باب : نبی کریم ﷺ کا فرمانا کہ میرے بعد تم بعض کام دیکھو گے جو تم کو برے لگیں گے
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “After me you will see things which you will disapprove of.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن زید بن عامر نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ( انصار سے) یہ بھی فرمایا کہ تم ان کاموں پر صبر کرنا یہاں تک کہ تم حوض کوثر پر آکھ مجھ سے ملو۔ کچھ باتیں اپنی مرضی کے خلاف دیکھو گے ان پر صبر کرنا اور امت میں اتفاق کو قائم رکھنا۔
7057.
حضرت اسید بن حضیر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں آدمی کو عہدہ دیا ہے لیکن مجھے کوئی عہدہ نہیں دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میرے بعد اپنی حق تلفی دیکھو گے، ایسے حالات میں صبر کرنا حتیٰ کہ تم قیامت کے دن مجھ سے آ ملو۔“
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میں نے دوسرے شخص کو جو عہدہ دیا ہے اس بنا پر ہے کہ مسلمانوں کی عمومی مصلحت کا تقاضا یہی تھا۔ اس میں اس شخص کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے۔ میرے دور میں ذاتی ترجیحات نہیں ہوں گی۔ میرے بعد تم اس طرح کی حق تلفی اور ترجیحات دیکھو گے۔ لیکن ایسے حالات میں تم نے کوئی فتنہ برپا نہیں کرنا ہے بلکہ صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنا ہے کیونکہ اپنے حقوق لینے کے لیے غلط راستہ اختیار کرنا اس میں ملک و ملت کا نقصان ہے۔ ممکن ہے حقوق مانگنے والے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ انسان نہ خود کوئی اقدام کرے اور نہ غلط کاروں کے لیے آلہ کار بنے۔ واللہ أعلم۔
حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا:"تم لوگوں نے اپنی حق تلفی پر صبر کرنا ہے حتی کہ تم حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔"(صحیح البخاری المغازی حدیث 4330) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضاحت فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح تلقین کے باوجود ان حضرات نے صبر سے کام نہ لیا۔(صحیح البخاری المغازی حدیث 4330)
اور عبداللہ بن زید بن عامر نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ( انصار سے) یہ بھی فرمایا کہ تم ان کاموں پر صبر کرنا یہاں تک کہ تم حوض کوثر پر آکھ مجھ سے ملو۔ کچھ باتیں اپنی مرضی کے خلاف دیکھو گے ان پر صبر کرنا اور امت میں اتفاق کو قائم رکھنا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسید بن حضیر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں آدمی کو عہدہ دیا ہے لیکن مجھے کوئی عہدہ نہیں دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میرے بعد اپنی حق تلفی دیکھو گے، ایسے حالات میں صبر کرنا حتیٰ کہ تم قیامت کے دن مجھ سے آ ملو۔“
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےارشاد کا مطلب یہ ہے کہ میں نے دوسرے شخص کو جو عہدہ دیا ہے اس بنا پر ہے کہ مسلمانوں کی عمومی مصلحت کا تقاضا یہی تھا۔ اس میں اس شخص کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے۔ میرے دور میں ذاتی ترجیحات نہیں ہوں گی۔ میرے بعد تم اس طرح کی حق تلفی اور ترجیحات دیکھو گے۔ لیکن ایسے حالات میں تم نے کوئی فتنہ برپا نہیں کرنا ہے بلکہ صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنا ہے کیونکہ اپنے حقوق لینے کے لیے غلط راستہ اختیار کرنا اس میں ملک و ملت کا نقصان ہے۔ ممکن ہے حقوق مانگنے والے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچے اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ انسان نہ خود کوئی اقدام کرے اور نہ غلط کاروں کے لیے آلہ کار بنے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن زید ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”(تم ان کاموں پر) صبر کرو حتیٰ کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کرو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس بن مالک ؓ نے اور ان سے اسید بن حضیر ؓ نے، ایک صاحب (خود اسید) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ نے فلاں عمرو بن عاص کو حاکم بنا دیا اور مجھے نہیں بنایا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ انصاری میرے بعد اپنی حق تلفی دیکھو گے تو قیامت تک صبر کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو۔
حدیث حاشیہ:
حضرت اسید بن حضیر انصاری اوسی لیلۃ العقبہ ثانیہ میں موجود تھے سنہ20ھ میں مدینہ میں فوت ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usaid bin Hudair (RA) : A man came to the Prophet (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! You appointed such-and-such person and you did not appoint me?" The Prophet (ﷺ) said, "After me you will see rulers not giving you your right (but you should give them their right) and be patient till you meet me."