Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To prostrate on the nose and in the mud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
813.
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے پاس جا کر میں نے عرض کیا کہ تبادلہ خیالات کے لیے آپ اس نخلستان میں ہمارے ساتھ کیوں نہیں جاتے؟ چنانچہ آپ نکلے۔ میں نے عرض کیا کہ شب قدر کے متعلق آپ نے نبی ﷺ سے جو سنا ہے اسے بیان کریں۔ انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے لیکن حضرت جبریل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ جس چیز کے آپ متلاشی ہیں وہ آگے ہے، چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے کا اعتکاف فرمایا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے۔ حضرت جبریل ؑ دوبارہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ آپ جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ آگے ہیں۔ پھر نبی ﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ ارشاد فرمایا اور حکم دیا: ’’جو شخص نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ چکا ہے وہ دوبارہ اعتکاف کرے کیونکہ مجھے شب قدر خواب میں دکھا دی گئی لیکن اس کا تعین مجھے بھلا دیا گیا البتہ وہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے۔ میں نے خود کو خواب میں مٹی اور پانی میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔‘‘ ان دنوں مسجد کی چھت کھجور کی ٹہنیوں کی تھی۔ ہم آسمان پر کوئی ابر وغیرہ نہیں دیکھتے تھے، یعنی مطلع بالکل صاف تھا، اتنے میں ایک بادل کا ٹکڑا آیا اور ہم پر برسنے لگا۔ پھر نبی ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی تاآنکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کے نشانات دیکھے۔ یہ آپ کے خواب کی تصدیق تھی۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا یہ طویل حدیث بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ سجدے میں ناک کو زمین پر رکھنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کیچڑ آلود ہونے کے باوجود اپنی ناک کو زمین پر لگایا ہے اور کیچڑ وغیرہ کی کوئی پروا نہیں کی۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ناک پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں پہلے عنوان میں کچھ عموم تھا، اس باب میں عمومیت کو خاص کر دیا گیا ہے۔ گویا آپ نے اشارہ کیا ہے کہ ناک پر سجدہ کرنا امر مؤکد ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے عذر معقول کے باوجود اسے ترک نہیں کیا بلکہ ناک پر سجدہ کرنے کا اہتمام فرمایا۔ جو حضرات اس حدیث کی بنا پر ناک پر سجدہ کرنے کو کافی خیال کرتے ہیں ان کا موقف صحیح نہیں کیونکہ سیاق حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشانی اور ناک پر سجدہ فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوران سجدہ میں پیشانی اور ناک کو زمین پر لگانا ضروری ہے۔ اگر اس میں کچھ رخصت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ کم از کم اپنی پیشانی اور ناک کو کیچڑ سے آلودہ نہ ہونے دیتے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر دوران نماز میں نمازی کی پیشانی پر زمین کی گردوغبار لگ جائے تو نماز ہی میں اسے صاف کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ (فتح الباري:386/2) (3) اس حدیث کے متعلقہ دیگر مباحث کو ہم کتاب فضل لیلة القدر (حدیث: 2016) میں بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
804
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
813
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
813
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
813
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے پاس جا کر میں نے عرض کیا کہ تبادلہ خیالات کے لیے آپ اس نخلستان میں ہمارے ساتھ کیوں نہیں جاتے؟ چنانچہ آپ نکلے۔ میں نے عرض کیا کہ شب قدر کے متعلق آپ نے نبی ﷺ سے جو سنا ہے اسے بیان کریں۔ انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے لیکن حضرت جبریل ؑ آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ جس چیز کے آپ متلاشی ہیں وہ آگے ہے، چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے کا اعتکاف فرمایا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ گئے۔ حضرت جبریل ؑ دوبارہ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ آپ جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ آگے ہیں۔ پھر نبی ﷺ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ ارشاد فرمایا اور حکم دیا: ’’جو شخص نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اعتکاف بیٹھ چکا ہے وہ دوبارہ اعتکاف کرے کیونکہ مجھے شب قدر خواب میں دکھا دی گئی لیکن اس کا تعین مجھے بھلا دیا گیا البتہ وہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہے۔ میں نے خود کو خواب میں مٹی اور پانی میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔‘‘ ان دنوں مسجد کی چھت کھجور کی ٹہنیوں کی تھی۔ ہم آسمان پر کوئی ابر وغیرہ نہیں دیکھتے تھے، یعنی مطلع بالکل صاف تھا، اتنے میں ایک بادل کا ٹکڑا آیا اور ہم پر برسنے لگا۔ پھر نبی ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی تاآنکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کے نشانات دیکھے۔ یہ آپ کے خواب کی تصدیق تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا یہ طویل حدیث بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ سجدے میں ناک کو زمین پر رکھنا ضروری ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کیچڑ آلود ہونے کے باوجود اپنی ناک کو زمین پر لگایا ہے اور کیچڑ وغیرہ کی کوئی پروا نہیں کی۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ ناک پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں پہلے عنوان میں کچھ عموم تھا، اس باب میں عمومیت کو خاص کر دیا گیا ہے۔ گویا آپ نے اشارہ کیا ہے کہ ناک پر سجدہ کرنا امر مؤکد ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے عذر معقول کے باوجود اسے ترک نہیں کیا بلکہ ناک پر سجدہ کرنے کا اہتمام فرمایا۔ جو حضرات اس حدیث کی بنا پر ناک پر سجدہ کرنے کو کافی خیال کرتے ہیں ان کا موقف صحیح نہیں کیونکہ سیاق حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پیشانی اور ناک پر سجدہ فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوران سجدہ میں پیشانی اور ناک کو زمین پر لگانا ضروری ہے۔ اگر اس میں کچھ رخصت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ کم از کم اپنی پیشانی اور ناک کو کیچڑ سے آلودہ نہ ہونے دیتے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر دوران نماز میں نمازی کی پیشانی پر زمین کی گردوغبار لگ جائے تو نماز ہی میں اسے صاف کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ (فتح الباري:386/2) (3) اس حدیث کے متعلقہ دیگر مباحث کو ہم کتاب فضل لیلة القدر (حدیث: 2016) میں بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انہوں نے بیان کیا کہ میں ابوسعید خدری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کی کہ فلاں نخلستان میں کیوں نہ چلیں سیر بھی کریں گے اور کچھ باتیں بھی کریں گے۔ چنانچہ آپ تشریف لے چلے۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے راہ میں کہا کہ شب قدر سے متعلق آپ نے اگر کچھ نبی ﷺ سے سنا ہے تو اسے بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھ گئے، لیکن جبریل ؑ نے آکر بتایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں ( شب قدر ) وہ آگے ہے۔ چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف کیا اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی۔ جبریل ؑ دوبارہ آئے اور فرمایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں وہ ( رات ) آگے ہے۔ پھر آپ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ دوبارہ کرے۔ کیوں کہ شب قدر مجھے معلوم ہوگئی لیکن میں بھول گیا اور وہ آخری عشر ہ کی طاق راتوں میں ہے اور میں نے خود کو کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا۔ مسجد کی چھت کھجور کی ڈالیوں کی تھی۔ مطلع بالکل صاف تھا کہ اتنے میں ایک پتلا سا بادل کا ٹکڑا آیا اور برسنے لگا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ہم کو نماز پڑھائی اور میں نے رسول اللہ ﷺ کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کا اثر دیکھا۔ آپ کا خواب سچا ہوگیا۔
حدیث حاشیہ:
کہ میں اس شب پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ آپ ﷺ نے پیشانی اور ناک پر سجدہ کیا۔ حمیدی نے اس حدیث سے دلیل لی کہ پیشانی اور ناک میں اگر مٹی لگ جائے تو نماز میں نہ پونچھے۔ حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہ ہے کہ سجدے میں ناک کو زمین پر رکھنا ضروری ہے کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے زمین تر ہونے کے باوجود ناک زمین پر لگائی اور کیچڑ کی کچھ پرواہ نہ کی۔ ( صلی اللہ علیه وسلم )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salama (RA): Once I went to Abu- Sa'id Al-Khudri and asked him, "Won't you come with us to the date-palm trees to have a talk?" So Abu Said went out and I asked him, "Tell me what you heard from the Prophet (ﷺ) about the Night of Qadr." Abu Said replied, "Once Allah's Apostle (ﷺ) performed I'tikaf (seclusion) on the first ten days of the month of Ramadan and we did the same with him. Gabriel (ؑ) came to him and said, 'The night you are looking for is ahead of you.' So the Prophet (ﷺ) performed the I'tikaf in the middle (second) ten days of the month of Ramadan and we too performed I'tikaf with him. Gabriel (ؑ) came to him and said, 'The night which you are looking for is ahead of you.' In the morning of the 20th of Ramadan the Prophet (ﷺ) delivered a sermon saying, 'Whoever has performed I'tikaf with me should continue it. I have been shown the Night of "Qadr", but have forgotten its date, but it is in the odd nights of the last ten nights. I saw in my dream that I was prostrating in mud and water.' In those days the roof of the mosque was made of branches of date-palm trees. At that time the sky was clear and no cloud was visible, but suddenly a cloud came and it rained. The Prophet (ﷺ) led us in the prayer and I saw the traces of mud on the forehead and on the nose of Allah's Apostle. So it was the confirmation of that dream."