Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The superiority of knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے اللہ ان کے درجات بلند کرے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ طہ میں ) فرمایا ( کہ یوں دعا کیا کرو ) پروردگار مجھ کو علم میں ترقی عطا فرما۔حضرت امام قدس سرہ نے فضیلت علم کے بارے میں قرآن مجید کی ان دوآیات ہی کو کافی سمجھا، اس لیے کہ پہلی آیت میں اللہ پاک نے خوداہل علم کے لیے بلنددرجات کی بشارت دی ہے اور دوسری میں علمی ترقی کے لیے دعا کرنے کی ہدایت کی گئی۔ نیز پہلی آیت میں ایمان وعلم کا رابطہ مذکور ہے اور ایمان کو علم پر مقدم کیا گیا ہے۔ جس میں حضرت امام قدس سرہ کے حسن ترتیب بیان پر بھی ایک لطیف اشارہ ہے کیونکہ آپ نے بھی پہلے کتاب الایمان پھر کتاب العلم کا انعقاد فرمایا ہے۔ آیت میں ایمان اور علم ہردو کو ترقی درجات کے لیے ضروری قراردیا۔ درجات جمع سالم اور نکرہ ہونے کی وجہ سے غیرمعین ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان درجات کی کوئی حد نہیں جواہل علم کو حاصل ہوں گے۔
82.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’میں ایک مرتبہ سو رہا تھا کہ میرے سامنے دودھ کا پیالہ لایا گیا۔ میں نے اسے پی لیا یہاں تک کہ سیرابی میرے ناخنوں سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن خطاب ؓ کو دے دیا۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ نے فرمایا: ’’اس کی تعبیر ’’علم‘‘ ہے۔‘‘
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ ضرورت سے زائد علوم کاسیکھنا تضییع اوقات نہیں بلکہ فضیلت کی چیزہے۔ ضروری نہیں کہ انسان وہی کچھ سیکھے جو اس کی ذاتی عملی زندگی کے لیے کارآمد ہو بلکہ وہ احکام ومسائل سیکھنے بھی ضروری ہیں جو مکلف کی اپنی ذات سے متعلق نہ ہوں تاکہ دوسروں کی دینی ضروریات کوپوراکرکے ثواب دارین حاصل کیا جائے، اس لیے ضرورت سے زائد علم کی تحصیل کے لیے وقت صرف کرنا قابل مدح فعل ہے۔ اور اس کے لیے سفر کرنا بھی ممدوح ہے۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواب میں دودھ پینے کی تعبیر علم کا حصول ہے، نیز اگردودھ کی سیرابی ناخنوں میں دیکھے تو اس سے علم کی سیرابی مراد لی جاسکتی ہے۔ بھرے ہوئے دودھ کے پیالے سے مراد علم تام ہے۔ دودھ سے شکم سیری سے مراد مجسمہ علم وعرفان بن جانا ہے۔ 3۔ فاضل از حاجت کے ساتھ وہی عمل کرنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ علم جس قدر حاصل کر سکتے ہو کیونکہ یہ اللہ کا انعام وفضل ہے۔ بقدر ضرورت خود فائدہ اٹھاؤ اور زائد کو دوسروں کی ضروریات میں صرف کرو۔ تعلیم کا سلسلہ شروع کرو، علاقے میں تبلیغ کا فیضان جاری کرو، لوگوں کے جھگڑے شریعت کے مطابق نمٹاؤ، ہنگامی مسائل کے لیے فتاویٰ دو۔ الغرض بے شمار مقاصد ہیں جن کے لیے زائد علم کی ضرورت ہے۔ جس قدر علم زائد ہوگا اسی قدر قلب میں بصیرت اور روح میں تازگی ہوگی۔ 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بچا ہوا دودھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمایا اوراس کی تعبیر بھی علم سے فرمادی۔ شاید ہی دین کا کوئی باب ایسا ہو جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت یا اثر نہ ملتا ہو۔ مسائل واحکام، فضائل وآداب تک سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علوم حاوی ہیں۔ بعض لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس فضیلت کا توڑ کرنے کے لیے’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کادروازہ ہے‘‘ جیسی خود ساختہ حدیث بنا ڈالی۔ اس مقام پر یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو صدیق اکبر ہی ہیں، ان سے کسی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
82
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
82
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
82
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
82
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
1۔بخاری کے بعض نسخوں میں اس عنوان کا ذکر نہیں ، اس بنا پر قرآنی آیات کتاب العلم سے متعلق ہیں کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ جب کوئی کتاب شروع کرتے ہیں تو پہلے کوئی مناسب آیت لاتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آئندہ ابواب کی بنیاد یہی آیت کریمہ ہے لیکن ہمارے نسخے میں اس عنوان کا ذکر ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ علم کی فضیلت معلوم ہو جائے کیونکہ جب تک کسی چیز کی فضیلت نہ ہو اس کی طرف شوق و رغبت کا پیدا ہونا مشکل ہوتا ہے اس لیے توجہ دلانے کے لیے سب سے پہلے علم کی فضیلت بیان فرمائی۔2۔پہلی آیت سے علم کی فضیلت اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ آیت کریمہ میں ترقی درجات کے متعلق دو امرمذکور ہیں ایمان اور علم مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کے درجات بلند ہوں گے اور اہل ایمان میں سے وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں خصوصی اعزاز کے حامل ہوں گے ۔ دوسری آیت سے فضیلت علم اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم الخلائق ہیں اس کے باوجود انھیں مزید علم طلب کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔اس کے علاوہ آپ کو کسی چیز کے متعلق طلب زیادت کا حکم نہیں دیا گیا۔اس سے معلوم ہوا کہ علم کی بڑی فضیلت ہے۔3۔مصنف نے فضیلت علم کے متعلق کسی حدیث کا استخراج نہیں کیا۔اس کی وجہ یہ نہیں کہ انھیں کوئی ایسی حدیث دستیاب نہیں ہو سکی جو ان کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری اترتی ہو یا انہیں حدیث کے اندراج کا موقع ہی نہ ملا یہ بے سروپاباتیں ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ دلائل کی دنیا میں قرآنی آیات سب سے قوی دلیلیں ہیں، احادیث کے مقابلے میں ان کا وزن زیادہ ہے ویسے فضیلت علم کے متعلق بے شمار صحیح احادیث ہیں جن میں سے ایک یہ ہے۔"جو شخص تلاش علم کے لیے کوئی راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔"( مسند احمد 2/252و۔فتح الباری:1/187۔)4۔فضیلت دو طرح کی ہوتی ہے معیار کے لحاظ سے اور مقدار کے اعتبار سے، اس باب میں فضیلت معیار کے لحاظ سے بیان کی گئی ہے چند ابواب کے بعد ایک اور باب فضل العلم سے متعلق ہے وہاں ایک حدیث کا حوالہ بھی ہے جو فضیلت علم پر دلالت کرتی ہے۔آئندہ باب میں مقدار کے اعتبار سے فضیلت علم کا بیان ہے۔ گویا پہلا باب فضل بمعنی فضیلت اور دوسراباب فضل بمعنی فاضل(زائد) ہے لہٰذا ان دونوں ابواب کو تکرار کا نام نہیں دینا چاہیے بلکہ اس تفنن پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ داؤد تعریف کے حق دار ہیں۔( فتح الباری:1/237۔)
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
جو تم میں ایماندار ہیں اور جن کو علم دیا گیا ہے اللہ ان کے درجات بلند کرے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ طہ میں ) فرمایا ( کہ یوں دعا کیا کرو ) پروردگار مجھ کو علم میں ترقی عطا فرما۔حضرت امام قدس سرہ نے فضیلت علم کے بارے میں قرآن مجید کی ان دوآیات ہی کو کافی سمجھا، اس لیے کہ پہلی آیت میں اللہ پاک نے خوداہل علم کے لیے بلنددرجات کی بشارت دی ہے اور دوسری میں علمی ترقی کے لیے دعا کرنے کی ہدایت کی گئی۔ نیز پہلی آیت میں ایمان وعلم کا رابطہ مذکور ہے اور ایمان کو علم پر مقدم کیا گیا ہے۔ جس میں حضرت امام قدس سرہ کے حسن ترتیب بیان پر بھی ایک لطیف اشارہ ہے کیونکہ آپ نے بھی پہلے کتاب الایمان پھر کتاب العلم کا انعقاد فرمایا ہے۔ آیت میں ایمان اور علم ہردو کو ترقی درجات کے لیے ضروری قراردیا۔ درجات جمع سالم اور نکرہ ہونے کی وجہ سے غیرمعین ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان درجات کی کوئی حد نہیں جواہل علم کو حاصل ہوں گے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’میں ایک مرتبہ سو رہا تھا کہ میرے سامنے دودھ کا پیالہ لایا گیا۔ میں نے اسے پی لیا یہاں تک کہ سیرابی میرے ناخنوں سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن خطاب ؓ کو دے دیا۔‘‘ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ نے فرمایا: ’’اس کی تعبیر ’’علم‘‘ ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ ضرورت سے زائد علوم کاسیکھنا تضییع اوقات نہیں بلکہ فضیلت کی چیزہے۔ ضروری نہیں کہ انسان وہی کچھ سیکھے جو اس کی ذاتی عملی زندگی کے لیے کارآمد ہو بلکہ وہ احکام ومسائل سیکھنے بھی ضروری ہیں جو مکلف کی اپنی ذات سے متعلق نہ ہوں تاکہ دوسروں کی دینی ضروریات کوپوراکرکے ثواب دارین حاصل کیا جائے، اس لیے ضرورت سے زائد علم کی تحصیل کے لیے وقت صرف کرنا قابل مدح فعل ہے۔ اور اس کے لیے سفر کرنا بھی ممدوح ہے۔ 2۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواب میں دودھ پینے کی تعبیر علم کا حصول ہے، نیز اگردودھ کی سیرابی ناخنوں میں دیکھے تو اس سے علم کی سیرابی مراد لی جاسکتی ہے۔ بھرے ہوئے دودھ کے پیالے سے مراد علم تام ہے۔ دودھ سے شکم سیری سے مراد مجسمہ علم وعرفان بن جانا ہے۔ 3۔ فاضل از حاجت کے ساتھ وہی عمل کرنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ علم جس قدر حاصل کر سکتے ہو کیونکہ یہ اللہ کا انعام وفضل ہے۔ بقدر ضرورت خود فائدہ اٹھاؤ اور زائد کو دوسروں کی ضروریات میں صرف کرو۔ تعلیم کا سلسلہ شروع کرو، علاقے میں تبلیغ کا فیضان جاری کرو، لوگوں کے جھگڑے شریعت کے مطابق نمٹاؤ، ہنگامی مسائل کے لیے فتاویٰ دو۔ الغرض بے شمار مقاصد ہیں جن کے لیے زائد علم کی ضرورت ہے۔ جس قدر علم زائد ہوگا اسی قدر قلب میں بصیرت اور روح میں تازگی ہوگی۔ 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بچا ہوا دودھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمایا اوراس کی تعبیر بھی علم سے فرمادی۔ شاید ہی دین کا کوئی باب ایسا ہو جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت یا اثر نہ ملتا ہو۔ مسائل واحکام، فضائل وآداب تک سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علوم حاوی ہیں۔ بعض لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس فضیلت کا توڑ کرنے کے لیے’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کادروازہ ہے‘‘ جیسی خود ساختہ حدیث بنا ڈالی۔ اس مقام پر یہ وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو صدیق اکبر ہی ہیں، ان سے کسی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
ترجمۃ الباب:
Normal
0
false
false
false
EN-US
X-NONE
AR-SA
/* Style Definitions */
table.MsoNormalTable
{mso-style-name:"Table Normal";
mso-tstyle-rowband-size:0;
mso-tstyle-colband-size:0;
mso-style-noshow:yes;
mso-style-priority:99;
mso-style-parent:"";
mso-padding-alt:0in 5.4pt 0in 5.4pt;
mso-para-margin-top:0in;
mso-para-margin-right:0in;
mso-para-margin-bottom:8.0pt;
mso-para-margin-left:0in;
line-height:107%;
mso-pagination:widow-orphan;
font-size:11.0pt;
font-family:"Calibri",sans-serif;
mso-ascii-font-family:Calibri;
mso-ascii-theme-font:minor-latin;
mso-hansi-font-family:Calibri;
mso-hansi-theme-font:minor-latin;
mso-bidi-font-family:Arial;
mso-bidi-theme-font:minor-bidi;}
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو درجات کے اعتبار سے بلندی عطا فرمائے گا جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ اس کے علاوہ فرمان الٰہی ہے: ’’(آپ کہہ دیجیے: ) میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے لیث نے، ان سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، وہ حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتی کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ ؓ نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ ﷺ نے فرمایا علم۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "While I was sleeping, I saw that a cup full of milk was brought to me and I drank my fill till I noticed (the milk) its wetness coming out of my nails. Then I gave the remaining milk to 'Umar Ibn Al-Khattab" The companions of the Prophet (ﷺ) asked, "What have you interpreted (about this dream)?”O Allah's Apostle,!" he replied, "(It is religious) knowledge."