Sahi-Bukhari:
Wishes
(Chapter: What kind of wishing is disliked)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ نے سورۃ نساءمیں فرمایا ‘ ” اور نہ تمنا کرو اس چیز کی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر ( مال میں ) فضیلت دی ہے ۔ مرد اپنی کمائی کا ثواب پائیں گے اور عورتیں اپنی کمائی کا اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو بلا شبہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ اللہ ہر ایک کی حالت جانتا ہے جس کو جتنا دیا ہے ‘ اسی میں اس کی حکمت ہے پس لوگوں کو دیکھ کر ہوس کرنا کیا ضرور ہے ۔
7234.
حضرت قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت خباب بن ارتؓ کے پاس ان کی تیمار داری کے لیے حاضر ہوئے جبکہ انہوں نے سات داغ لگوائے تھے‘ انہوں نے فرمایا: اگر رسول اللہﷺ نے ہمیں موت کی تمنا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرور موت کی دعا کرتا۔
تشریح:
موت کی تمنا اس لیے ممنوع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی موت کا وقت مقرر کررکھا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ موت کی تمنا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر تسلیم نہ کرنا بلکہ اس سے اظہار ناراضی کرنا ہے۔ ایک حدیث میں دنیوی مصیبتوں کی وجہ سے موت کی تمنا کو قابل مذمت قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی کسی کی قبر کے پاس سے گزرے گا توکہے گا: کاش! میں اس صاحب قبر کی جگہ پر ہوتا اور ایسا کہنا کسی دین داری کے خطرے کے پیش نظر نہیں ہوگا بلکہ دنیاوی بلاؤں اورمصیبتوں سے گھبرا کر ایساکہے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7302(157)
ایسی تمنائیں منع ہیں جو حسد اور باہمی بغض وعداوت کو دعوت دیں یا فطرتِ انسانی سےٹکراتی ہوں،مثلاً:اللہ تعالیٰ نے کسی کو کوئی خوبی دے رکھی ہے اور کسی کو کوئی دوسری ایک مال دار ہے،دوسرا غریب ہے،کوئی حسین ہے کوئی بدصورت تو ان صفات کے اختلاف کی بنا پر حسد،ہوس اور بغض نہیں رکھنا چاہیے ،چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:مرد جہاد کرتے ہیں عورتوں کا جنگ میں کوئی حصہ نہیں،عورتوں کے لیے نصف میراث ہے،جب انھوں نے اس نہج پر سوچنا شروع کردیا تواللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالاآیت نازل فرمائی۔(جامع الترمذی تفسیر القرآن حدیث 3022)
اور اللہ نے سورۃ نساءمیں فرمایا ‘ ” اور نہ تمنا کرو اس چیز کی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر ( مال میں ) فضیلت دی ہے ۔ مرد اپنی کمائی کا ثواب پائیں گے اور عورتیں اپنی کمائی کا اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو بلا شبہ اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔ اللہ ہر ایک کی حالت جانتا ہے جس کو جتنا دیا ہے ‘ اسی میں اس کی حکمت ہے پس لوگوں کو دیکھ کر ہوس کرنا کیا ضرور ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت قیس سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت خباب بن ارتؓ کے پاس ان کی تیمار داری کے لیے حاضر ہوئے جبکہ انہوں نے سات داغ لگوائے تھے‘ انہوں نے فرمایا: اگر رسول اللہﷺ نے ہمیں موت کی تمنا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرور موت کی دعا کرتا۔
حدیث حاشیہ:
موت کی تمنا اس لیے ممنوع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی موت کا وقت مقرر کررکھا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ موت کی تمنا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر تسلیم نہ کرنا بلکہ اس سے اظہار ناراضی کرنا ہے۔ ایک حدیث میں دنیوی مصیبتوں کی وجہ سے موت کی تمنا کو قابل مذمت قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی کسی کی قبر کے پاس سے گزرے گا توکہے گا: کاش! میں اس صاحب قبر کی جگہ پر ہوتا اور ایسا کہنا کسی دین داری کے خطرے کے پیش نظر نہیں ہوگا بلکہ دنیاوی بلاؤں اورمصیبتوں سے گھبرا کر ایساکہے گا۔‘‘ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7302(157)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اللہ تعالی نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے تم اس کی تمنا نہ کرو....بے شک اللہ تعالی ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدہ نے بیان کیا‘ ان سے ابن ابی خالد نے‘ ان سے قیس نے بیان کیا کہ ہم خباب بن ارت ؓ کی خدمت میں ان کی عبادت کے لیے حاضر ہوئے۔ انہوں نے سات داغ لگوائے تھے‘ پھر انہوں نے کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی دعا کرتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qais (RA) : We went to pay a visit to Khabbab bin Al-Art and he had got himself branded at seven spots over his body. He said, "If Allah's Apostle (ﷺ) had not forbidden us to invoke Allah for death, I would have invoked for it."