باب : اگر کسی کو مجبور کیاگیا اور آخر اس نے غلام ہبہ کیا یا بیچا تو نہ ہبہ صحیح ہوگا نہ بیع صحیح ہوگی
)
Sahi-Bukhari:
(Statements made under) Coercion
(Chapter: If someone gives a slave as a present or sold him under coercion, his deed is invalid)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور بعض لوگوں نے کہا اگر مکرہ سے کوئی چیز خریدے اور خریدنے والا اس میں کوئی نذر کردے تو یہ مدبر کرنا درست ہوگا۔ مدبر کے معنی کچھ رقم پر غلام سے معاملہ طے کرکے اسے اپنے پیچھے آزاد کردینا ہیں۔
6947.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے اپنے ایک غلام کو مدبر کردیا جبکہ اس کے پاس غلام اور کوئی مال نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ”مجھ سے یہ غلام کون خریدتا ہے؟“ نعیم بن نحام نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: وہ غلام حبشی قبطی تھا جو پہلے ہی سال فوت ہو گیا تھا۔
تشریح:
1۔ تدبیر یہ ہے کہ مالک اپنے غلام سے کہہ دے "میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے" اس طرح کے غلام کو مدبر کہتے ہیں۔ اس حدیث کے مطابق جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا تھا اس کے پاس غلام کے علاوہ اور کوئی چیز نہ تھی۔ چونکہ اس کے پاس ذاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی چیز نہ تھی اور غلام کو مدبرکرنا اس کی بے وقوفی تھی، نیز اس آدمی کے ورثاء بھی اس پر ناراض ہو سکتے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بے وقوفی اور ورثاء کی ناراضی کی وجہ سے غلام کے مدبر کرنے کو ناجائز ٹھہرایا اور اسے فروخت کر دیا۔ اس بنا پر اس شخص کی خریدوفروخت اور ہبہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جس کا مالک اسے فروخت کرنا یا ہبہ کرنا نہ چاہتا ہو بلکہ اس پر جبر کر کے فروخت کیا جائے یا کسی دوسرے کو ہبہ کر دیا جائے۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا تھا جبکہ اس کا کوئی اور مال نہ تھا گویا اس نے کم عقلی کی وجہ سے اپنے غلام کو مدبر کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مدبر کرنے کو مسترد کر دیا اگرچہ وہ اس کا مالک تھا، تو جس شخص نے فاسد بیع سے غلام خریدا اور اس کی ملک بھی صحیح نہ تھی جب وہ اس ذخرید کردہ غلام کو مدبر کر دے یا آزاد کر دے تو اس کی تدبیر اور آزاد کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جبکہ اس کی ملک ہی صحیح نہیں ہے۔ (فتح الباري: 400/12)
اگر کسی شخص کو اس کا غلام بیچنے یا اسے دوسرے کو ہبہ کرنے پر مجبور کیا گیا،اس طرح کہ مجبور شخص کو قتل کی دھمکی دی گئی اور اس نے اپنا غلام فروخت کردیا یا کسی کو ہبہ کردیاتو اس کا تصرف غیر نافذ ہے اور وہ غلام بدستور مجبور شخص کی ملکیت میں رہے گا۔لیکن اہل کوفہ اس سلسلے میں عجیب تناقض کا شکار ہیں کیونکہ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ حالت اکراہ میں کی گئی خریدوفروخت اور ہبہ باطل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی بیع خریدار کے لیے ملکیت کا فائدہ نہیں دے گی،دوسری طرف ان حضرات کا قول یہ ہے کہ اگرخریدار اس غلام کی نذر مان لے یا اسے مدبر بنادے تو مشتری(خریدنے والے) کا نذر کے متعلق تصرف یا اس کا مدبر کرنا صحیح ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حالت اکراہ میں کی ہوئی بیع مشتری کے لیے ملک کا فائدہ دے گی۔اگرحالت اکراہ کی بیع صحیح نہیں تو اس کے متعلق نذر بھی صحیح نہیں ہونی چاہیے اوراگر اس حالت میں بیع صحیح ہے تو ہرحال میں اس کےتصرفات بھی صحیح ہونے چائییں۔نذر اور تدبیر(مدبرکرنے) کی صحت کا قائل ہونا اور حالت اکراہ میں بیع کا صحیح نہ ماننا دونوں میں تناقض ہے۔
اور بعض لوگوں نے کہا اگر مکرہ سے کوئی چیز خریدے اور خریدنے والا اس میں کوئی نذر کردے تو یہ مدبر کرنا درست ہوگا۔ مدبر کے معنی کچھ رقم پر غلام سے معاملہ طے کرکے اسے اپنے پیچھے آزاد کردینا ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی نے اپنے ایک غلام کو مدبر کردیا جبکہ اس کے پاس غلام اور کوئی مال نہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: ”مجھ سے یہ غلام کون خریدتا ہے؟“ نعیم بن نحام نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: وہ غلام حبشی قبطی تھا جو پہلے ہی سال فوت ہو گیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ تدبیر یہ ہے کہ مالک اپنے غلام سے کہہ دے "میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے" اس طرح کے غلام کو مدبر کہتے ہیں۔ اس حدیث کے مطابق جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا تھا اس کے پاس غلام کے علاوہ اور کوئی چیز نہ تھی۔ چونکہ اس کے پاس ذاتی اخراجات پورے کرنے کے لیے کوئی چیز نہ تھی اور غلام کو مدبرکرنا اس کی بے وقوفی تھی، نیز اس آدمی کے ورثاء بھی اس پر ناراض ہو سکتے تھے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بے وقوفی اور ورثاء کی ناراضی کی وجہ سے غلام کے مدبر کرنے کو ناجائز ٹھہرایا اور اسے فروخت کر دیا۔ اس بنا پر اس شخص کی خریدوفروخت اور ہبہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جس کا مالک اسے فروخت کرنا یا ہبہ کرنا نہ چاہتا ہو بلکہ اس پر جبر کر کے فروخت کیا جائے یا کسی دوسرے کو ہبہ کر دیا جائے۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن بطال کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا تھا جبکہ اس کا کوئی اور مال نہ تھا گویا اس نے کم عقلی کی وجہ سے اپنے غلام کو مدبر کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مدبر کرنے کو مسترد کر دیا اگرچہ وہ اس کا مالک تھا، تو جس شخص نے فاسد بیع سے غلام خریدا اور اس کی ملک بھی صحیح نہ تھی جب وہ اس ذخرید کردہ غلام کو مدبر کر دے یا آزاد کر دے تو اس کی تدبیر اور آزاد کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے جبکہ اس کی ملک ہی صحیح نہیں ہے۔ (فتح الباري: 400/12)
ترجمۃ الباب:
بعض لوگوں نے کہا ہے:اگر کوئی مجبور سے کوئی چیز خریدے،پھر خریدے نے اس میں نذر مانی۔ اسی طرح خریدار نے اس کو غلام کو مدبر کردیا تو ایسا کرنا بھی اس کے خیال کے مطابق درست ہو گا۔
وضاحت: اگر کسی کو اس کے غلام کی بیع یا اسے کسی دوسرے کو ہبہ کرنے پر مجبور کیا گیا،اس طرح کہ مجبور شخص کو قتل کی دھمکی دی گئی اور اس نے اپنا غلام فروخت کردیا کسی کو ہبہ کردیا تو اس کا تصرف غیر نافذ ہے اور وہ غلام بدستور مجبور شخص کی ملکیت میں رہے گا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے حضرت جابر ؓ نے کہ ایک انصاری صحابی نے کسی غلام کو مدبر بنایا اور ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی مال نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ کو جب اس کی اطلاع ملی تو دریافت فرمایا۔ اسے مجھ سے کون خریدے گا چنانچہ نعیم بن النحام ؓ نے آٹھ سو درہم میں خرید لیا۔ بیان کیا کہ پھر میں نے حضرت جابر ؓ سے سنا انہوں نے بیان کیا کہ وہ ایک قبطی غلام تھا اور پہلے ہی سال مر گیا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب غلام کا مدبر کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو کر دیا حالانکہ اس کے مالک نے اپنی خوشی سے اس کو مدبر کیا تھا اور وجہ یہ ہوئی کہ وارثوں کے لیے اور کوئی مال اس شخص کے پاس نہ تھا تو گویا وارثوں کی ناراضی کی وجہ سے جن کی ملک اس غلام سے متعلق بھی نہیں ہوئی تھی تدبیر ناجائز ٹھہری پس وہ تدبیر یا بیع کیوں کر جائز ہو سکتی ہے جس میں خود مالک ناراض ہو اور وہ جبر سے کی جائے۔ مہلب نے کہا اس پر علماء کا اجماع ہے کہ مکرہ کا بیع اور یہ صحیح نہیں ہے لیکن حنفیہ نے یہ کہا ہے کہ اگر مکرہ سے خریدے ہوئے غلام یا لونڈی کوئی آزاد کر دے یا مدبر کر دے تو خریدار (یہ تصرف جائز ہوگا۔ امام بخاری کے اعراض کا۔) کا حاصل یہ ہے کہ حنفیہ کے کلام میں مناقضہ ہے اگر مکرہ کی بیع صحیح اور مفید ملک ہے تو سب تصرفات خریدار کے درست ہونے چاہئیں اگر صحیح اور مفید ملک نہیں ہے تب نہ نذر صحیح ہونی چاہئے نہ مدبر کرنا اور نذر اور تدبیر کی صحت کا قائل ہونا اور پھر مکرہ کی بیع صحیح نہ سمجھنا دونوں میں مناقفہ ہے۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA) : A man from the Ansar made his slave, a Mudabbar. And apart from that slave he did not have any other property. This news reached Allah's Apostle (ﷺ) and he said, "Who will buy that slave from me?" So Nu'aim bin An-Nahham bought him for 80O Dirham. Jabir added: It was a coptic (Egyptian) slave who died that year.