کتاب: ان کفار و مرتدوں کے احکام میں جو مسلمان سے لڑتے ہیں
(
باب : تنبیہ اور تعزیر یعنی حد سے کم سزا کتنی ہونی چاہئے
)
Sahi-Bukhari:
(Chapter: What punishment may be inflicted on the person so that they may not commit the same sin again, or so that they may learn good manners)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6852.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ان لوگوں کو پیٹا جاتا تھا جو غلہ اندازے سے خریدتے اور دوسری جگہ منتقل کیے بغیر وہیں فروخت کر دیتے تھے۔ ہاں، اگر وہ غلہ اٹھا کر اپنے ٹھکانے پر لے جاتے، پھر فروخت کرتے تو کچھ سزا نہ ہوتی۔
تشریح:
(1) تجارت کا یہ اصول ہے کہ غلہ وغیرہ جب خریدا جائے تو اس پر قبضہ کیا جائے۔ قبضہ کرنے کے بعد اسے آگے فروخت کرنے کی اجازت ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مشتری خرید کردہ چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کر دیتا تھا، اس پر انھیں مار پڑتی تھی۔ یہ مار بطور تنبیہ اور تعزیر تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ تنبیہ کے طور پر بدنی سزا بھی دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ چہرے پر نہ مارا جائے اور مار سے نشان وغیرہ نہ پڑیں۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جو انسان بھی شریعت کی مخالفت کرتے ہوئے غلط کاروبار کرتا ہے اسے بدنی سزا دی جا سکتی ہے، نیز بازار میں ایک محتسب کا ہونا ضروری ہے جو ایسے لوگوں پر نظر رکھے، پھر جو لوگ منع کرنے کے باوجود اس سے باز نہ آئیں انھیں سزا دی جائے۔ (فتح الباري:222/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6607
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6852
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6852
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6852
تمہید کتاب
تمہید باب
حد تعزیر اور تہدید میں فرق یہ ہے کہ جو امر شارع ؑ کی طرف سے معین نہ ہو بلکہ حاکم کی صوابدید پر موقوف ہو اسے تعزیر کہا جاتا ہے اور یہ دس کوڑوں سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ان لوگوں کو پیٹا جاتا تھا جو غلہ اندازے سے خریدتے اور دوسری جگہ منتقل کیے بغیر وہیں فروخت کر دیتے تھے۔ ہاں، اگر وہ غلہ اٹھا کر اپنے ٹھکانے پر لے جاتے، پھر فروخت کرتے تو کچھ سزا نہ ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
(1) تجارت کا یہ اصول ہے کہ غلہ وغیرہ جب خریدا جائے تو اس پر قبضہ کیا جائے۔ قبضہ کرنے کے بعد اسے آگے فروخت کرنے کی اجازت ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مشتری خرید کردہ چیز پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کر دیتا تھا، اس پر انھیں مار پڑتی تھی۔ یہ مار بطور تنبیہ اور تعزیر تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ تنبیہ کے طور پر بدنی سزا بھی دی جا سکتی ہے، بشرطیکہ چہرے پر نہ مارا جائے اور مار سے نشان وغیرہ نہ پڑیں۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جو انسان بھی شریعت کی مخالفت کرتے ہوئے غلط کاروبار کرتا ہے اسے بدنی سزا دی جا سکتی ہے، نیز بازار میں ایک محتسب کا ہونا ضروری ہے جو ایسے لوگوں پر نظر رکھے، پھر جو لوگ منع کرنے کے باوجود اس سے باز نہ آئیں انھیں سزا دی جائے۔ (فتح الباري:222/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عیاش بن الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے حضرت سالم نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اس پر مار پڑتی کہ جب غلہ کے ڈھیریوں ہی خریدیں، بن ناپے اور تولے اس کو اسی جگہ دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالیں ہاں وہ غلہ اٹھا کر اپنے ٹھکانے لے جائیں پھر بیچیں تو کچھ سزا نہ ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : Those people who used to buy foodstuff at random (without weighing or measuring it) were beaten in the lifetime of Allah's Apostle (ﷺ) if they sold it at the very place where they had bought it, till they carried it to their dwelling places.