باب : اگر مسلمان نے غصے میں یہودی کو طمانچہ ( تھپڑ) لگایا( تو قصاص نہ لیا جائے گا)
)
Sahi-Bukhari:
Blood Money (Ad-Diyat)
(Chapter: If a Muslim, being furious slaps a Jew)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو حضرت ابوہریرہ ؓ نے آنحضرتﷺ سے روایت کیاتشریح : اس باب کے لانے سے امام بخاری کی غرض اگلے باب کے مطلب کو تقویت دینا ہے کہ جب طمانچہ میں مسلمان اور کافرمیں قصاص نہ لیا گیا تو قتل میں بھی قصاص نہ لیا جائے گا مگر یہ حجت انہی لوگوں کے مقابلے میں پوری ہوگی جو طمانچہ میں قصاص تجویز کرتے ہیں۔
6917.
حضرت ابو سعید خدری ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جبکہ اسے کسی نے طمانچہ لگایا تھا۔ اس نے کہا: یا محمد! تمہارے اصحاب میں سے ایک انصاری نے مجھ کو طمانچہ مارا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے بلاو“ لوگوں نے اس کو بلایا تو آپ نے فرمایا: ”تو نے اس کو چہرے پر طمانچہ مارا ہے؟“ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں یہودیوں کے پاس سے گزرا تو میں نے سنا کہ یہ (یہودی) کہہ رہا تھا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے! میں نے کہا: وہ حضرت محمد ﷺ سے بھی افضل ہیں؟ مجھے اس وقت غصہ آیا تو میں نے اس کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے دوسرے انبیاء ؑ پر برتری نہ دیا کرو کیونکہ لوگ قیامت کے دن بے ہوش ہو جائیں گے، پھر مجھے سب سے پہلے ہوش آئے گا تو اچانک موسیٰ ؑ عرش کا پایہ پکڑے ہوں گے، نہ معلوم وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا کوہ طور پر جو بے ہوش ہو چکے تھے اس کے بدلے وہ آخرت میں بے ہوش ہی نہ ہوئے ہوں۔“
تشریح:
(1) پہلی حدیث مختصر ہے کیونکہ اس میں طمانچہ رسید کرنے کا ذکر نہیں، البتہ دوسری حدیث میں تفصیل سے یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء علیہ السلام کے درمیان ایک کو دوسرے پر اس طرح فضیلت دینے سے منع فرمایا ہے۔ جس سے کسی پیغمبر کی توہین یا حقارت کا پہلو نمایاں ہوتا ہو۔ ویسے برتری کا انداز تو قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ رسول، ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔‘‘ (البقرة: 2: 253) اللہ تعالیٰ نے از خود بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے، تاہم ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے درجات متعین کرنا تمھارا کام نہیں، ان کے باہمی تقابل سے کسی نبی کی تحقیر کا امکان ہے۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر آدمی کوئی ایسی بات کہے جس کا اسے علم نہیں تو اہل علم مسلمان کے لیے جائز ہے کہ اس اقدام پر اس کی گوشمالی کریں۔ واللہ أعلم. (فتح الباري:329/12) بہرحال ایک مسلمان کو کسی کافر یا ذمی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6669
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6917
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6917
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6917
تمہید کتاب
لفظ ديات، دية كی جمع ہے۔اس سے مراد" خون بہا"ہے۔ لغوی اعتبار سے یہ مصدر ہے جس کے معنی خون بہا دینا آتے ہیں۔ شرعی اعتبار سے ایسا مال جو کسی جرم کی وجہ سے انسان پر واجب ہو" دیت" کہلاتا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ابنی اسرائیل میں صرف قصاص فرض تھا،ان کے ہاں دیت نہ تھی۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے فرمایا: (كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ) مقتولین کے بارے میں تم پر قصاص فرض کردیا گیا ہے۔"(البقرہ2: 178)نیز فرمایا: (فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ)"جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز معاف کردی جائے۔"(البقرہ2: 178)اس مقام پر عفو سے مراد قتل عمدہ میں دیت قبول کرنا ہے۔(صحیح البخاری، التفسیر، حدیث:4498)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس کسی کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے دو اختیار ہیں:یا تو وہ دیت وصول کرے یا قاتل کو مقتول کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔"یعنی قصاص اور دیت واجب ہے لیکن ان دونوں میں اختیار ہے۔(صحیح البخاری، اللقطۃ،حدیث:2434) دیت کے وجوب میں بنیادی شرط یہ ہے کہ قتل ناحق ہو،یعنی مقتول کو کسی شرعی وجہ سے قتل نہ کیا گیا ہو بلکہ بلا وجہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو۔حربی کافر،حد یا قصاص کی بنا پر قتل کرنے سے دیت ساقط ہوجاتی ہے۔وجوب دیت کے چند اسباب ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس سے مراد کسی کو جان سے مارنا ہے۔اس کی تین قسمیں ہیں:٭قتل عمد: غیر مستحقِ قتل کو مار دینے کی نیت سے ایسے آلے کے ذریعے سے مارنا جس سے عام طور پر آدمی مرجاتا ہو،مثلاً: بندوق، تلوار یا تیر وغیرہ سے قتل کرنا۔٭قتل شبہ عمد:کسی آدمی کو ایسی چیز سے مارنا جس سے عموماً انسان مرتا نہیں،مثلاً:چھڑی یا کنکری سے کسی کو ماردیا جائے۔اس میں قصاص نہیں بلکہ دیت ہے۔٭قتل خطا:کسی کو غلطی سے مارنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں،مثلاً:٭گولی تو شکار کی طرف چلائے لیکن کسی انسان کو لگ جائے اور وہ اس سے مرجائے۔٭کسی نے اپنی ضرورت کے لیے کنواں کھودا لیکن کوئی اس میں گر کر مرجائے۔٭کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مارے جیسا کہ غزوۂ احد میں حضرت یمان رضی اللہ عنہ قتل ہوئے تھے۔٭ٹریفک کے حادثے میں کسی گاڑی کے نیچے آکر یا اس کی ضرب سے مرجائے۔قتل خطا میں قرآن کریم کی تصریح کے مطابق دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔کسی کو جان سے مار دینا،اس میں دیت کی مقدار سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے جو قاتل کے وارث مقتول کے ورثاء کو ادا کریں گے،چنانچہ حدیث میں ہے: "کسی بھی جان کے قتل میں سواونٹ دیت ہے۔"(سنن الدارمی:2/188) ایک روایت میں ہے کہ جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار دیت ہے۔حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے دیت یوں مقرر کی تھی:جن کے پاس سونا ہے ان پر ایک ہزار دینار، جن کے پاس چاندی ہے ان پر بارہ ہزار درہم اور جن کے پاس حُلّے( ریشمی لباس) ہیں ان پر دوسوحلوں کی ادائیگی ہے۔(سنن ابی داود، الدیات، حدیث:4542)بہرحال دیت میں اصل اونٹ ہیں،ان کے علاوہ جو کچھ بھی دیا جائے وہ اونٹوں کی قیمت کے مطابق دیا جائے۔دیت کا دوسرا سبب قتل کے علاوہ کسی پر زیادتی کرنا ہے،اس کی تین قسمیں ہیں:٭اعضاء کو ضائع کرنا،یعنی کسی کو ہاتھ پاؤں یا کسی اور عضو سے محروم کردیا۔٭اعضاء کی کارکردگی سے محروم کرنا،یعنی کسی قوت گویائی، قوت سماعت یا قوت سوچ وبچار سے محروم کرنا۔٭کسی کو زخمی کرنا، یعنی سر،چہرے یا جسم کے کسی دوسرے حصے کو زخمی کرنا۔ان کے متعلق دیت کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔بہرحال امام بخاری رحمہ الہ نے اس عنوان کے تحت قتل،قصاص اور دیت کے چیدہ چیدہ مسائل بیان کیے ہیں جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔اس عنوان کے تحت چَوَن(54)کے قریب مرفوع احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں سات(7)معلق اور باقی موصول ہیں۔ان میں چالیس (40)مکرر اور(14)چودہ خالص ہیں۔چند احادیث کے علاوہ باقی احادیث امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے اٹھائیس(28)آثار بھی مروی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث وآثار پر بتیس(32)چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کرکے متعدد مسائل واحکام اخذ کیے ہیں۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دیگر مسائل کے علاوہ قتل ناحق کی سنگینی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس قسم کے قتل میں ابدی طور پر جہنم مین رہنے کی وعید ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری بیان کردہ معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت اجتہاد کا ادراک ہو۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن محدثین کرام رحمہ اللہ کے پاکیزہ گروہ میں سے اٹھائے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ عنوان سابق کے مقصد کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں کہ جب ایک مسلمان سے یہودی کو طمانچہ اور تھپڑ مارنے کی بنا پر قصاص نہیں لیا گیا تو اسے قتل کرنے میں بھی قصاص نہیں لیا جائے گا،نیز ان اہلِ کوفہ کارد ہے جو طمانچے اور تھپڑ میں قصاص تجویز کرتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو دوسرے مقام پر متصل سند سے بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری، احادیث الانبیاء، حدیث:3408)
اس کو حضرت ابوہریرہ ؓ نے آنحضرتﷺ سے روایت کیاتشریح : اس باب کے لانے سے امام بخاری کی غرض اگلے باب کے مطلب کو تقویت دینا ہے کہ جب طمانچہ میں مسلمان اور کافرمیں قصاص نہ لیا گیا تو قتل میں بھی قصاص نہ لیا جائے گا مگر یہ حجت انہی لوگوں کے مقابلے میں پوری ہوگی جو طمانچہ میں قصاص تجویز کرتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک یہودی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جبکہ اسے کسی نے طمانچہ لگایا تھا۔ اس نے کہا: یا محمد! تمہارے اصحاب میں سے ایک انصاری نے مجھ کو طمانچہ مارا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے بلاو“ لوگوں نے اس کو بلایا تو آپ نے فرمایا: ”تو نے اس کو چہرے پر طمانچہ مارا ہے؟“ اس نے کہا: اللہ کے رسول! میں یہودیوں کے پاس سے گزرا تو میں نے سنا کہ یہ (یہودی) کہہ رہا تھا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے! میں نے کہا: وہ حضرت محمد ﷺ سے بھی افضل ہیں؟ مجھے اس وقت غصہ آیا تو میں نے اس کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے دوسرے انبیاء ؑ پر برتری نہ دیا کرو کیونکہ لوگ قیامت کے دن بے ہوش ہو جائیں گے، پھر مجھے سب سے پہلے ہوش آئے گا تو اچانک موسیٰ ؑ عرش کا پایہ پکڑے ہوں گے، نہ معلوم وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا کوہ طور پر جو بے ہوش ہو چکے تھے اس کے بدلے وہ آخرت میں بے ہوش ہی نہ ہوئے ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) پہلی حدیث مختصر ہے کیونکہ اس میں طمانچہ رسید کرنے کا ذکر نہیں، البتہ دوسری حدیث میں تفصیل سے یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء علیہ السلام کے درمیان ایک کو دوسرے پر اس طرح فضیلت دینے سے منع فرمایا ہے۔ جس سے کسی پیغمبر کی توہین یا حقارت کا پہلو نمایاں ہوتا ہو۔ ویسے برتری کا انداز تو قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یہ رسول، ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔‘‘ (البقرة: 2: 253) اللہ تعالیٰ نے از خود بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے، تاہم ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے درجات متعین کرنا تمھارا کام نہیں، ان کے باہمی تقابل سے کسی نبی کی تحقیر کا امکان ہے۔ (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر آدمی کوئی ایسی بات کہے جس کا اسے علم نہیں تو اہل علم مسلمان کے لیے جائز ہے کہ اس اقدام پر اس کی گوشمالی کریں۔ واللہ أعلم. (فتح الباري:329/12) بہرحال ایک مسلمان کو کسی کافر یا ذمی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
اس سلسلے میں حضرت ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺسے ایک روایت بیان کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، انہوں نے عمرو بن یحییٰ مازنی سے، انہوں نے ابوسعید خدری ؓ سے، انہوں نے کہا یہود میں سے ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا، اس کو کسی نے طمانچہ لگایا تھا۔ کہنے لگا اے محمد! ﷺ تمہارے اصحاب میں سے ایک انصاری شخص (نام نامعلوم) نے مجھ کو طمانچہ مارا۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا اس کو بلاؤ تو انہوں نے بلایا (وہ حاضر ہوا) آپ نے پوچھا تو نے اس کے منہ پر طمانچہ کیوں مارا۔ وہ کہنے لگا یا رسول اللہ! ایسا ہوا کہ میں یہودیوں پر سے گزرا، میں نے سنا یہ یہودی یوں قسم کھا رہا تھا قسم اس پروردگار کہ جس نے موسیٰ ؑ کو سارے آدمیوں میں سے چن لیا۔ میں نے کہا کیا محمد ﷺ سے بھی وہ افضل ہیں اور اس وقت مجھے غصہ آگیا۔ میں نے ایک طمانچہ لگا دیا (غصے میں یہ خطا مجھ سے ہوگئی) آپ نے فرمایا (دیکھو خیال رکھو) اور پیغمبروں پر مجھ کو فضیلت نہ دو قیامت کے دن ایسا ہوگا سب لوگ (ہیبت خداوندی سے) بیہوش ہو جائیں گے پھر میں سب سے پہلے ہوش میں آؤں گا۔ کیا دیکھوں گا موسیٰ ؑ (مجھ سے بھی پہلے) عرش کا ایک کونہ تھامے کھڑے ہیں۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے یا کوہ طور پر جو (دنیا میں) بیہوش ہو چکے تھے اس کے بدل وہ آخرت میں بیہوش ہی نہ ہوں گے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو کثرت سے احادیث یاد تھیں۔ ان کی مرویات کی تعداد 1170 ہے۔ آپ کی وفات جمعہ کے دن سنہ 74ھ میں ہوئی۔ جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): A Jew whose face had been slapped (by someone), came to the Prophet (ﷺ) and said, " O Muhammad (ﷺ) ! A man from your Ansari companions slapped me. " The Prophet (ﷺ) said, "Call him". They called him and the Prophet (ﷺ) asked him, "Why did you slap his face?" He said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! While I was passing by the Jews, I heard him saying, 'By Him Who chose Moses (ؑ) above all the human beings.' I said (protestingly), 'Even above Muhammad?' So I became furious and slapped him." The Prophet (ﷺ) said, "Do not give me preference to other prophets, for the people will become unconscious on the Day of Resurrection and I will be the first to gain conscious, and behold, I will Find Moses (ؑ) holding one of the pillars of the Throne (of Allah). Then I will not know whether he has become conscious before me or he has been exempted because of his unconsciousness at the mountain (during his worldly life) which he received."