم کیا جائے اس کا جنازہ پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیل پہلے کہیں بیان ہو چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے اور انہیں حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب (ماعز بن مالک) نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور زنا کا اقرار کیا۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیا۔ پھر جب انہوں نے چار مرتبہ اپنے لیے گواہی دی تو آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کیا تم دیوانے ہوگئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا کیا تمہارا نکاح ہو چکا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ آپ کے حکم سے انہیں عیدگاہ میں رجم کیا گیا۔ جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ پڑے لیکن انہیں پکڑ لیا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے ان کے حق میں کلمہ خیر فرمایا اور ان کا جنازہ ادا کیا اور ان کی تعریف کی جس کے وہ مستحق تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA) : A man from the tribe of Aslam came to the Prophet (ﷺ) and confessed that he had committed an illegal sexual intercourse. The Prophet (ﷺ) turned his face away from him till the man bore witness against himself four times. The Prophet (ﷺ) said to him, "Are you mad?" He said "No." He said, "Are you married?" He said, "Yes." Then the Prophet (ﷺ) ordered that he be stoned to death, and he was stoned to death at the Musalla. When the stones troubled him, he fled, but he was caught and was stoned till he died. The Prophet (ﷺ) spoke well of him and offered his funeral prayer.