باب : جس کا کوئی قتل کردیاگیاہو اسے دو چیزوں میں ایک کا اختیار ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: The relative of the killed person has the right to choose one of two compensations)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6880.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ نے بنو لیث کا ایک شخص اپنے جاہلیت کے مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے لشکر کو روک دیا تھا اور وقتی طور پر اپنے رسول اور اہل ایمان کو اس پر مسلط کیا۔ آگاہ ہو! مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی صرف اس دن ایک حصے کے لیے حلال ہوا، اب اس وقت اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی ہے۔ اس کا کانٹا نہ توڑا جائے اور نہ اس کا کوئی درخت ہی کاٹا جائے، اعلان کرنے والے علاوہ کوئی دوسرا اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائے۔ جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے: چاہے تو قصاص لے لے یا دیت قبول کر لے۔ اس دوران میں ابو شاہ نامی ایک یمنی کھڑا ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے یہ خطبہ لکھ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابو شاہ کو یہ لکھ دو۔“ اس کے بعد ایک قریشی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت دیں۔ اسے ہم اپنے گھروں اور قبروں میں بچھاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اذخر کاٹ سکتے ہیں۔“ عبیداللہ نے شیبان سے ہاتھی کا واقعہ بیان کرنے میں ابو نعیم کی متابعت کی ہے۔ بعض نے ابو نعیم سے الفیتل کے بجائے القتيل کا لفظ بیان کیا ہے۔ عبیداللہ نے بیان کیا: ”یا مقتول کے ورثاء کو قصاص دیا جائے۔
تشریح:
(1) جان بوجھ کر قتل کرنے والے سے دیت لینے میں علمائے امت کا اختلاف ہے۔ علمائے کوفہ کا موقف ہے کہ قتل عمد میں دیت صرف اس وقت ہے جب قاتل دیت دینے پر راضی ہو ورنہ قصاص ہے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ مقتول کے ورثاء اگر قتل عمد میں دیت کا مطالبہ کریں تو قاتل کو دیت دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور کی تائید میں یہ عنوان اور حدیث پیش کی ہے کہ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ قصاص لیں یا دیت لیں۔ (2) بنی اسرائیل میں قصاص ہی لازم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دیت لینے کی سہولت دی ہے اور اسے اپنی طرف سے تخفیف قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف ہے۔‘‘ (البقرة: 2: 178) ایک روایت میں ہے کہ مقتول کے ورثاء کو تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے: ٭قصاص لیں۔ ٭معاف کر دیں۔ ٭دیت پر صلح کر لیں۔ اگر کوئی چوتھی صورت نکالتا ہے تو اس کے ہاتھ روکے جا سکتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4496) چوتھی چیز سے مراد قصاص یا دیت سے زیادہ کا مطالبہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6633
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6880
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6880
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6880
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
جن کاکوئی آدمی قتل کردیا جائے انھیں قصاص یا دیت میں سے جو بہتر لگے اسے اختیار کرلیں۔عنوان کے الفاظ درج ذیل حدیث میں آئے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ نے بنو لیث کا ایک شخص اپنے جاہلیت کے مقتول کے بدلے میں قتل کر دیا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے لشکر کو روک دیا تھا اور وقتی طور پر اپنے رسول اور اہل ایمان کو اس پر مسلط کیا۔ آگاہ ہو! مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے حلال نہیں کیا گیا اور نہ میرے بعد ہی کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی صرف اس دن ایک حصے کے لیے حلال ہوا، اب اس وقت اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی ہے۔ اس کا کانٹا نہ توڑا جائے اور نہ اس کا کوئی درخت ہی کاٹا جائے، اعلان کرنے والے علاوہ کوئی دوسرا اس کی گری پڑی چیز نہ اٹھائے۔ جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے: چاہے تو قصاص لے لے یا دیت قبول کر لے۔ اس دوران میں ابو شاہ نامی ایک یمنی کھڑا ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے یہ خطبہ لکھ دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابو شاہ کو یہ لکھ دو۔“ اس کے بعد ایک قریشی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اذخر گھاس کاٹنے کی اجازت دیں۔ اسے ہم اپنے گھروں اور قبروں میں بچھاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اذخر کاٹ سکتے ہیں۔“ عبیداللہ نے شیبان سے ہاتھی کا واقعہ بیان کرنے میں ابو نعیم کی متابعت کی ہے۔ بعض نے ابو نعیم سے الفیتل کے بجائے القتيل کا لفظ بیان کیا ہے۔ عبیداللہ نے بیان کیا: ”یا مقتول کے ورثاء کو قصاص دیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
(1) جان بوجھ کر قتل کرنے والے سے دیت لینے میں علمائے امت کا اختلاف ہے۔ علمائے کوفہ کا موقف ہے کہ قتل عمد میں دیت صرف اس وقت ہے جب قاتل دیت دینے پر راضی ہو ورنہ قصاص ہے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ مقتول کے ورثاء اگر قتل عمد میں دیت کا مطالبہ کریں تو قاتل کو دیت دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور کی تائید میں یہ عنوان اور حدیث پیش کی ہے کہ مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ قصاص لیں یا دیت لیں۔ (2) بنی اسرائیل میں قصاص ہی لازم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو دیت لینے کی سہولت دی ہے اور اسے اپنی طرف سے تخفیف قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف ہے۔‘‘ (البقرة: 2: 178) ایک روایت میں ہے کہ مقتول کے ورثاء کو تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے: ٭قصاص لیں۔ ٭معاف کر دیں۔ ٭دیت پر صلح کر لیں۔ اگر کوئی چوتھی صورت نکالتا ہے تو اس کے ہاتھ روکے جا سکتے ہیں۔ (سنن أبي داود، الدیات، حدیث:4496) چوتھی چیز سے مراد قصاص یا دیت سے زیادہ کا مطالبہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نحوی نے، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ قبیلہ خزاعہ کے لوگوں نے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا۔ اور عبداللہ بن رجاء نے کہا، ان سے حرب بن شداد نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ فتح مکہ کے موقع پر قبیلہ خزاعہ نے بنی لیث کے ایک شخص (ابن اثوع) کو اپنے جاہلیت کے مقتول کے بدلہ میں قتل کر دیا تھا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ سے ہاتھیوں کے (شاہ یمن ابرہہ کے) لشکر کو روک دیا تھا لیکن اس نے اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر غلبہ دیا۔ ہاں یہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی دن کو صرف ایک ساعت کے لیے۔ اب اس وقت سے اس کی حرمت پھر قائم ہو گئی۔ (سن لو) اس کا کانٹا نہ اکھاڑا جائے، اس کا درخت نہ تراشا جائے اور سوا اس کے جو اعلان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے کوئی بھی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے اور دیکھو جس کا کوئی عزیز قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں اختیار ہے یا اسے اس کا خون بہا دیا جائے یا قصاص دیا جائے۔ یہ وعظ سن کر اس پر ایک یمنی صاحب ابوشاہ نامی کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! اس وعظ کو میرے لیے لکھوا دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ وعظ ابوشاہ کے لیے لکھ دو۔ اس کے بعد قریش کے ایک صاحب عباس ؓ کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ اذخر گھاس کی اجازت فرما دیجئے کیوں کہ ہم اسے اپنے گھروں میں اور اپنی قبروں میں بچھاتے ہیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اذخر گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی۔ اوراس روایت کی متابعت عبیداللہ نے شیبان کے واسطہ سے ہاتھيوں کے واقعہ کے ذکر کے سلسلہ میں کی۔ بعض نے ابونعیم کے حوالہ سے ''القتل'' کا لفظ روایت کا ہے اور عبیداللہ نے بیان کیا کہ یا مقتول کے گھروالوں کو قصاص دیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
حرب بن شداد کے ساتھ اس حدیث کو عبیداللہ بن موسیٰ نے بھی شیبان سے روایت کیا۔ اس میں بھی ہاتھی کا ذکر ہے۔ بعض لوگوں نے ابونعیم سے فیل کے بدلے قتل کا لفظ روایت کیا ہے اور عبیداللہ بن موسی نے اپنی روایت میں (رواہ مسلم) و امایقاد کے بدلے یوں کہا إما أن يعطی الدية و إما أن یقاد أهل القتیل۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : In the year of the Conquest of Makkah, the tribe of Khuza'a killed a man from the tribe of Bam Laith in revenge for a killed person belonging to them in the Pre-lslamic Period of Ignorance. So Allah's Apostle (ﷺ) got up saying, "Allah held back the (army having) elephants from Makkah, but He let His Apostle (ﷺ) and the believers overpower the infidels (of Makkah). Beware! (Makkah is a sanctuary)! Verily! Fighting in Makkah was not permitted for anybody before me, nor will it be permitted for anybody after me; It was permitted for me only for a while (an hour or so) of that day. No doubt! It is at this moment a sanctuary; its thorny shrubs should not be uprooted; its trees should not be cut down; and its Luqata (fallen things) should not be picked up except by the one who would look for its owner. And if somebody is killed, his closest relative has the right to choose one of two things, i.e., either the Blood money or retaliation by having the killer killed." Then a man from Yemen, called Abu Shah, stood up and said, "Write that) for me, O Allah's Apostle! (ﷺ) " Allah's Apostle (ﷺ) said (to his companions), "Write that for Abu Shah." Then another man from Quraish got up, saying, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Except Al-Idhkhir (a special kind of grass) as we use it in our houses and for graves." Allah's Apostle (ﷺ) said, "Except Al-idhkkir."