باب : جو شخص بندگان خدا کو ستائے( مشکل میں پھانسے) اللہ اس کو ستائے گا( مشکل میں پھنسائے گا)
)
Sahi-Bukhari:
Judgments (Ahkaam)
(Chapter: Causing people troubles and difficulties)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7152.
سیدنا طریف ابو تمیمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں صفوان ،ان کے ساتھیوں اور سیدنا جندب رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا جبکہ وہ ان کو وصیت کررہے تھے،پھر ان ساتھیوں نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے، آپ نے فرمایا: جو شخص لوگوں کو سنانے کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا بھید کھول دے گا اور جولوگوں کو مشقت میں ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے مصیبت میں مبتلا کردے گا۔پھر ان لوگوں نے کہا: آپ ہمیں وصیت کریں تو انہوں نے فرمایا: سب سے پہلے(قبر میں) انسان کا پیٹ کا خراب ہوگا۔لہذا جو شخص حلال وپاکیزہ چیز کھانے کی طاقت رکھتا ہوتو وہ ضرور حلال اور پاک چیز کھائے ۔اور شخص چاہتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان چلو بھر خون حائل نہ ہوجو اس نے ناحق بہایا تو وہ ایسا ضرور کرے۔¤(فربری نے کہا:) میں نے ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ ) سے پوچھا: کون صاحب اس حدیث میں کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا،کیا جندب کہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا:ہاں جندب ہی کہتے ہیں
تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں عسعس بن سلامہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ شورش برپا کرنے والوں کو جمع کریں تاکہ میں انھیں حدیث بیان کروں،چنانچہ خوارج کے سرغنوں،یعنی نافع بن ازرق ،ابوبلال مرد اس،نجدہ اور صالح بن مشرح کو جمع کیا گیا تو انھوں نے ان لوگوں کے سامنے مذکورہ حدیث بیان کی۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب انھوں نے وعظ سنا تو رونے لگے۔حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اگر یہ سچے ہیں تو میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو نجات یافتہ نہیں پایا۔(صحیح مسلم الایمان حدیث 279(97) وفتح الباری 13/161،162)دراصل یہ لوگ فتنہ برپا کرنے والے تھے اور انتہائی درجہ کے پاکباز معلوم ہوتے تھے جب وہ وعظ سن کر رونے لگے تو انھوں نے ان کی ریاکاری کو محسوس کیا اور فرمایا:اگر یہ سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں نجات یافتہ ہیں۔2۔بہرحال ان خوارج نے مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا،بچوں ،عورتوں اور لوگوں کا قتل عام کیا۔ہمارے رجحان کے مطابق حدیث بالا کا یہ مفہوم ہے کہ جس نے مسلمانوں کےدرمیان اختلاف ڈالا اوراپنے لیے کسی الگ راستے کا انتخاب کیا جو سبیل المومنین (اہل ایمان کے راستے) کے علاوہ ہوتو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے سخت مصیبت سے دوچار کرے گا کیونکہ خوارج نے جوحالات پیدا کررکھے تھے ان کے پیش نظر یہی مفہوم مناسب ہے۔واللہ اعلم۔
سیدنا طریف ابو تمیمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں صفوان ،ان کے ساتھیوں اور سیدنا جندب رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا جبکہ وہ ان کو وصیت کررہے تھے،پھر ان ساتھیوں نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے، آپ نے فرمایا: جو شخص لوگوں کو سنانے کے لیے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا بھید کھول دے گا اور جولوگوں کو مشقت میں ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے مصیبت میں مبتلا کردے گا۔پھر ان لوگوں نے کہا: آپ ہمیں وصیت کریں تو انہوں نے فرمایا: سب سے پہلے(قبر میں) انسان کا پیٹ کا خراب ہوگا۔لہذا جو شخص حلال وپاکیزہ چیز کھانے کی طاقت رکھتا ہوتو وہ ضرور حلال اور پاک چیز کھائے ۔اور شخص چاہتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان چلو بھر خون حائل نہ ہوجو اس نے ناحق بہایا تو وہ ایسا ضرور کرے۔¤(فربری نے کہا:) میں نے ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ ) سے پوچھا: کون صاحب اس حدیث میں کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا،کیا جندب کہتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا:ہاں جندب ہی کہتے ہیں
حدیث حاشیہ:
1۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت جندب بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں عسعس بن سلامہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ شورش برپا کرنے والوں کو جمع کریں تاکہ میں انھیں حدیث بیان کروں،چنانچہ خوارج کے سرغنوں،یعنی نافع بن ازرق ،ابوبلال مرد اس،نجدہ اور صالح بن مشرح کو جمع کیا گیا تو انھوں نے ان لوگوں کے سامنے مذکورہ حدیث بیان کی۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب انھوں نے وعظ سنا تو رونے لگے۔حضرت جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اگر یہ سچے ہیں تو میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو نجات یافتہ نہیں پایا۔(صحیح مسلم الایمان حدیث 279(97) وفتح الباری 13/161،162)دراصل یہ لوگ فتنہ برپا کرنے والے تھے اور انتہائی درجہ کے پاکباز معلوم ہوتے تھے جب وہ وعظ سن کر رونے لگے تو انھوں نے ان کی ریاکاری کو محسوس کیا اور فرمایا:اگر یہ سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں نجات یافتہ ہیں۔2۔بہرحال ان خوارج نے مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا،بچوں ،عورتوں اور لوگوں کا قتل عام کیا۔ہمارے رجحان کے مطابق حدیث بالا کا یہ مفہوم ہے کہ جس نے مسلمانوں کےدرمیان اختلاف ڈالا اوراپنے لیے کسی الگ راستے کا انتخاب کیا جو سبیل المومنین (اہل ایمان کے راستے) کے علاوہ ہوتو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے سخت مصیبت سے دوچار کرے گا کیونکہ خوارج نے جوحالات پیدا کررکھے تھے ان کے پیش نظر یہی مفہوم مناسب ہے۔واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے، ان سے جریری نے، ان سے ظریف ابوتمیمہ نے بیان کیا کہ میں صفوان اور جندب اور ان کے ساتھیوں کے پاس موجود تھا۔ صفوان اپنے ساتھیوں( شاگردوں) کو وصیت کررہے تھے، پھر( صفوان اور ان کے ساتھیوں نے جندب ؓ سے) پوچھا، کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جو لوگوں کو ریاکاری کے طور پر دکھانے کے لیے کام کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی ریاکاری کا حال لوگوں کو سنادے گا اور فرمایا کہ جو لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے تکلیف میں مبتلاکرے گا، پھر ان لوگوں نے کہا کہ ہمیں کوئی وصیت کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے انسان کے جسم میں اس کا پیٹ سڑتا ہے پس جو کوئی طاقت رکھتا ہو کہ پاک و طیب کے سوا اور کچھ نہ کھائے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہئے اور جو کوئی طاقت رکھتا ہو وہ چلو بھر لہو بہاکر( یعنی ناحق خون کرکے) اپنے تئیں بہشت میں جانے سے روکے۔ جریری کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبداللہ سے پوچھا، کون صاحب اس حدیث میں یہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا؟ کیا جندب کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں وہی کہتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Tarif Abi Tamima (RA) :
I saw Safwan and Jundab and Safwan's companions when Jundab was advising. They said, "Did you hear something from Allah's Apostle?" Jundab said, "I heard him saying, 'Whoever does a good deed in order to show off, Allah will expose his intentions on the Day of Resurrection (before the people), and whoever puts the people into difficulties, Allah will put him into difficulties on the Day of Resurrection.'" The people said (to Jundab), "Advise us." He said, "The first thing of the human body to purify is the abdomen, so he who can eat nothing but good food (Halal and earned lawfully) should do so, and he who does as much as he can that nothing intervene between him and Paradise by not shedding even a handful of blood, (i.e. murdering) should do so."