کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
نبی کریم ﷺ کا ارشاد کہ قرآن کا ماہر ( جید حافظ ) ( قیامت کے دن ) لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا جو عزت والے اور اللہ کے تابعدار ہیں (اور یہ فرمانا) کہ قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “A person who is perfect in reciting and memorizing the Qur'an will be with the honourable, pious and just scribes.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7548.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے عبداللہ بن عبدالرحمن سے کہا: میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریاں اور جنگل بہت پسند کرتے ہو، لہذا جب تم اپنی بکریوں یا جنگل میں رہو تو بلند آواز سے اذان کہو کیونکہ مؤذن کی اذان جہاں تک پہنچے گی اوراسے جن وانس اور دوسری جو چیزیں بھی سنیں گی وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گی۔ سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔
تشریح:
اس حدیث سے بلند آواز سے اذان دینے کابیان ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ قراءت اور چیز ہے اورقرآن اور چیز ہے کیونکہ قراءت ہی بلند اور پست جیسی صفات سے متصف ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ قاری کی صفت اور مخلوق ہے جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کی صفت اور غیر مخلوق ہے۔ بہرحال بندوں کی آواز ان کا فعل ہے جس پر اسے ثواب کا حقدار ٹھرایا جائے گا جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ واللہ أعلم۔
قرآن مجید کو فصاحت وبلاغت کےساتھ جاننے ،الفاظ کے ساتھ اس کے معانی سمجھنے اور اچھی طرح رقت آمیز آواز سے اس کی تلاوت کرنے والا قرآن کا ماہرکہلاتا ہے۔اسی طرح اپنی آوازوں سے قرآن کومزین کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو مداور ترتیل سے اس طرح پڑھا جائے کہ حد غنا کو نہ پہنچے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ تلاوت اور حفظ کئی طرح سے ہوتا ہے۔کوئی جید،کوئی غیر جید،کوئی خوش آواز اور کوئی اس کے برعکس۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت اور حفظ قاری کی صفت ہے اور یہ مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام جید ہی ہے اور سے خوش الحانی سے پڑھنے کا حکم ہے،نیز اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے عبداللہ بن عبدالرحمن سے کہا: میں تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم بکریاں اور جنگل بہت پسند کرتے ہو، لہذا جب تم اپنی بکریوں یا جنگل میں رہو تو بلند آواز سے اذان کہو کیونکہ مؤذن کی اذان جہاں تک پہنچے گی اوراسے جن وانس اور دوسری جو چیزیں بھی سنیں گی وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گی۔ سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے کہا: میں نے یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بلند آواز سے اذان دینے کابیان ہے ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ قراءت اور چیز ہے اورقرآن اور چیز ہے کیونکہ قراءت ہی بلند اور پست جیسی صفات سے متصف ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ قاری کی صفت اور مخلوق ہے جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کی صفت اور غیر مخلوق ہے۔ بہرحال بندوں کی آواز ان کا فعل ہے جس پر اسے ثواب کا حقدار ٹھرایا جائے گا جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم مجھ سے امام مالک نے بیان کا، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور انہیں ابو سعید خدری ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے ان سے کہا میرا خیال ہے کہ تم بکریوں کو اور جنگل کو پسند کرتے ہو۔ پس جب تم اپنی بکریوں میں یا جنگل میں ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو بلند آواز کے ساتھ دو کیونکہ مؤذن کی آواز جہاں تک بھی پہنچے گی اور اسے جن و انس اور دوسری جو چیزیں بھی سنیں گی وہ قیامت کے دن اس کی گواہی دیں گی۔ ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ میں نے اس حدیث کو رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس باب کی پہلی حدیث میں قرآن کواچھی آواز سے زینت دینےکا، دوسری حدیث میں اس کی تلاوت کا، تیسری حدیث میں قراءت کی عمدگی خوش آوازی کا، چوتھی حدیث میں قراءت بلند یاپست آواز سےکرنے کا، پانچویں حدیث میں اذان بلند آواز سےدینے کا بیان ہے۔ ان سب احادیث سےامام بخاری نے یہ نکالا کہ قراءت اورچیز ہے قرآن اورچیز ہے۔ قراءت ان صفات سے متصف ہوتی ہے اس سےمعلوم ہوا کہ وہ قاری کی صفت اورمخلوق ہے برخلاف قرآن کے کہ وہ اللہ کا کلام اورغیر مخلوق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Abdur-Rahman: that Abu Sa'id Al-Khudri said to him, "I see that you like sheep and the desert, so when you are looking after your sheep or when you are in the desert and want to pronounce the Adhan, raise your voice, for no Jinn, human being or any other things hear the Mu'adh-dhin's voice but will be a witness for him on the Day of Resurrection." Abu Sa'id added, "I heard this from Allah's Apostle."