باب:کوئی شخص لوگوں کے سامنے ایک بات کہے پھر اس کے پاس سے نکل کر دوسری بات کہنے لگے
)
Sahi-Bukhari:
Afflictions and the End of the World
(Chapter: Changing the words)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7112.
سیدنا ابو منہال سے روایت ہے انہوں کہا: جب ابن زیاد اور مروان شام میں تھے ادھر سیدنا ابن زبیر ؓ مکہ میں اٹھ کھڑے تھے اور خارجیوں نے بصرہ پر قبضہ کر رکھا تھا تو میں اپنے والد کے ہمراہ سیدنا ابو برزہ اسلمی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب ہم ان کے گھر پہنچےتو وہ ایک کمرے کے سائے میں تشریف فرما تھے جو بانس کا بنا ہوا تھا۔ ہم ان کے پاس بیٹھ گئے اور میرے والد نے ان سے سلسلہ گفتگو چھیڑنے کے لیے کہا: اے ابو برزہ! آپ دیکھتے نہیں لوگوں نے کیا رکھا ہے؟ پہلی بات جو میں نے آپ کے منہ سے سنی وہ یہ تھی میں قریش والوں سے اللہ کی خاطر ناراض ہوں اللہ تعالیٰ آپ پر مجھے اجر دے گا۔ عرب کے باشندو! تم جانتے ہو کہ تم ذلت وقلت اورضلالت کے کس عالم میں تھے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام اور سیدنا محمد ﷺ کے ذریعے سے نجات دی یہاں تک کہ تم اس مرتبہ تک پہنچ گئے جو تمہارے سامنے ہے، پھر اس دنیا نے تمہیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ شخص جو شام میں حاکم بن بیٹھا ہے اللہ کی قسم! وہ محض دنیا کے لے شمشیر بکف ہے۔ اور یہ خارجی لوگ جو تمہارے درمیان ہیں واللہ! یہ بھی حصول دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں اور وہ صاحب (ابن زبیر ؓ) جو مکہ میں ہیں اللہ کی قسم! ان کے لڑنے کی غرض بھی محض دنیا ہے۔
تشریح:
1۔گوشہ نشین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اندرونی فسادات اور باہمی لڑائی کے متعلق یہ نظریہ تھا کہ حق وصداقت کا معیار کفار سے جنگ اور آپس میں امن وسلامتی ہونا چاہیے اسی لیے وہ ان فسادات سے کنارہ کش اور الگ تھلگ رہے۔ سیدنا حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خانہ جنگی میں مبتلا حضرات کے متعلق اپنے بھر پور جذبات کا اظہار کیا۔ 2۔ہمارا رجحان یہ ہے کہ اپنی سمجھ کے مطابق یہ حضرات بھی اللہ تعالیٰ کے لیے لڑے اور انھوں نے امت کی بھلائی کو پیش نظر رکھا اگرچہ نتائج کچھ بھی سامنے آئے لیکن ہمیں ان کی نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ چونکہ ان کے نفوس پاک تھے، اس لیے اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو وہی کام کرتے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہوتے۔ 3۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث میں موجود لوگوں پر تنقید فرمائی کہ وہ بظاہر دین کے استحکام اور حق کی نصرت کے لیے لڑتے ہیں، حالانکہ اندرونی طور پر ان کی نیتوں میں فتور ہےاور وہ دنیا طلبی کے لیے لڑتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں سن کر میرے باپ نےکہا: آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ انھوں نے فرمایا: مجھے تو آج ان میں خیروبرکت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، ہاں بہت قلیل تعداد میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جنھوں نے دوسروں کے مال سے اپنے پیٹ محفوظ رکھے ہیں اور دوسرے لوگوں کے خون ناحق ان کی گردنوں میں نہیں ہیں۔ (فتح الباري: 92/13) 4۔بہرحال ایسے حالات میں فتنوں سے الگ تھلگ رہنے ہی میں عافیت ہے ،خصوصاً وہ فتنے جو نفاق کی پیداوار ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ جنگ وقتال میں قطعاً حصہ نہیں لینا چاہیے، بالخصوص جب جنگ کی بنیاد ہوس ملک گیری ہو۔ واللہ المستعان۔
فتنوں کے دور میں ہرشخص کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی ہمنوائی کریں ،اس کے لیے ہرقسم کے مکروفریب اور دغابازی کو جائز خیال کیا جاتا ہے۔کچھ لوگ ایسے حالات میں"جنگ ،دھوکے فریب کا نام ہے" کے الفاظ کو بطور ڈھال استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کی مکاری اور دھوکا دہی کو حلال سمجھتے ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام ایسے حالات میں بھی مکاری اور دغابازی کی اجازت نہیں دیتا۔
سیدنا ابو منہال سے روایت ہے انہوں کہا: جب ابن زیاد اور مروان شام میں تھے ادھر سیدنا ابن زبیر ؓ مکہ میں اٹھ کھڑے تھے اور خارجیوں نے بصرہ پر قبضہ کر رکھا تھا تو میں اپنے والد کے ہمراہ سیدنا ابو برزہ اسلمی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب ہم ان کے گھر پہنچےتو وہ ایک کمرے کے سائے میں تشریف فرما تھے جو بانس کا بنا ہوا تھا۔ ہم ان کے پاس بیٹھ گئے اور میرے والد نے ان سے سلسلہ گفتگو چھیڑنے کے لیے کہا: اے ابو برزہ! آپ دیکھتے نہیں لوگوں نے کیا رکھا ہے؟ پہلی بات جو میں نے آپ کے منہ سے سنی وہ یہ تھی میں قریش والوں سے اللہ کی خاطر ناراض ہوں اللہ تعالیٰ آپ پر مجھے اجر دے گا۔ عرب کے باشندو! تم جانتے ہو کہ تم ذلت وقلت اورضلالت کے کس عالم میں تھے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام اور سیدنا محمد ﷺ کے ذریعے سے نجات دی یہاں تک کہ تم اس مرتبہ تک پہنچ گئے جو تمہارے سامنے ہے، پھر اس دنیا نے تمہیں تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ شخص جو شام میں حاکم بن بیٹھا ہے اللہ کی قسم! وہ محض دنیا کے لے شمشیر بکف ہے۔ اور یہ خارجی لوگ جو تمہارے درمیان ہیں واللہ! یہ بھی حصول دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں اور وہ صاحب (ابن زبیر ؓ) جو مکہ میں ہیں اللہ کی قسم! ان کے لڑنے کی غرض بھی محض دنیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔گوشہ نشین صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا اندرونی فسادات اور باہمی لڑائی کے متعلق یہ نظریہ تھا کہ حق وصداقت کا معیار کفار سے جنگ اور آپس میں امن وسلامتی ہونا چاہیے اسی لیے وہ ان فسادات سے کنارہ کش اور الگ تھلگ رہے۔ سیدنا حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خانہ جنگی میں مبتلا حضرات کے متعلق اپنے بھر پور جذبات کا اظہار کیا۔ 2۔ہمارا رجحان یہ ہے کہ اپنی سمجھ کے مطابق یہ حضرات بھی اللہ تعالیٰ کے لیے لڑے اور انھوں نے امت کی بھلائی کو پیش نظر رکھا اگرچہ نتائج کچھ بھی سامنے آئے لیکن ہمیں ان کی نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ چونکہ ان کے نفوس پاک تھے، اس لیے اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو وہی کام کرتے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہوتے۔ 3۔اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ حضرت ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث میں موجود لوگوں پر تنقید فرمائی کہ وہ بظاہر دین کے استحکام اور حق کی نصرت کے لیے لڑتے ہیں، حالانکہ اندرونی طور پر ان کی نیتوں میں فتور ہےاور وہ دنیا طلبی کے لیے لڑتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ ابوبرزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں سن کر میرے باپ نےکہا: آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ انھوں نے فرمایا: مجھے تو آج ان میں خیروبرکت کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، ہاں بہت قلیل تعداد میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں۔ جنھوں نے دوسروں کے مال سے اپنے پیٹ محفوظ رکھے ہیں اور دوسرے لوگوں کے خون ناحق ان کی گردنوں میں نہیں ہیں۔ (فتح الباري: 92/13) 4۔بہرحال ایسے حالات میں فتنوں سے الگ تھلگ رہنے ہی میں عافیت ہے ،خصوصاً وہ فتنے جو نفاق کی پیداوار ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ جنگ وقتال میں قطعاً حصہ نہیں لینا چاہیے، بالخصوص جب جنگ کی بنیاد ہوس ملک گیری ہو۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا‘ انہو ں نے کہا ہم سے شہاب نے‘ بیان کیا ان سے جوف نے بیان کیا‘ ان سے ابو منہال نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن زیاد اور مروان شام میں تھے اور ابن زبیر ؓ نے مکہ میں اور خوارج نے بصرہ میں قبضہ کر لیا تھا تو میں اپنے والد کے ساتھ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ کے پاس گیا۔ جب ہم ان کے گھر میں ایک کمرہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے جو بانس کا بنا ہوا تھا‘ ہم ان کے پاس بیٹھ گئے اور میرے والد ان سے بات کرنے لگے اور کہا اے ابو برزہ! آپ نہیں دیکھتے لوگ کن باتوں میں آفت اور اختلاف میں الجھ گئے ہیں۔ میں نے ان کی زبان سے سب سے پہلی بات یہ سنی کہ میں جو ان قریش کے لوگوں سے ناراض ہوں تو محض اللہ کی رضا مندی کے لیے‘ اللہ میرا اجر دینے والا ہے۔ عرب کے لوگو! تم جانتے ہو پہلے تمہارا کیا حال تھا تم گمراہی میں گرفتار تھے‘ اللہ نے اسلام کے ذریعہ اور حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ تم کو اس بری حالت سے نجات دی۔ یہاں تک کہ تم اس رتبہ کو پہنچے۔ (دنیا کے حاکم اور سردار بن گئے) پھر اسی دنیا نے تم کو خراب کر دیا۔ دیکھو! یہ شخص جو شام میں حاکم بن بیٹھا ہے یعنی مروان دنیا کے لئے لڑ رہا ہے۔ یہ لوگ جو تمہارے سامنے ہیں۔ (خوارج) واللہ! یہ لوگ صرف دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں اور وہ جو مکہ میں ہے عبداللہ بن زبیر ؓ واللہ! وہ بھی صرف دنیا کے لیے لڑ رہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Al-Minhal (RA) : When Ibn Ziyad and Marwan were in Sham and Ibn Az-Zubair took over the authority in Makkah and Qurra' (the Kharijites) revolted in Basra, I went out with my father to Abu Barza Al-Aslami till we entered upon him in his house while he was sitting in the shade of a room built of cane. So we sat with him and my father started talking to him saying, "O Abu Barza! Don't you see in what dilemma the people has fallen?" The first thing heard him saying "I seek reward from Allah for myself because of being angry and scornful at the Quraish tribe. O you Arabs! You know very well that you were in misery and were few in number and misguided, and that Allah has brought you out of all that with Islam and with Muhammad till He brought you to this state (of prosperity and happiness) which you see now; and it is this worldly wealth and pleasures which has caused mischief to appear among you. The one who is in Sham (i.e., Marwan), by Allah, is not fighting except for the sake of worldly gain: and those who are among you, by Allah, are not fighting except for the sake of worldly gain; and that one who is in Makkah (i.e., Ibn Az-Zubair) by Allah, is not fighting except for the sake of worldly gain."