Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Wish to be like the one who has knowledge and Al-Hikmah [wisdom i.e., the knowledge of the Qur'an and the Sunna (legal ways) of the Prophet (saws)])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عمر ؓ کا ارشاد ہے کہ سردار بننے سے پہلے سمجھ دار بنو ( یعنی دین کا علم حاصل کرو ) اور ابوعبداللہ ( حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہ نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا۔
73.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ’’رشک جائز نہیں مگر دو (آدمیوں کی) خصلتوں پر: ایک اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہو۔ اور دوسرے اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ نے (قرآن و حدیث کا) علم دے رکھا ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔‘‘
تشریح:
1۔ رشک یہ ہے کہ کسی میں اچھی صفت یا نعمت دیکھ کر انسان خوش ہو اور اپنے لیے اس کی تمنا کرے۔ اگر مقصود یہ ہو کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے تو اسے حسد کہتے ہیں اور یہ قابل مذمت ہے نیز حسد ہمیشہ کسی خوبی اور کمال ہی پر ہوا کرتا ہے خواہ کمال علمی ہو یا عملی۔ حدیث کے پہلے جملے کا تعلق کمال عملی سے ہے اور دوسرے کا کمال علمی سے۔ اسی طرح فضائل بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی، ظاہری فضائل میں اصل اصول مالداری ہے اور باطنی فضائل میں اصل اصول علم ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں لفظ غبطہ بڑھا دیا جس کے معنی رشک کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں لفظ حسد اپنے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ وہ غبطہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس حدیث میں یہ اضافہ موجود ہے کہ جب اس کا پڑوسی اس کا قرآن پڑھنا پڑھانا دیکھتا ہے تو کہتا ہے۔ کاش! مجھے بھی قرآن کی یہ دولت ملے تو میں بھی اسی طرح کروں، جس طرح وہ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5026) اور جب اس کی جود وسخا کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے بھی اس جیسی مال کی فراوانی ملے تو میں بھی اسی طرح خرچ کروں جس طرح وہ خرچ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، التمني، حدیث: 7232) اس حدیث میں جس طرح پڑوسی نے اپنی تمنا کا اظہار کیا ہے یہ صرف غبطے میں ہو سکتا ہے حسد میں یہ انداز نہیں ہوتا۔ (فتح الباري: 220/1) 3۔ حدیث میں حسد کو اپنے حقیقی معنی میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا یعنی اگر کوئی چیز قابل حسد ہو سکتی تو وہ صرف دو تھیں۔ ایک کمال علمی اور دوسرا کمال عملی جو جودوسخا سے متعلق ہے جب یہ بھی جائز نہیں تو باقی چیزوں میں تو یقینی طور پر حرام ہے۔ (فتح الباري: 220/1) 4۔ حسد حرام اور ناجائز ہے لیکن علمائے امت نے ایک مقام پر حسد جائز رکھا ہے وہ یہ کہ اگر کسی کافر یا فاسق کے پاس علم اور مال کی دولت ہو اور وہ اسے اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرتا ہو اور لوگوں کو ان کے ذریعے سے گمراہ کرتا ہو تو ایسے حالات میں اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی تمنا جائز ہی نہیں بلکہ باعث ثواب بھی ہے۔ (فتح الباري: 219/1) 5۔ مال دار کا عموماً یہ حال ہوتا ہے کہ مال اس کے دل پر حاوی ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کی کمزوری بن جاتا ہے، لیکن اگر وہ اسے پورے طور پر خرچ کرتا ہے تو دنیا و آخرت میں اس کی عزت کا باعث ہے۔ اس میں(فِي الْحَقِّ) کی قید اس لیے لگائی ہے تاکہ اسراف و تبذیر کا گمان نہ ہو۔ (فتح الباري:219/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
73
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
73
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
73
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
73
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
علم بہت قابل قدر دولت ہے۔ جس شخص کے پاس یہ نعمت ہوتو وہ قابل رشک ہے۔ جب علم اتنی بڑی نعمت ہے تو ذمے داریوں کا بوجھ پڑنے سے پہلے پہلے اسے حاصل کرنا چاہیے کیونکہ سیادت جیسی ذمے داری کے بعد تحصیل علم میں دشواریاں پیدا ہو جاتی ہیں ان کے متعلقہ حقوق و فرائض میں اتنی فرصت ہی کہاں ملتی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھی وجوہات کے پیش نظر فرمایا کہ سیادت سے قبل علم حاصل کرو۔ اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ آپ سیادت کے بعد علم حاصل کرنے سے منع فرمارہے ہیں کیونکہ آپ کا یہ فرمان حصر کے لیے نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جاہل کی سیادت بربادی کا باعث ہوتی ہے اس لیے سیادت کے بعد بھی علم حاصل کرنا چاہیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے بڑی عمر میں علم دین سیکھا، باوجود اس کے کہ وہ اپنے گھروں میں سرداری کرتے تھے ۔سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ اثر مصنف ابن ابی شیبہ(8/727)وغیرہ میں موصولاً مروی ہے۔
اور حضرت عمر ؓ کا ارشاد ہے کہ سردار بننے سے پہلے سمجھ دار بنو ( یعنی دین کا علم حاصل کرو ) اور ابوعبداللہ ( حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہ نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ’’رشک جائز نہیں مگر دو (آدمیوں کی) خصلتوں پر: ایک اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہو۔ اور دوسرے اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ نے (قرآن و حدیث کا) علم دے رکھا ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ رشک یہ ہے کہ کسی میں اچھی صفت یا نعمت دیکھ کر انسان خوش ہو اور اپنے لیے اس کی تمنا کرے۔ اگر مقصود یہ ہو کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے تو اسے حسد کہتے ہیں اور یہ قابل مذمت ہے نیز حسد ہمیشہ کسی خوبی اور کمال ہی پر ہوا کرتا ہے خواہ کمال علمی ہو یا عملی۔ حدیث کے پہلے جملے کا تعلق کمال عملی سے ہے اور دوسرے کا کمال علمی سے۔ اسی طرح فضائل بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی، ظاہری فضائل میں اصل اصول مالداری ہے اور باطنی فضائل میں اصل اصول علم ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں لفظ غبطہ بڑھا دیا جس کے معنی رشک کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں لفظ حسد اپنے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ وہ غبطہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس حدیث میں یہ اضافہ موجود ہے کہ جب اس کا پڑوسی اس کا قرآن پڑھنا پڑھانا دیکھتا ہے تو کہتا ہے۔ کاش! مجھے بھی قرآن کی یہ دولت ملے تو میں بھی اسی طرح کروں، جس طرح وہ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5026) اور جب اس کی جود وسخا کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے بھی اس جیسی مال کی فراوانی ملے تو میں بھی اسی طرح خرچ کروں جس طرح وہ خرچ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، التمني، حدیث: 7232) اس حدیث میں جس طرح پڑوسی نے اپنی تمنا کا اظہار کیا ہے یہ صرف غبطے میں ہو سکتا ہے حسد میں یہ انداز نہیں ہوتا۔ (فتح الباري: 220/1) 3۔ حدیث میں حسد کو اپنے حقیقی معنی میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا یعنی اگر کوئی چیز قابل حسد ہو سکتی تو وہ صرف دو تھیں۔ ایک کمال علمی اور دوسرا کمال عملی جو جودوسخا سے متعلق ہے جب یہ بھی جائز نہیں تو باقی چیزوں میں تو یقینی طور پر حرام ہے۔ (فتح الباري: 220/1) 4۔ حسد حرام اور ناجائز ہے لیکن علمائے امت نے ایک مقام پر حسد جائز رکھا ہے وہ یہ کہ اگر کسی کافر یا فاسق کے پاس علم اور مال کی دولت ہو اور وہ اسے اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرتا ہو اور لوگوں کو ان کے ذریعے سے گمراہ کرتا ہو تو ایسے حالات میں اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی تمنا جائز ہی نہیں بلکہ باعث ثواب بھی ہے۔ (فتح الباري: 219/1) 5۔ مال دار کا عموماً یہ حال ہوتا ہے کہ مال اس کے دل پر حاوی ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کی کمزوری بن جاتا ہے، لیکن اگر وہ اسے پورے طور پر خرچ کرتا ہے تو دنیا و آخرت میں اس کی عزت کا باعث ہے۔ اس میں(فِي الْحَقِّ) کی قید اس لیے لگائی ہے تاکہ اسراف و تبذیر کا گمان نہ ہو۔ (فتح الباري:219/1)
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر ؓ نے فرمایا: سردار بننے سے پہلے علم حاصل کرو۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہا للہ) فرماتے ہیں: سردار بننے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بڑی عمر میں علم حاصل کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے دوسرے لفظوں میں بیان کیا، ان لفظوں کے علاوہ جو زہری نے ہم سے بیان کئے، وہ کہتے ہیں میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، انھوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔
حدیث حاشیہ:
شارحین حدیث لکھتے ہیں: إعلم أن المراد بالحسد، ههنا الغبطة فإن الحسد مذموم قد بین الشرع بأوضح بیان وقد یجی الحسد بمعنی الغبطة و إن کان قليلا۔ یعنی حدیث (73) میں حسد کے لفظ سے غبطہ یعنی رشک کرنا مراد ہے کیونکہ حسد بہرحال مذموم ہے۔ جس کی شرع نے کافی مذمت کی ہے۔ کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بہت سے نافہم لوگ حضرت امام بخاری سے حسد کر کے ان کی توہین وتخفیف کے درپے ہیں، ایسا حسد کرنا مومن کی شان نہیں۔ اللهم احفظنا آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Do not wish to be like anyone except in two cases. (The first is) A person, whom Allah has given wealth and he spends it righteously; (the second is) the one whom Allah has given wisdom (the Holy Qur'an) and he acts according to it and teaches it to others." (Fateh-al-Bari page 177 Vol. 1)