کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھنا
(
باب : دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہوگی؟
)
Sahi-Bukhari:
Holding Fast to the Qur'an and Sunnah
(Chapter: The laws inferred from certain evidences; and the meaning of an evidence)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
رسول اللہ ﷺنے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان کئے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے یہ آیت بیان فرمائی کہ ” جو ایک زرہ برابر بھی بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا “ اور آنحضرت ﷺ سے ساہنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں خود اسے نہیں کھا تا اور ( دوسروں کے لیے ) اسے حرام بھی نہیں قرار دیتا اور آنحضرت ﷺ کے دستر خوان پر ساہنہ کھا یا گیا اور اس سے ابن عباس ؓ نے استدلال کیا کہ وہ حرام نہیں ہے ( یہ بھی دلالت کی مثال ہے یہ حدیث آگے آرہی ہے ) تشریح :دلائل شرعیہ اصول شرع وہ دو ہیں قرآن اور حدیث اور بعضوں نے اجماع اور قیاس کو بھی بڑھا یا ہے لیکن امام الحرمین اور غزالی نے قیاس کو خارج کیا ہے اور سچ یہ ہے کہ قیاس کوئی حجت شرعی نہیں ہے یعنی حجت ملزمہ اس کے لئے کہ ایک مجتہد کا قیاس دوسرے مجتہد کو کافی نہیں ہے تو حجت ملزمہ دو ہی چیزیں ہوئیں کتاب اور سنت ۔ البتہ قیاس حجت مظہرہ ہے یعنی ہر مجتہد جس مسئلہ میں کوئی نص کتا ب اور سنت سے نہ پائے تو اپنے قیاس پر عمل کرسکتا ہے البتہ اجماع حجت ملزمہ ہو سکتا ہے بشر طیکہ اجماع ہو اگر ایک مجتہد کا بھی اس میں خلاف ہو تو اجماع باقی علماءکا حجت نہ ہوگا ۔ دلالت کے معنی یہ ہیں کہ ایک شے جس میں کوئی خاص نص نہ وارد ہو اس کو کسی شے منصوص کے حکم میں داخلکرنا بد لالت عقل ‘ جس کی مثال آگے خود امام بخاری نے بیان کی ہے ( وحیدی )
7356.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں: ایک شخص کے لیے ان کا رکھنا باعث ثواب ہے۔ دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا سبب اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے وہ اجر کا باعث ہیں یہ وہ شخص ہے جس نے اسے اللہ کے راستے میں باندھے رکھا اور اس کی رسی کو چراگاہ میں دراز کر دیا، وہ گھوڑا جس قدر چراگاہ میں گھوم پھر کر چارا کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ وہ ایک یا دو بلندیاں دوڑ جائے تو اس کے قدموں کے نشانات اور اس کے لید بھی مالک کے لیے باعث اجر وثواب ہوگی۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پئیے جبکہ مالک نے اسے پانی پلانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں کیا تھا تب بھی مالک کے لیے اجر وثواب کا موجب ہوگا۔ اور جس نے اپنے گھوڑے کا اظہار بے نیازی یا اپنے بچاؤ کی غرض سے باندھا پھر اس کی گردن اور پیٹھ کے متعلق اللہ کے حق کو بھی فراموش نہ کیا تو یہ گھوڑا اس کے لیے پردہ پوشی یعنی اس کے لیے نہ ثواب نہ عذاب کا باعث ہوگا۔ تیسرا وہ شخص جو اپنے گھوڑے کو فخر و ریا کے لیے باندھتا ہے وہ اس کے لیے گناہ کا سبب ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس جامع اور نادر آیت کے علاوہ کچھ نازل نہیں فرمایا ہے: ”جو کوئی ذرہ بھر بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔“
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص چیز کے حکم کو عام کے تحت داخل فرمایا ہے۔ یہ بھی کتاب وسنت سے تمسک (دلیل پکڑنے) کی ہی ایک صورت ہے۔ ہرامرخیر کے لیے اس آیت کو بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب ہے کہ جو کوئی ان گدھوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں باندھے رکھے وہ خیر کاعامل ہے اور وہ قیامت کے دن اس خیر کی جزا دیکھ لے گا اور جو کوئی فخر وریاء اور مسلمانوں سے دشمنی کے لیے انھیں باندھتا ہے وہ شر کا عامل ہے اور اپنے اس شر کی سزا قیامت کے دن پالے گا۔ بہرحال گدھوں کو اپنے کام کے لیے پالنا، پھر انھیں دوسروں کو بطور تعاون دینا باعث خیر وثواب ہے جیسا کہ آیت کریمہ کا تقاضا ہے۔ اسے دلالت شرعی کہا جاتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7081
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7356
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7356
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7356
تمہید کتاب
اس پُر فتن دور میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب عقیدہ و ایمان اور مسائل و احکام میں صرف کتاب و سنت کو مرکز و محور قراردیا جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ)"تم اس(ہدایت)کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے تمھاری طرف نازل کی گئی ہے۔اس کے علاوہ (دوسرے)دوستوں کی پیروی نہ کرو۔ تم بہت کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔"(الاعراف:7/3)بلا شبہ انسانی زندگی کے لیے جو قوانین اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں ہم مسلمانوں کو صرف انھی کا اتباع کرنا چاہیے غیر مسلم قائدین سے کسی طرح کے قواعد و ضوابط در آمد کرنے کی ضرورت نہیں لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین و شریعت کے مسائل معلوم کرنے کے لیے خود ساختہ اراءو قیاسات کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔زہدو رہبانیت کے لیے ہندی اور یونانی فلسفے کی محتاج ہے اپنا معاشی نظام لینن(Lenin)اور کارل مارکس(Korl marx)روس اور چین سے اور سیاسی نظام کے لیے امریکی جمہوریت اسلام میں گھسا لائی ہے حالانکہ انسانی زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کتاب و سنت کافی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے دراصل آپ کا عنوان درج ذیل آیت کریمہ سے ماخوذہے۔(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)آیت کریمہ میں اللہ کی رسی سے مراد دین اسلام یا کتاب و سنت کے احکام ہیں فقہی آراء مقصود نہیں ۔کتاب و سنت کو اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوطی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط کرتا ہے۔کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار یا عداوت پیدا ہو گی۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا دستور حیات قرآ ن و سنت کی واضح شکل میں ہمیں میسر ہے جس کا تعلق وحی الٰہی سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے لازوال اور بے شمار برکتوں سے مالا مال ہے۔لیکن ہمارے دشمنوں نے اس چشمہ رشد و ہدایت سے ہمیں بد ظن اور دور کرنے اور اس کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔مستشرقین نے جہاں براہ راست قرآن کریم کے اسلوب بیان ، ترتیب و تدوین اور تصور وحی و تنزیل کو ہدف تنقید بنایا ہے وہاں ہمارے ہاں اشراق زدہ روشن خیال متجددین نے آزادی تحقیق کے نام پردین کے ایک اہم ماخذ حدیث و سنت کے متعلق شکوک وشبہات بلکہ استہزاء واستخفاف کا رویہ اپنایا ہے حالانکہ حدیث و سنت کی تدوین اپنے دامن میں ایسا استناد اتصال اور تسلسل لیے ہوئے ہے جس کی مثال دینا کے کسی مذہبی یا تاریخی لٹریچر میں نہیں پائی جاتی ۔ہمارے نزدیک حدیث و سنت کی محبت و ضرورت کا انکار دراصل رسالت سے انکار بلکہ دین اسلام کے انکار کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:(وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ)"اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان کردیں جو ان کی طرف اتاری گئی ہیں۔"(النحل:16۔44)ایک دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ منصب رسالت کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔(وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ)"اور ہم نے آپ پر کتاب اس لیے نازل کی ہے تاکہ آپ اس امر کی وضاحت کردیں جس میں انھوں نے اختلاف کر رکھا ہے۔"(النحل:16۔64) ان آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی وضاحت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایک چٹھی رساں کی نہیں جو ایک بند لفافہ اس شخص تک پہنچادیں جسے وہ خط لکھا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمل و کردار اور قول و گفتار سے اس آئین زندگی کی وضاحت کرنا ہے کیونکہ شاہی فرمان کا مطلب مصاحب خاص اور محرم راز سے زیادہ اور کوئی نہیں سمجھ سکتا۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی مجملات کی تفصیل مبہمات کی وضاحت مشکلات کی تفسیر کنایات کی تصریح اور اس کے ارشادات کی توضیح فرمائی ہے۔اپنے عمل سے احکام الٰہی کی تفصیل کا طریقہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کے وامرو نواہی پر مشتمل ایک مکمل نظام زندگی تشکیل دے کر ہمارے حوالے کردیا۔اب قرآن کریم اور اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ان میں سے کسی کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں تمھارےپاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک تم انھیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی طاقت تمھیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری سنت ہے ۔یہ دونوں الگ الگ نہیں کی جاسکتیں حتی کہ حوضِ کوثر کی تقسیم کے وقت یہ دونوں اکٹھی ہوں گی۔"(المستدرک للحاکم 1/93)جن لوگوں نے انھیں الگ کرنا چاہا ان کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائی:"میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگا کربیٹھا ہو اور اس کے پاس میرا امر یا نہی آئے تو وہ کہے:ہم اسے نہیں جانتے،جو ہمیں کتاب اللہ میں ملےگا ہم تواسی کی پیروی کریں گے۔"(جامع الترمذی العلم حدیث 2663)سنت کی ضرورت واہمیت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ )"بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول(کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔"(الاحزاب 21/33)اس آیت کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قرآن کریم کی مجسم تفسیر ہے۔اس آیت کے تناظر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ اس عملی تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھا جائے اور اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔یہی بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے جب ان سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق سوال کیا تھا توع انھوں نے فرمایا:"یہ قرآن ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تھا۔"(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین حدیث 1739(746)خلق میں اقوال وافکار،اعمال وافعال اور تقریرات سب کچھ آجاتا ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول یا عمل ایسا نہ تھا جوقرآن کریم سے باہر ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی"خلق" کو عالم(جہان والوں) کے لیے نمونہ بنایا گیاہے۔اسی خلق کا نام حدیث ہےاور اسی خُلُق کو سنت کہاجاتا ہے۔اس خلق نبوی کے بغیر نہ قرآن سمجھا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل ہی کیا جاسکتا ہے۔جن لوگوں نے خلقِ نبوی کے بغیر قرآن فہمی کی کوشش کی ہے انھوں نے گویا اندھیرے میں تیر چلائے ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے:"لفظ اعتصام ،باب افتعال کا مصدر اور عصمۃ سے ماخوذ ہے۔اس سے مراد اللہ کے ارشاد:(وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا )"اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔"(آل عمران:3/103)کی تعمیل ہے۔ كيونكہ حبل اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔اس پر عمل پیرا ہونے سے مقصود اخروی ثواب حاصل کرنا ہے جیسا کہ رسی سے مقصود کنویں سے پانی کھینچتا ہوتا ہے۔آخرت میں ثواب،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہوکرہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔کتاب سے مراد قرآن مجید ہے جس کی محض تلاوت کرنا بھی عبادت ہے اور سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات ہیں۔لغوی پر لفظ سنت،طریقے پر بولا جاتا ہے اور محدثین کی اصطلاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات پر بولاجاتا ہے۔واضح رہے کہ تقریرات سے مراد ایسے کام ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کیے گئے ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع نہ کیا ہو بلکہ خاموشی اختیار کرکے انھیں ثابت رکھا ہو۔شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ غلطی سے محفوظ صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے،پھر اجماع علماء جوقرآن وسنت کے مطابق ہو۔اس کے علاوہ کوئی بھی غلطی سے محفوظ نہیں۔بہرحال محدثین کے نزدیک شریعت کے اصل مآخذ دو ہیں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے دین کو مکمل کردیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)"آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا"(المآئدۃ 3/5)دین سے مراد شریعت کے تمام اُصول اور احکام وہدایات ہیں اور ان احکام پر عمل پیرا ہونے کا وہ طریقہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کے سامنے پیش کیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے کتاب وسنت کافی ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقف کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے۔اس عنوان کے تحت ایک سوستائیس(127) احادیث پیش کی ہیں جن میں چھبیس (26) معلق اور باقی موصول ہیں،نیز ان میں ایک سودس (110) مکرر اور باقی خالص ہیں۔سات(7) احادیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کی ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ تقریباً سولہ(16) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے آثار بھی پیش کیے ہیں۔انھوں نے ان احادیث پر تقریباً اٹھائیس(28) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن کا بڑی باریک بینی اور دقت نظری سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کاموقف یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرعی احکام کے سلسلے میں سب سے پہلے واضح نصوص کا اتباع کرنا چاہیے،خوامخواہ قیاسات کی تلاش میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اگر کہیں ضرورت محسوس ہوتو مقیس علیہ(جس پر قیاس کیا جائے) واضح اور معلوم ہو،یعنی علت حکم نمایاں ہو،چنانچہ آپ نے ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:(باب من شبه أصلا معلوما بأصل مبين وقد بين النبي صلى الله عليه وسلم حكمهما ليفهم السائل)"ایک معلوم امر کو دوسرے واضح امر سے تشبیہ دینا جبکہ ان دونوں کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہوتاکہ سائل سمجھ جائے۔"حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیاس میں اصل اور علت کو واضح ہوناچاہیے،محض ظن وتخمین پر انحصار نہ کیا جائے،چنانچہ اس کی روک تھام کے لیے یوں عنوان قائم کیا ہے:(بابُ مَا يُذْكَرُ مِنْ ذَمِّ الرَّأيِ وتَكَلُّفِ القِياسِ)"رائے زنی اور خوامخواہ قیاس کرنے کی مذمت کا بیان۔"امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کتاب وسنت میں کسی مسئلے کے متعلق کوئی دلیل نہ مل سکے تو بھی انسان کو فضول قسم کے قیاس اور رائےزنی سے بچتے ہوئے اس سے ملتے جلتے مسائل پر غور کرکے پیش آنے والے مسئلے کا حل تلاش کرناچاہیے۔فرضی قیاسات کو انھوں نے درج ذیل آیت کے مفہوم میں داخل فرمایا:(وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا)"جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے" (بنی اسرائیل:17/36)بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محدثین کے مسلک کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال کی پیروی کرنے پر زوردیا ہے،چنانچہ آپ نے اس سلسلے میں دوعنوان قائم کیے ہیں:(باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّٰهِ صلى الله عليه وسلم)"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔"(ب)۔(باب الاقتداء بأفعال النبي صلى الله عليه وسلم )"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے مطابق عمل کرنا۔"قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا بغورمطالعہ کریں اور اس سلسلے میں ہماری گزارشات کو بھی مد نظر رکھیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے ۔آمین یارب العالمین۔
رسول اللہ ﷺنے گھوڑے وغیرہ کے احکام بیان کئے پھر آپ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے یہ آیت بیان فرمائی کہ ” جو ایک زرہ برابر بھی بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا “ اور آنحضرت ﷺ سے ساہنہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں خود اسے نہیں کھا تا اور ( دوسروں کے لیے ) اسے حرام بھی نہیں قرار دیتا اور آنحضرت ﷺ کے دستر خوان پر ساہنہ کھا یا گیا اور اس سے ابن عباس ؓ نے استدلال کیا کہ وہ حرام نہیں ہے ( یہ بھی دلالت کی مثال ہے یہ حدیث آگے آرہی ہے ) تشریح :دلائل شرعیہ اصول شرع وہ دو ہیں قرآن اور حدیث اور بعضوں نے اجماع اور قیاس کو بھی بڑھا یا ہے لیکن امام الحرمین اور غزالی نے قیاس کو خارج کیا ہے اور سچ یہ ہے کہ قیاس کوئی حجت شرعی نہیں ہے یعنی حجت ملزمہ اس کے لئے کہ ایک مجتہد کا قیاس دوسرے مجتہد کو کافی نہیں ہے تو حجت ملزمہ دو ہی چیزیں ہوئیں کتاب اور سنت ۔ البتہ قیاس حجت مظہرہ ہے یعنی ہر مجتہد جس مسئلہ میں کوئی نص کتا ب اور سنت سے نہ پائے تو اپنے قیاس پر عمل کرسکتا ہے البتہ اجماع حجت ملزمہ ہو سکتا ہے بشر طیکہ اجماع ہو اگر ایک مجتہد کا بھی اس میں خلاف ہو تو اجماع باقی علماءکا حجت نہ ہوگا ۔ دلالت کے معنی یہ ہیں کہ ایک شے جس میں کوئی خاص نص نہ وارد ہو اس کو کسی شے منصوص کے حکم میں داخلکرنا بد لالت عقل ‘ جس کی مثال آگے خود امام بخاری نے بیان کی ہے ( وحیدی )
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا: گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں: ایک شخص کے لیے ان کا رکھنا باعث ثواب ہے۔ دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا سبب اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے وہ اجر کا باعث ہیں یہ وہ شخص ہے جس نے اسے اللہ کے راستے میں باندھے رکھا اور اس کی رسی کو چراگاہ میں دراز کر دیا، وہ گھوڑا جس قدر چراگاہ میں گھوم پھر کر چارا کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔ وہ ایک یا دو بلندیاں دوڑ جائے تو اس کے قدموں کے نشانات اور اس کے لید بھی مالک کے لیے باعث اجر وثواب ہوگی۔ اور اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پئیے جبکہ مالک نے اسے پانی پلانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں کیا تھا تب بھی مالک کے لیے اجر وثواب کا موجب ہوگا۔ اور جس نے اپنے گھوڑے کا اظہار بے نیازی یا اپنے بچاؤ کی غرض سے باندھا پھر اس کی گردن اور پیٹھ کے متعلق اللہ کے حق کو بھی فراموش نہ کیا تو یہ گھوڑا اس کے لیے پردہ پوشی یعنی اس کے لیے نہ ثواب نہ عذاب کا باعث ہوگا۔ تیسرا وہ شخص جو اپنے گھوڑے کو فخر و ریا کے لیے باندھتا ہے وہ اس کے لیے گناہ کا سبب ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس جامع اور نادر آیت کے علاوہ کچھ نازل نہیں فرمایا ہے: ”جو کوئی ذرہ بھر بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔“
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص چیز کے حکم کو عام کے تحت داخل فرمایا ہے۔ یہ بھی کتاب وسنت سے تمسک (دلیل پکڑنے) کی ہی ایک صورت ہے۔ ہرامرخیر کے لیے اس آیت کو بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب ہے کہ جو کوئی ان گدھوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں باندھے رکھے وہ خیر کاعامل ہے اور وہ قیامت کے دن اس خیر کی جزا دیکھ لے گا اور جو کوئی فخر وریاء اور مسلمانوں سے دشمنی کے لیے انھیں باندھتا ہے وہ شر کا عامل ہے اور اپنے اس شر کی سزا قیامت کے دن پالے گا۔ بہرحال گدھوں کو اپنے کام کے لیے پالنا، پھر انھیں دوسروں کو بطور تعاون دینا باعث خیر وثواب ہے جیسا کہ آیت کریمہ کا تقاضا ہے۔ اسے دلالت شرعی کہا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺ نے گھوڑوں وغیرہ کے احکام بیان کیے۔پھر آپ سے گدھوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے اس آیت کریمہ کی طرف رہنمائی فرمائی: ”جو زرہ برابر بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔“ ¤نبی ﷺ سے سانڈے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”میں خود اسے نہیں کھاتا لیکن اسے دوسروں کے لیے حرام بھی قرار نہیں دیتا۔“ نبی ﷺ کے دستر خوان پر سانڈا کھایا گیا، اس سے ابن عباس نے استدلال کیا کیا وہ حرام نہیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے زید بن اسلم نے‘ ان سے ابی صالح السمان نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں۔ ایک شخص کے لیے ان کا ر کھنا کار ثواب ہے‘ دوسرے کے لیے برابر برابر نہ عذاب نہ ثواب اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں۔ جس کے لیے وہ اجبر ہیں یہ وہ شخص ہے جس نے اسے اللہ کے راستے کے لیے باندھ کر رکھا اور اس کی رسی چراہ گاہ میں درازی کر دی تو وہ گھوڑا جتنی دور تک چراہ گاہ میں گھوم کر چرے گا وہ مالک کی نیکیوں میں ترقی کا ذریعہ ہو گا اور اگر گھوڑے نے اس درازی رسی کو بھی تڑوا لیا اور ایک یا دو دوڑ اس نے لگائی تو اس کے نشانات قدم اور اس کی لید بھی مالک کے لیے باعث اجر وثواب ہوگی اور اگر گھوڑا کسی نہر سے گزرا اور اس نے نہر کا پانی پی لیا‘ مالک نے اسے پلانے کا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا تب بھی مالک کے لیے یہ اجر کا باعث ہوگا اور ایسا گھوڑا اپنے مالک کے لیے ثواب ہوتا ہے اور دوسرا شخص برابر برابر والا ہوتا ہے جو گھوڑے کو اظہار بے نیازی یا اپنے بچاؤ کی غرض سے باندھتا ہے اور اس کی پشت اور گردن پر اللہ کے حق کو بھی نہیں بھولتا تو یہ گھوڑا اس کے لیے نہ عذاب ہے نہ ثواب اور تیسرا وہ شخص ہے جو گھوڑے کو فخر اور ریا کے لیے باندھتا ہے تو یہ اس کے لیے وبال جان ہے اور رسول اللہ ﷺ سے گدھوں کے متعلق پوچھا گیا تو آ پ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں مجھ پر اس جامع اور نادر آیت کے سوا اور کچھ نہیں نازل فرمایا ہے۔ ”پس کو کوئی ایک زدرہ برابر بھی بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھے گا اور جو کوئی ایک ذرہ برابر بھی برائی کرے گا وہ اسے دیکھے گا۔“
حدیث حاشیہ:
گدھے پال کر ان سے اپنا کام لینا اور بوجھ وغیرہ اٹھانے کے لیے کسی کو بطور امداد اپنا گدھا دے دینا آیت (فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ) کے تحت باعث خیر وثواب ہوگا صلی اللہ علیہ وسلم نے امر خیر پر اس آیت کو بطور دلیل عام پیش فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Horses may be used for three purposes: For a man they may be a source of reward (in the Hereafter); for another, a means of protection; and for another, a source of sin. The man for whom they are a source of reward, is the one who keeps them for Allah's Cause and ties them with long ropes and lets them graze in a pasture or garden. Whatever those long ropes allow them to eat of that pasture or garden, will be written as good deeds for him and if they break their ropes and run one or two rounds, then all their footsteps and dung will be written as good deeds for him, and if they pass a river and drink from it though he has had no intention of watering them, even then, that will be written as good deeds for him. So such horses are a source of reward for that man. For the man who keeps horses for his livelihood in order not to ask others for help or beg his bread, and at the same time he does not forget Allah's right of what he earns through them and of their backs (that he presents it to be used in Allah's Cause), such horses are a shelter for him (from poverty). For the man who keeps them just out of pride and for showing off, they are a source of sin." Then Allah's Apostle (ﷺ) was asked about donkeys. He said, "Allah has not revealed anything to me regarding them except this comprehensive Verse: "Then anyone who has done good, equal to the weight of an atom (or a small ant) shall see it, and any one who has done evil, equal to the weight of an atom (or a small ant) shall see it." (99.7-8)