باب:اس بیان میں کہ استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: To be furious while preaching or teaching if one sees what one hates)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
92.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ سے چند ایسی باتیں پوچھی گئیں جو آپ کے مزاج کے خلاف تھی۔ جب اس قسم کے سوالات کی آپ کے سامنے تکرار کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا، پھر لوگوں سے فرمایا: ’’اچھا جو چاہو مجھ سے پوچھو۔‘‘ اس پر ایک شخص نے عرض کیا: میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تیرا باپ حذافہ ہے۔‘‘ پھر دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تیرا باپ سالم ہے جو شیبہ کا غلام ہے۔‘‘ پھر جب حضرت عمر ؓ نے آپ کے چہرہ مبارک پر آثار غضب دیکھے تو کہنے لگے: یا رسول اللہ! ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں۔
تشریح:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں منافقین بھی ہوتے تھے۔ وہ آپ سے ناگفتہ بہ سوالات کرتے۔ ایک دن بے تکے سوالات شروع ہوئے توآپ نے فرمایا کہ آج تمہیں جو کچھ پوچھنا ہے پوچھ لو۔ آپ نے یہ بات غصے میں فرمائی، اس لیے ہرسوال پر غصہ بڑھتا گیا۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ کو لوگ ان کے نسب کے متعلق بہت چڑایا کرتے تھے۔ انھوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے سوال کردیا کہ میرا باپ کون ہے؟ پھر حضرت سعد بن سالم مولی شیبہ نے بھی اس قسم کا سوال کرڈالا۔ اگرچہ بشر ہونے کی حیثیت سے آپ غیب دان نہیں تھے لیکن اللہ کے برگزیدہ رسول ہونے کی حیثیت سے وحی کے ذریعے سے ایسے احوال سے آگاہی ہوجاتی جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے چہرہ انورسے غصے کا اندازہ لگایا تودیگر حاضرین کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسے سوالات سے بازرہنے کا وعدہ فرمایا۔ 2۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت غصہ دیکھ کر دوزانو بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 93) ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معذرت کی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے اور دوزانو بیٹھ کر مذکورہ الفاظ بھی کہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 247/1)۔ 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کثرت سوالات اور لایعنی تکلفات ایک مکروہ عمل ہے، نیز کسی صاحب علم سے لغو اوربے ہودہ سوالات کرنا سراسر نادانی اور جہالت ہے کیونکہ اس قسم کے سوالات کا انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
92
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
92
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
92
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
92
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ سے چند ایسی باتیں پوچھی گئیں جو آپ کے مزاج کے خلاف تھی۔ جب اس قسم کے سوالات کی آپ کے سامنے تکرار کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا، پھر لوگوں سے فرمایا: ’’اچھا جو چاہو مجھ سے پوچھو۔‘‘ اس پر ایک شخص نے عرض کیا: میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تیرا باپ حذافہ ہے۔‘‘ پھر دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تیرا باپ سالم ہے جو شیبہ کا غلام ہے۔‘‘ پھر جب حضرت عمر ؓ نے آپ کے چہرہ مبارک پر آثار غضب دیکھے تو کہنے لگے: یا رسول اللہ! ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں منافقین بھی ہوتے تھے۔ وہ آپ سے ناگفتہ بہ سوالات کرتے۔ ایک دن بے تکے سوالات شروع ہوئے توآپ نے فرمایا کہ آج تمہیں جو کچھ پوچھنا ہے پوچھ لو۔ آپ نے یہ بات غصے میں فرمائی، اس لیے ہرسوال پر غصہ بڑھتا گیا۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ کو لوگ ان کے نسب کے متعلق بہت چڑایا کرتے تھے۔ انھوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے سوال کردیا کہ میرا باپ کون ہے؟ پھر حضرت سعد بن سالم مولی شیبہ نے بھی اس قسم کا سوال کرڈالا۔ اگرچہ بشر ہونے کی حیثیت سے آپ غیب دان نہیں تھے لیکن اللہ کے برگزیدہ رسول ہونے کی حیثیت سے وحی کے ذریعے سے ایسے احوال سے آگاہی ہوجاتی جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے چہرہ انورسے غصے کا اندازہ لگایا تودیگر حاضرین کی نمائندگی کرتے ہوئے ایسے سوالات سے بازرہنے کا وعدہ فرمایا۔ 2۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحالت غصہ دیکھ کر دوزانو بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 93) ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معذرت کی جیسا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے اور دوزانو بیٹھ کر مذکورہ الفاظ بھی کہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري: 247/1)۔ 3۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کثرت سوالات اور لایعنی تکلفات ایک مکروہ عمل ہے، نیز کسی صاحب علم سے لغو اوربے ہودہ سوالات کرنا سراسر نادانی اور جہالت ہے کیونکہ اس قسم کے سوالات کا انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابو بردہ سے اور وہ ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ ﷺ کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ ﷺ پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ ﷺ نے لوگوں سے فرمایا (اچھا اب) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شبیہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر حضرت عمر ؓ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! ہم (ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں) اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
لغو اور بے ہودہ سوال کسی صاحب علم سے کرنا سراسر نادانی ہے۔ پھر اللہ کے رسول سے اس قسم کا سوال کرنا تو گویا بہت ہی بے ادبی ہے۔ اسی لیے اس قسم کے بے جا سوالات پر آپ نے غصہ میں فرمایا کہ جو چاہو دریافت کرو۔ اس لیے کہ اگرچہ بشر ہونے کے لحاظ سے آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے۔ مگر اللہ کا برگزیدہ پیغمبرہونے کی بنا پر وحی والہام سے اکثر احوال آپ کو معلوم ہوجاتے تھے، یا معلوم ہو سکتے تھے جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہیں مانتے ہو تو اب جوچاہو پوچھو، مجھ کو اللہ کی طرف سے جو جواب ملے گا تم کو بتلاؤں گا۔ آپ کی خفگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر حاضرین کی نمائندگی فرماتے ہوئے ایسے سوالات سے باز رہنے کا وعدہ فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) was asked about things which he did not like, but when the questioners insisted, the Prophet (ﷺ) got angry. He then said to the people, "Ask me anything you like." A man asked, "Who is my father?" The Prophet (ﷺ) replied, "Your father is Hudhafa." Then another man got up and said, "Who is my father, O Allah's Apostle?" He replied, "Your father is Salim, Maula (the freed slave) of Shaiba." So when 'Umar saw that (the anger) on the face of the Prophet (ﷺ) he said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We repent to Allah (Our offending you)."