باب: دل ملانے کے لیے کسی مصلحت سے کہ لوگوں کو نفرت نہ پیدا ہو خارجیوں کو نہ قتل کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Apostates
(Chapter: Whoever gave up fighting against Al-Khawarij in order to create intimacy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6933.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے رویت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک دفعہ مال تقسیم کر رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی خویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ انصاف کریں۔ آپ نے فرمایا: ”تیری ہلاکت ہو! اگر میں نے انصاف نہ کیا تو اور کون کرے گا؟“ حضرت عمر ؓ نے کہا: آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں، اسے چھوڑ دو۔ اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ تم ان کی نماز، روزے کے مقابلے میں اپنی نماز اور روزے کو حقیر خیال کرو گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائيں گے جيسے تیر شكار کو دیکھا جائے تو اس پر کوئی نشان نہیں ہوتا۔ اس کے پھل کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اس کے پیکان کو دیکھا جائے تو وہاں کا دھبا نہیں ہوتا۔ اس کی لکڑی کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کوئی نشان نہیں ہوتا، حالانکہ وہ شکار کی غلاظت اور خون سے گزر کر گیا ہے۔ ان کی نشانی ایک آدمی ہوگا جس کا ایک ہاتھ یا چھاتی عورت کی چھاتی کی طرح یا گوشت کے ٹکڑے کی طرح حرکت کرتا ہوگا۔ یہ لوگ مسلمانوں میں پھوٹ کے وقت پیدا ہوں گے۔“ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی ؓ نے (علاقہ نہروان میں) ان سے جنگ کی تھی اور میں اس جنگ میں آپ کو ہمراہ تھا جبکہ ان لوگوں کے ایک آدمی کو لایا گیا تو اس میں وہ تمام چیزیں تھیں جو نبی ﷺ نے بیان فرمائی تھیں۔ (راوی نے بیان کیا کہ جب نبی ﷺ پر اس نے اعتراض کیا تو) اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی: ”ان میں سے وہ شخص بھی ہے جو آپ پر تقسیم صدقات کے متعلق حرف گیری کرتا ہے۔“
تشریح:
(1) اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم پر اعتراض کرنے والے کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت دیں جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔‘‘ حضرت خالد نے عرض کی: بہت سے نمازیوں کی زبان اور دل میں یکسانیت نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے لوگوں کے دل اور پیٹ پھاڑنے کی اجازت نہیں کہ میں ان میں جھانک کر دیکھوں۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4351) شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی ہو، چنانچہ صحیح مسلم میں صراحت ہے کہ پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، جب وہ واپس گئے تو پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کو اجازت نہ دی۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2453(1064)، وفتح الباري:366/12) چونکہ اس وقت فتنے نے تحریک کی شکل اختیار نہیں کی تھی، پھر مصلحت کا تقاضا تھا کہ ایسے لوگوں کو قتل نہ کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ لوگ کہیں کہ انھوں نے اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیا ہے، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کے طور پر فرمایا: اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اس فتنے کو ایک تحریک کی شکل میں زندہ کریں گے اور لوگوں میں پھوٹ ڈالیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اگر مجھے اس وقت ان سے پالا پڑا تو ان کو قوم عاد اور قوم ثمود کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹا دوں گا۔ بہرحال امام وقت کا فرض ہے کہ حالات کے مطابق ایسے لوگوں کے متعلق مناسب کارروائی کرے جو اسلام اور اہل اسلام کے لیے خطرے کی علامت ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6684
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6933
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6933
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6933
تمہید کتاب
ضابطۂ اسلام میں جن لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کا حکم ہے ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی وہ قسم جنھیں حدودوقصاص میں مارا جاتا ہے۔اس کے بیان سے فراغت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ دوسری قسموں کو بیان کرتے ہیں۔ان میں مرتدین، باغی اور دشمنان اسلام سرفہرست ہیں۔ مرتد وہ ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد صحیح راہ سے پھر جائے اور حق معلوم ہونے کے بعد اسے قبول کرنے سے انکار کردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان (لانے) کے بعد کافر ہوگئے۔"(ال عمران3: 86) نیز فرمایا: "بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے ایمان (لانے) کے بعد کفر کیا پھر وہ کفر میں بڑھتے گئے،ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔"(ال عمران3: 90) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا،چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کردو۔"(صحیح البخاری، الجھادوالسیر، حدیث:3017) شرعی ہدایت کے مطابق ایسے لوگوں پر اتمام حجت کرتے ہوئے پہلے ان کی غلطی کو واضح کیا جائے اور انھیں تو بہ پر آمادہ کیا جائے، اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان سے قتال کیا جائے۔ان کے علاوہ دُشمنانِ اسلام اور باغی قسم کے لوگ ہیں جو اسلام میں رہتے ہوئے تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں اور لوگوں میں خوف وہراس پھیلاتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کا بھی بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔ قرآن میں ہے: "جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں،ان کی سزا یہی ہے کہ وہ بری طرح قتل کردیے جائیں یا بری طرح سولی پر چڑھا دیے جائیں یا مخالف سمت سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔یہ تو ان کے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"(المائدہ5: 33) اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے عوام الناس کو قتل وغارت اور ڈاکا زنی کی بنا پر گھبراہٹ میں ڈال رکھا ہو۔ایسے لوگوں کو بھی توبہ کی تلقین کی جائے۔اگر باز آجائیں تو ٹھیک بصورت دیگر ان کے خلاف مسلح کارروائی کی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں اکیس(21) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن مین ایک(1) معلق اور بیس(20) موصول ہیں۔ان میں سترہ(17) احادیث مکرر اور چار(4) خالص ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عِظَام رحمہ اللہ سے مروی تقریباً سات(7)آثار بھی پیش کیے ہیں۔پھر ان احادیث وآثار پر مختلف احکام ومسائل پر مشتمل نو(9)عنوان قائم کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اس شخص کا گناہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے،نیز دنیا وآخرت میں اس کی سزا کا بیان۔٭مرتد مرد اور مرتد عورت کا حکم اور ان سے توبہ کرانے کا بیان۔٭ جو فرائض قبول کرنے سے انکار کردیں اور ارتداد کی طرف منسوب ہوں،انھیں قتل کرنے کا بیان۔٭ اگر ذمی اشاروں، کنائیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے۔٭خوارج وملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان سے برسر پیکار ہونا۔٭کسی مصلحت، مثلاً: تالیف قلب کے پیش نظر خوارج سے جنگ نہ کرنا۔٭تاویل کرنے والوں کے متعلق شرعی ہدایات۔ان کے علاوہ بے شمار احکام ومسائل بیان کیے جائیں گے جنھیں ہم احادیث کے فوائد میں ذکرکریں گے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان احکام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین.
تمہید باب
خارجی کے مراد معنی ہیں: باغی۔انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔یہ ایک مشہور فرقہ ہے جس کی ابتدا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری زمانۂ خلافت سے ہوئی۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند بزار کے حوالے سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ گروہ میری امت کے برے لوگوں پر مشتمل ہوگا جنھیں میری امت کے اچھے لوگ قتل کریں گے۔(فتح الباری:12/361) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض تالیف قلبی کے لیے ان کے سرغنے کو قتل نہ کیا تاکہ لوگوں میں نفرت پیدا نہ ہو لیکن جب اسلام کو غلبہ ملہ تو اب تالیف کی ضرورت نہیں،ہاں اگر امام وقت ضرورت محسوس کرے تو کسی مصلحت کی وجہ سے ان سے قتال ترک کرسکتا ہے۔بہرحال اس قماش کے لوگوں سے ہر قسم کا قتال ضروری ہے،خواہ وہ فکری ہو یا عملی۔واللہ اعلم
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے رویت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک دفعہ مال تقسیم کر رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی خویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! آپ انصاف کریں۔ آپ نے فرمایا: ”تیری ہلاکت ہو! اگر میں نے انصاف نہ کیا تو اور کون کرے گا؟“ حضرت عمر ؓ نے کہا: آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں، اسے چھوڑ دو۔ اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ تم ان کی نماز، روزے کے مقابلے میں اپنی نماز اور روزے کو حقیر خیال کرو گے لیکن وہ دین سے ایسے نکل جائيں گے جيسے تیر شكار کو دیکھا جائے تو اس پر کوئی نشان نہیں ہوتا۔ اس کے پھل کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اس کے پیکان کو دیکھا جائے تو وہاں کا دھبا نہیں ہوتا۔ اس کی لکڑی کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کوئی نشان نہیں ہوتا، حالانکہ وہ شکار کی غلاظت اور خون سے گزر کر گیا ہے۔ ان کی نشانی ایک آدمی ہوگا جس کا ایک ہاتھ یا چھاتی عورت کی چھاتی کی طرح یا گوشت کے ٹکڑے کی طرح حرکت کرتا ہوگا۔ یہ لوگ مسلمانوں میں پھوٹ کے وقت پیدا ہوں گے۔“ حضرت ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث سنی ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی ؓ نے (علاقہ نہروان میں) ان سے جنگ کی تھی اور میں اس جنگ میں آپ کو ہمراہ تھا جبکہ ان لوگوں کے ایک آدمی کو لایا گیا تو اس میں وہ تمام چیزیں تھیں جو نبی ﷺ نے بیان فرمائی تھیں۔ (راوی نے بیان کیا کہ جب نبی ﷺ پر اس نے اعتراض کیا تو) اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی: ”ان میں سے وہ شخص بھی ہے جو آپ پر تقسیم صدقات کے متعلق حرف گیری کرتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم پر اعتراض کرنے والے کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے اس کو قتل کرنے کی اجازت دیں جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔‘‘ حضرت خالد نے عرض کی: بہت سے نمازیوں کی زبان اور دل میں یکسانیت نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے لوگوں کے دل اور پیٹ پھاڑنے کی اجازت نہیں کہ میں ان میں جھانک کر دیکھوں۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4351) شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں نے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی ہو، چنانچہ صحیح مسلم میں صراحت ہے کہ پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، جب وہ واپس گئے تو پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کو اجازت نہ دی۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2453(1064)، وفتح الباري:366/12) چونکہ اس وقت فتنے نے تحریک کی شکل اختیار نہیں کی تھی، پھر مصلحت کا تقاضا تھا کہ ایسے لوگوں کو قتل نہ کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ لوگ کہیں کہ انھوں نے اپنے ہی لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیا ہے، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی کے طور پر فرمایا: اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اس فتنے کو ایک تحریک کی شکل میں زندہ کریں گے اور لوگوں میں پھوٹ ڈالیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: اگر مجھے اس وقت ان سے پالا پڑا تو ان کو قوم عاد اور قوم ثمود کی طرح صفحۂ ہستی سے مٹا دوں گا۔ بہرحال امام وقت کا فرض ہے کہ حالات کے مطابق ایسے لوگوں کے متعلق مناسب کارروائی کرے جو اسلام اور اہل اسلام کے لیے خطرے کی علامت ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے اور ان سے ابوسعید ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہا یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا افسوس اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا۔ اس پر حضرت عمر بن الخطاب ؓ نے کہا کہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں اس کے کچھ ایسے ساتھی ہوں گے کہ ان کی نماز اور روزے کے سامنے تم اپنی نماز اور روزے کو حقیر سمجھو گے لیکن وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جس طرح تیر جانور میں سے باہر نکل جاتا ہے۔ تیر کے پر کو دیکھا جائے لیکن اس پر کوئی نشان نہیں پھر اس پیکان کو دیکھا جائے اور وہاں بھی کوئی نشان نہیں پھر اس کے باڑ کو دیکھا جائے اور یہاں بھی کوئی نشان نہیں پھر اس کی لڑکی کو دیکھا جائے اور وہاں بھی کوئی نشان نہیں کیوں کہ وہ (جانور کے جسم سے تیر چلایا گیا تھا) لید گوبر اور خون سب سے آگے (بے داغ) نکل گیا (اسی طرح وہ لوگ اسلام سے صاف نکل جائیں گے) ان کی نشانی ایک مرد ہوگا جس کا ایک ہاتھ عورت کی چھاتی کی طرح یا یوں فرمایا کہ گوشت کے تھل تھل کرتے لوتھڑے کی طرح ہوگا۔ یہ لوگ مسلمانوں میں پھوٹ کے زمانہ میں پیدا ہوں گے۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث نبی کریم ﷺ سے سنی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی ؓ نے نہروان میں ان سے جنگ کی تھی اور میں اس جنگ میں ان کے ساتھ تھا اور ان کے پاس ان لوگوں کے ایک شخص کو قیدی بنا کر لایا گیا تو اس میں وہی تمام چیزیں تھیں جو نبی کریم ﷺ نے بیان فرمائی تھیں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ ”ان میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کے صدقات کی تقسیم میں عیب پکڑتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id (RA) : While the Prophet (ﷺ) was distributing (something, 'Abdullah bin Dhil Khawaisira At-Tamimi came and said, "Be just, O Allah's Apostle! (ﷺ) " The Prophet (ﷺ) said, "Woe to you ! Who would be just if I were not?" 'Umar bin Al-Khattab (RA) said, "Allow me to cut off his neck ! " The Prophet (ﷺ) said, " Leave him, for he has companions, and if you compare your prayers with their prayers and your fasting with theirs, you will look down upon your prayers and fasting, in comparison to theirs. Yet they will go out of the religion as an arrow darts through the game's body in which case, if the Qudhadh of the arrow is examined, nothing will be found on it, and when its Nasl is examined, nothing will be found on it; and then its Nadiyi is examined, nothing will be found on it. The arrow has been too fast to be smeared by dung and blood. The sign by which these people will be recognized will be a man whose one hand (or breast) will be like the breast of a woman (or like a moving piece of flesh). These people will appear when there will be differences among the people (Muslims)." Abu Sa'id added: I testify that I heard this from the Prophet (ﷺ) and also testify that 'Ali killed those people while I was with him. The man with the description given by the Prophet (ﷺ) was brought to 'Ali. The following Verses were revealed in connection with that very person (i.e., 'Abdullah bin Dhil-Khawaisira At-Tarnimi): 'And among them are men who accuse you ( O Muhammad (ﷺ) ) in the matter of (the distribution of) the alms.' (9.58)