باب:نبی کریم ﷺ کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: “Al-Fitnah will appear from the east.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7094.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما۔“ صحابہ نے عرض کی:اللہ کی رسول! اور ہمارے نجد میں بھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما۔ میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری بار فرمایا: ”وہاں زلزلے اور فتنے رونما ہوں گے، نیز وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔“
تشریح:
1۔نجد اونچے علاقے کو کہتے ہیں۔ مدینہ طیبہ سے مشرقی علاقہ نجد کہلاتا ہے جبکہ نشیبی علاقے کو غور کہا جاتا ہے۔ مدینہ طیبہ سے مشرقی جانب فتنوں کی آماجگاہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علاقے کے لیے دعا نہیں فرمائی کیونکہ ادھر سے بڑی بڑی آفتوں کا ظہورہونے والا تھا۔ کوفہ، بابل اور خراسان وغیرہ نجد میں شامل ہیں، یاجوج وماجوج اور دجال ادھر سے آئیں گے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی سرزمین میں شہید ہوئے۔ 2۔کچھ کج فہم، جاہل اور متعصب قسم کے لوگ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک توحید کو نجد کا فتنہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ وہ مسلمان اور موحد تھے۔ انھوں نے لوگوں کو خالص توحید اور اتباع سنت کی دعوت دی تھی۔ وہ انھیں شرک وبدعت سے منع کرتے تھے، قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنا، وہاں نذرونیازدینا، مصیبت کے وقت غیر اللہ کو پکارنا وغیرہ لوگوں کو اس سے روکتے تھے۔ یہ تمام باتیں قرآن وحدیث کے عین مطابق ہیں۔ سعودی حکومت بھی اسی دعوتِ توحید پر قائم ہے اور دین اسلام کی آبیاری کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قائم ودوائم رکھے۔ آمین یارب العالمین۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما۔“ صحابہ نے عرض کی:اللہ کی رسول! اور ہمارے نجد میں بھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما۔ میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری بار فرمایا: ”وہاں زلزلے اور فتنے رونما ہوں گے، نیز وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔نجد اونچے علاقے کو کہتے ہیں۔ مدینہ طیبہ سے مشرقی علاقہ نجد کہلاتا ہے جبکہ نشیبی علاقے کو غور کہا جاتا ہے۔ مدینہ طیبہ سے مشرقی جانب فتنوں کی آماجگاہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علاقے کے لیے دعا نہیں فرمائی کیونکہ ادھر سے بڑی بڑی آفتوں کا ظہورہونے والا تھا۔ کوفہ، بابل اور خراسان وغیرہ نجد میں شامل ہیں، یاجوج وماجوج اور دجال ادھر سے آئیں گے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی سرزمین میں شہید ہوئے۔ 2۔کچھ کج فہم، جاہل اور متعصب قسم کے لوگ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک توحید کو نجد کا فتنہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ وہ مسلمان اور موحد تھے۔ انھوں نے لوگوں کو خالص توحید اور اتباع سنت کی دعوت دی تھی۔ وہ انھیں شرک وبدعت سے منع کرتے تھے، قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنا، وہاں نذرونیازدینا، مصیبت کے وقت غیر اللہ کو پکارنا وغیرہ لوگوں کو اس سے روکتے تھے۔ یہ تمام باتیں قرآن وحدیث کے عین مطابق ہیں۔ سعودی حکومت بھی اسی دعوتِ توحید پر قائم ہے اور دین اسلام کی آبیاری کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قائم ودوائم رکھے۔ آمین یارب العالمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ازہر بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت ﷺ نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی دجال جو مشرق کے ملک سے آئے گا۔ اسی طرف سے یاجوج ماجوج آئیں گے نجد سے مراد وہ ملک ہے عراق کا جو بلندی پر واقع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا نہیں فرمائی کیوں کہ ادھر سے بڑی بڑی آفتوں کا ظہور ہونے والا تھا۔ حضرت حسین بھی اسی سرزمین میں شہید ہوئے۔ کوفہ، بابل وغیرہ یہ سب نجد میں داخل ہیں۔ بعضے بے وقوفوں نے نجد کے فتنے سے محمد بن عبدالوہاب کا نکلنا مراد رکھا ہے، ان کو یہ معلوم نہیں کہ محمد بن عبدالوہاب تو مسلمان اور موحد تھے۔ وہ تو لوگوں کو توحید اور اتباع سنت کی طرف بلاتے تھے اور شرک و بدعت سے منع کرتے تھے، ان کا نکلنا تو رحمت تھا نہ کہ فتنہ اور اہل مکہ کو جو رسالہ انہوں نے لکھا ہے اس میں سراسر یہی مضامین ہیں کہ توحید اور اتباع سنت اختیار کرو اور شر کے بدعی امور سے پرہیز کرو، اونچی اونچی قبریں مت بناؤ، قبروں پر جا کر نذریں مت چڑھاؤ، منتیں مت مانو۔ یہ سب امور تو نہایت عمدہ اور سنت نبوی کے موافق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اونچی قبروں کو گرانے کا حکم دیا تھا۔ پھر محمد بن عبدالوہاب نے اگر اپنے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تو کیا قصور کیا۔ صلی اﷲ حبیبه محمد و بارك وسلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "O Allah! Bestow Your blessings on our Sham! O Allah! Bestow Your blessings on our Yemen." The People said, "And also on our Najd." He said, "O Allah! Bestow Your blessings on our Sham (north)! O Allah! Bestow Your blessings on our Yemen." The people said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! And also on our Najd." I think the third time the Prophet (ﷺ) said, "There (in Najd) is the place of earthquakes and afflictions and from there comes out the side of the head of Satan."