کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: Going deeply into and arguing about knowledge, and exaggerating in religion, and inventing heresies)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔
7300.
یزید بن شریک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اینٹوں سے بنے ہوئے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں خطبہ دیا۔ ان کے پاس ایک تلوار تھی جس کے ساتھ صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ انہوں نےفرمایا: اللہ کی قسم! ہمارے پاس کتاب اللہ کے علاوہ اور کوئی تحریر نہیں جسے پڑھا جا سکے مگر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت کے طور پر دیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا اندراج تھا۔ اوراس میں یہ بھی تھا۔ مدینہ طیبہ عیر پہاڑی سے لے کر فلاں پہاڑی تک حرم ہے۔ جس انسان نے اس میں کسی بدعت کو ایجاد کیا اس پر اللہ کی لعنت۔ فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے کوئی فرض یا نفل عبادت قبول نہیں کرے گا۔ اس میں یہ بھی تھا: مسلمانوں کی ذمہ داری ایک ہے۔ اسے ادنیٰ شخص بھی پورا کرنے کی کوشش کرے۔ جس کسی مسلمان کا عہد توڑا اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اس کی کوئی فرض یا نفل عبادت قبول نہیں ہوگی۔ اس میں یہ بھی تھا: جس نے اپنے آقاؤں کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے سے موالات کا تعلق قائم کیا اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی فرض یا نفل عبادت قبول نہیں کرے گا۔
تشریح:
دین میں غلو کی کئی صورتیں ہیں جن میں بدعت کی اشاعت یعنی بدعت پھیلا نا اور اسے رواج دینا بھی ہے چنانچہ عنوان میں بدعات کی ترویج و اشاعت کا بھی ذکر ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ جس نے حرم مدینہ میں بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو جگہ دی اس پر اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اس صحیفے میں یہ بھی تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی تعظیم کے لیے جانور ذبح کرے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔ جو کوئی زمین کے نشانات تبدیل کرے وہ بھی ملعون ہے اور جو شخص اپنے باپ پر لعنت کرتا ہے۔ اس پر بھی اللہ کی لعنت ہے بہر حال اس میں بدعت کی اشاعت اور بدعتی کو اپنے ہاں جگہ دسینے کی گندگی اور برائی کا بیان ہے جو دین میں غلو اور حد سے گزر جانے کی ایک صورت ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ (فتح الباري:341/13)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7027
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7300
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7300
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7300
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
تمہید باب
غلو کے معنی حد سے تجاوز کرنا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی معاملات میں غلو سے منع فرمایا ہے جیسا کہ ذات باری تعالیٰ کے متعلق بحث و تمحیص کرتے وقت انسان اس حدسے تجاوز کر جائے کہ شیطان کو دخل اندازی کا موقع مل جائے۔ یہود و نصاریٰ نے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق غلو سے کام لیا تھا۔یہودیوں نے ان کی قدر و منزلت کو اس حد تک گھٹا دیا کہ ان کی رسالت ہی سے انکار کردیا ۔اور نصاریٰ نے انھیں اس قدر بڑھایا کہ انھیں الٰہ بنادیا یا انھیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا ہمارے مسلمانوں میں بھی اس قسم کے غلو کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ دین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
یا علم کی بات میں بے موقع فضول جھگڑا کرنا اور دین میں غلو کرنا ‘ بدعتیں نکالنا‘ حد سے بڑھ جانا منع ہے کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ نساء میں فرمایا ” کتاب والو! اپنے دین میں حد سے مت بڑھو “ تشریح : جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کو گھٹا کر ان کی پیغمبری کا بھی انکار کردیا اور نصاریٰ نے چڑھا یا کہ ان کو خدا بنا دیا ‘ دونوں باتیں غلو ہیں ۔ غلو اسی کو کہتے ہیں جس کی مسلمانوں میں بھی بہت سی مثالیں ہیں ۔ شیعہ اور اہل بدعت نے غلو میں یہود ونصاری کی پیروی کی ۔ ھداھم اللہ تعالیٰ۔
حدیث ترجمہ:
یزید بن شریک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اینٹوں سے بنے ہوئے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں خطبہ دیا۔ ان کے پاس ایک تلوار تھی جس کے ساتھ صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ انہوں نےفرمایا: اللہ کی قسم! ہمارے پاس کتاب اللہ کے علاوہ اور کوئی تحریر نہیں جسے پڑھا جا سکے مگر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت کے طور پر دیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا اندراج تھا۔ اوراس میں یہ بھی تھا۔ مدینہ طیبہ عیر پہاڑی سے لے کر فلاں پہاڑی تک حرم ہے۔ جس انسان نے اس میں کسی بدعت کو ایجاد کیا اس پر اللہ کی لعنت۔ فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے کوئی فرض یا نفل عبادت قبول نہیں کرے گا۔ اس میں یہ بھی تھا: مسلمانوں کی ذمہ داری ایک ہے۔ اسے ادنیٰ شخص بھی پورا کرنے کی کوشش کرے۔ جس کسی مسلمان کا عہد توڑا اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اس کی کوئی فرض یا نفل عبادت قبول نہیں ہوگی۔ اس میں یہ بھی تھا: جس نے اپنے آقاؤں کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے سے موالات کا تعلق قائم کیا اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی فرض یا نفل عبادت قبول نہیں کرے گا۔
حدیث حاشیہ:
دین میں غلو کی کئی صورتیں ہیں جن میں بدعت کی اشاعت یعنی بدعت پھیلا نا اور اسے رواج دینا بھی ہے چنانچہ عنوان میں بدعات کی ترویج و اشاعت کا بھی ذکر ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ جس نے حرم مدینہ میں بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو جگہ دی اس پر اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اس صحیفے میں یہ بھی تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی تعظیم کے لیے جانور ذبح کرے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔ جو کوئی زمین کے نشانات تبدیل کرے وہ بھی ملعون ہے اور جو شخص اپنے باپ پر لعنت کرتا ہے۔ اس پر بھی اللہ کی لعنت ہے بہر حال اس میں بدعت کی اشاعت اور بدعتی کو اپنے ہاں جگہ دسینے کی گندگی اور برائی کا بیان ہے جو دین میں غلو اور حد سے گزر جانے کی ایک صورت ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ (فتح الباري:341/13)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور حق کے سوا اللہ پر کچھ نہ کہو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ہمارے والد نے‘ کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا‘ کہا کہ علی ؓ نے ہمیں اینٹ کے بنے ہوئے منبر کر کھڑا ہو کر خطبہ دیا۔ آپ تلوار لیے ہوئے تھے جس میں ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا واللہ! ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جسے پڑھا جائے اور سوا اس صحیفہ کے۔ پھر انہوں نے اسے کھولا تو اس میں دیت میں دیے جانے والے اونٹوں کی عمروں کا بیان تھا۔ ( کہ دیت میں اتنی اتنی عمر کے اونٹ دیئے جائیں) اور اس میں یہ بھی تھا کہ مدینہ طیبہ کی زمین عیر پہاڑی سے ثور پہاڑی تک حرم ہے۔ پس اس میں جو کوئی نئی بات (بدعت) نکالے گا اس پر اللہ کی لغت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس سے کسی فرض یا نفل عبادت کو قبول کرے گا اور اس میں یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کی ذمہ داری (عہد یا امان) ایک اس کے ذمہ دار ان میں سب سے ادنیٰ مسلمان بھی ہو سکتا ہے پس جس نے کسی مسلمان کا ذمہ توڑا‘ اس پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ اللہ اس کی نہ فرض عبدت قبول کرے گا اور نہ نفل عبادت اور اس میں یہ بھی تھا کہ جس نے کسی سے اپنی والیوں کی اجازت کے بغیر ولاء کا رشتہ قائم کیا اس پر اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے‘ اللہ نہ اس کی فرض نماز قبول کرے گا نہ نفل۔
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب یہیں سے نکلا اور گو حدیث میں اس جگہ کی قید ہے مگر بدعت کا حکم ہر جگہ ایک ہے۔ دوسری روایت میں یوں ہے‘ اس میں یہ بھی تھا کہ جو اللہ کے سوا اور کسی کی تعظیم کے لیے ذبح کرے اس پر اللہ نے لغت کی اور جو کوئی زمین کا نشان چرا لے اس پر اللہ نے لعنت کی اور جو شخص اپنے باپ پر لعنت کرے اس پر اللہ نے لعنت کی اور جو شخص کسی بدعتی کو اپنے یہاں ٹھکانا دے اس پر اللہ نے لعنت کی۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ شیعہ لوگ جو بہت سی کتابیں جناب امیر کی منسوب کرتے ہیں جیسے صحیفہ کاملہ وغیرہ یا جناب امیر کا کوئی اور قرآن اس مروج قرآن کے سوا جانتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ اسی طرح سورہ علی جو بعض شیعوں نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے۔ لعنة اللہ علی واضعه۔ البتہ بعض روایتوں سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ جناب امیر کے قرآن شریف کی تربیت دوسری طرح پر تھی یعنی باعتبار تاریخ نزول کے اور ایک تابعی کہتے ہیں کہ اگر یہ قرآن مجید موجودہ ہوتا تو ہم کو بہت فائدے حاصل ہوتے یعنی سورتوں کی تقدیم وتاخیر معلوم ہو جاتی۔ باقی قرآن یہی تھا جواب مروج ہے۔ اس سے زیادہ اس میں کوئی سورت نہ تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibrahim At Tamii's father (RA) : Ali addressed us while he was standing on a brick pulpit and carrying a sword from which was hanging a scroll He said "By Allah, we have no book to read except Allah's Book and whatever is on this scroll," And then he unrolled it, and behold, in it was written what sort of camels were to be given as blood money, and there was also written in it: 'Medina is a sanctuary form 'Air (mountain) to such and such place so whoever innovates in it an heresy or commits a sin therein, he will incur the curse of Allah, the angles, and all the people and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds.' There was also written in it: 'The asylum (pledge of protection) granted by any Muslims is one and the same, (even a Muslim of the lowest status is to be secured and respected by all the other Muslims, and whoever betrays a Muslim in this respect (by violating the pledge) will incur the curse of Allah, the angels, and all the people, and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds.' There was also written in it: 'Whoever (freed slave) befriends (takes as masters) other than his real masters (manumitters) without their permission will incur the curse of Allah, the angels, and all the people, and Allah will not accept his compulsory or optional good deeds. ' (See Hadith No. 94, Vol. 3)