باب: جب امام خطبہ دے رہا ہو اور کوئی مسجد میں آئے تو ہلکی سی دو رکعت نماز پڑھ لے۔
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: When the Imam is delivering the Khutba, a light two Rak'a Salat (prayer) (Tahayyat-ul Masjid))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
931.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک شخص اس وقت آیا جب نبی ﷺ خطبہ ارشاد فر رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا: ’’کیا تو نے نماز پڑھی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ’’(کھڑے ہو کر) دو رکعتیں پڑھو۔‘‘
تشریح:
(1) علامہ زین بن منیر ؒ مذکورہ عنوانات میں بایں الفاظ فرق بیان کرتے ہیں کہ پہلے عنوان میں آنے والے کو دو رکعت ادا کرنے کا حکم دینا اس بات سے مشروط ہے کہ امام اسے دوران خطبہ میں دیکھے اور اس سے پوچھے کہ تو نے نماز پڑھی ہے یا نہیں اور یہ سب معاملات خطیب کے ساتھ خاص ہیں۔ دوسرا عنوان مسجد میں آنے والے سے متعلق ہے کہ اسے چاہیے کہ دوران خطبہ میں دو رکعت پڑھ کر خطبہ سننے کے لیے بیٹھے۔ امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوانات میں ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھا ہے، حالانکہ دونوں میں حدیث ایک ہی بیان کی ہے، (فتح الباري:530/2) نیز اس عنوان میں ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ پیش کردہ حدیث میں اس قسم کی کوئی وضاحت نہیں ہے؟ اصل میں امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ عنوان کے ذریعے سے کسی ایسی حدیث کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہے لیکن ان کی شرائط کے مطابق نہیں ہوتی، چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2018 (875)) (2) دوران خطبہ میں آنے والا شخص سلیک بن ہدیہ غطفانی تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی روایات میں اس کی صراحت ہے۔ بعض روایات میں آنے والے کا نام نعمان بن نوفل بتایا گیا ہے لیکن محدثین نے اسے کسی راوی کا وہم قرار دیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دوران خطبہ میں حضرت ابوذر ؓ آئے تھے تو آپ نے انہیں دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ اس روایت میں ابن لبیعہ راوی نے ’’دوران خطبہ میں‘‘ کے الفاظ شاذ طور پر بیان کر دیے ہیں کیونکہ محفوظ الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ابوذر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جبکہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ قیس قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا تھا۔ اس سے مراد بھی سلیک ہے کیونکہ قبیلۂ غطفان قیس کی ایک شاخ ہے۔ ابن بشکوال نے اس آدمی کا نام ابو ہدیہ لکھا ہے۔ اگر یہ الفاظ محفوظ ہیں تو ممکن ہے کہ سلیک ؓ کی کنیت ابو ہدیہ ہو۔ اتفاق سے اس کے باب کا نام بھی ہدیہ ہے۔ (فتح الباري:524/2)واللہ أعلم (3) یہ احادیث اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جمعہ کے دن دوران خطبہ میں اگر کوئی شخص آئے تو اسے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھنا چاہیے لیکن فقہائے کوفہ نے بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر اس موقف کی تردید کی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ان تمام حیلوں بہانوں کا ذکر کیا ہے جن کے سہارے یہ حضرات اس سنت کا انکار کرتے ہیں، پھر دلائل و براہین سے محدثین کے موقف کو ثابت کیا ہے۔ یہ قابل قدر بحث، صفحہ 526 سے 529 تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس سلسلے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا فیصلہ نقل کر کے اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: جب کوئی نمازی ایسے حالات میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے۔ اور اس مسئلے کے متعلق تمہارے شہر کے لوگ جو شوروغوغا کرتے ہیں ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ اس مسئلے کے متعلق صحیح احادیث ہیں جن کی اتباع ضروری ہے۔ (حجة اللہ البالغة:29/2، طبع المکتبة السلفیة، لاھور) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کا واقعہ بھی بیان کر دیا جائے جسے امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے: عبداللہ بن ابی سرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ جمعہ کے دن مسجد میں اس وقت آئے جب مروان بن حکم خطبہ دینے میں مصروف تھا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو مروان کے سپاہی آئے اور آپ کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر حضرت ابو سعید ؓ نے نماز توڑنے سے انکار کر دیا اور مکمل کر کے سلام پھیرا۔ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید ؓ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعات کو چھوڑنے والا نہیں تھا، خواہ سپاہی کچھ بھی کر گزرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، ایک پراگندہ حال آدمی مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، وہ نماز پڑھتا رہا جبکہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے میں مصروف رہے۔ (جامع الترمذي، الجمعة، حدیث:511)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
918
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
931
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
931
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
931
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک شخص اس وقت آیا جب نبی ﷺ خطبہ ارشاد فر رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا: ’’کیا تو نے نماز پڑھی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ’’(کھڑے ہو کر) دو رکعتیں پڑھو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) علامہ زین بن منیر ؒ مذکورہ عنوانات میں بایں الفاظ فرق بیان کرتے ہیں کہ پہلے عنوان میں آنے والے کو دو رکعت ادا کرنے کا حکم دینا اس بات سے مشروط ہے کہ امام اسے دوران خطبہ میں دیکھے اور اس سے پوچھے کہ تو نے نماز پڑھی ہے یا نہیں اور یہ سب معاملات خطیب کے ساتھ خاص ہیں۔ دوسرا عنوان مسجد میں آنے والے سے متعلق ہے کہ اسے چاہیے کہ دوران خطبہ میں دو رکعت پڑھ کر خطبہ سننے کے لیے بیٹھے۔ امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوانات میں ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھا ہے، حالانکہ دونوں میں حدیث ایک ہی بیان کی ہے، (فتح الباري:530/2) نیز اس عنوان میں ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ پیش کردہ حدیث میں اس قسم کی کوئی وضاحت نہیں ہے؟ اصل میں امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ عنوان کے ذریعے سے کسی ایسی حدیث کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہے لیکن ان کی شرائط کے مطابق نہیں ہوتی، چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2018 (875)) (2) دوران خطبہ میں آنے والا شخص سلیک بن ہدیہ غطفانی تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی روایات میں اس کی صراحت ہے۔ بعض روایات میں آنے والے کا نام نعمان بن نوفل بتایا گیا ہے لیکن محدثین نے اسے کسی راوی کا وہم قرار دیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دوران خطبہ میں حضرت ابوذر ؓ آئے تھے تو آپ نے انہیں دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ اس روایت میں ابن لبیعہ راوی نے ’’دوران خطبہ میں‘‘ کے الفاظ شاذ طور پر بیان کر دیے ہیں کیونکہ محفوظ الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ابوذر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جبکہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ قیس قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا تھا۔ اس سے مراد بھی سلیک ہے کیونکہ قبیلۂ غطفان قیس کی ایک شاخ ہے۔ ابن بشکوال نے اس آدمی کا نام ابو ہدیہ لکھا ہے۔ اگر یہ الفاظ محفوظ ہیں تو ممکن ہے کہ سلیک ؓ کی کنیت ابو ہدیہ ہو۔ اتفاق سے اس کے باب کا نام بھی ہدیہ ہے۔ (فتح الباري:524/2)واللہ أعلم (3) یہ احادیث اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جمعہ کے دن دوران خطبہ میں اگر کوئی شخص آئے تو اسے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھنا چاہیے لیکن فقہائے کوفہ نے بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر اس موقف کی تردید کی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ان تمام حیلوں بہانوں کا ذکر کیا ہے جن کے سہارے یہ حضرات اس سنت کا انکار کرتے ہیں، پھر دلائل و براہین سے محدثین کے موقف کو ثابت کیا ہے۔ یہ قابل قدر بحث، صفحہ 526 سے 529 تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس سلسلے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا فیصلہ نقل کر کے اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: جب کوئی نمازی ایسے حالات میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے۔ اور اس مسئلے کے متعلق تمہارے شہر کے لوگ جو شوروغوغا کرتے ہیں ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ اس مسئلے کے متعلق صحیح احادیث ہیں جن کی اتباع ضروری ہے۔ (حجة اللہ البالغة:29/2، طبع المکتبة السلفیة، لاھور) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کا واقعہ بھی بیان کر دیا جائے جسے امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے: عبداللہ بن ابی سرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ جمعہ کے دن مسجد میں اس وقت آئے جب مروان بن حکم خطبہ دینے میں مصروف تھا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو مروان کے سپاہی آئے اور آپ کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر حضرت ابو سعید ؓ نے نماز توڑنے سے انکار کر دیا اور مکمل کر کے سلام پھیرا۔ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید ؓ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعات کو چھوڑنے والا نہیں تھا، خواہ سپاہی کچھ بھی کر گزرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، ایک پراگندہ حال آدمی مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، وہ نماز پڑھتا رہا جبکہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے میں مصروف رہے۔ (جامع الترمذي، الجمعة، حدیث:511)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو سے بیان کیا، انہوں نے جابر ؓ سے سنا کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں آیا۔ نبی کریم ﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے (تحیۃ المسجد کی) نماز پڑھ لی ہے؟ آنے والے نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اٹھو اور دو رکعت نماز ( تحیۃ المسجد ) پڑھ لو۔
حدیث حاشیہ:
جمعہ کے دن حالت خطبہ میں کوئی شخص آئے تو اسے خطبہ ہی کی حالت میں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے بغیر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو حدیث جابر بن عبد اللہ سے جسے حضرت امام المحدثین ؒ نے یہاں نقل فرمایا ہےروز روشن کی طرح ثابت ہے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے باب في الرکعتین إذا جاءالرجل والإمام یخطب کے تحت اسی حدیث کو نقل فرمایا ہے، آخر میں فرماتے ہیں کہ ھذا حدیث حسن صحیح یہ حدیث بالکل حسن صحیح ہے، اس میں صاف بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خطبہ کی ہی حالت میں ایک آنے والے شخص (سلیک نامی) کو دو رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ بعض ضعیف روایتوں میں مذکور ہے کہ جس حالت میں اس شخص نے دو رکعت ادا کیں آنحضرت ﷺ نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے لائق حجت نہیں ہے اور بخاری شریف کی مذکورہ حدیث حسن صحیح ہے جس میں آنحضرت ﷺ کی حالت خطبہ ہی میں اس کے دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ لہذا اس کے مقابلے پر یہ روایت قابل حجت نہیں۔ دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ آنے والے شخص کو آنحضرت ﷺ نے دو رکعت نماز کا حکم بے شک فرمایا مگر ابھی آپ نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ ؓ جو صاف لفظوں میں النبی ﷺ یخطب الناس یوم الجمعة ( یعنی آنحضرت ﷺ لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے ) نقل فرمارہے ہیں۔ نعوذباللہ ان کا یہ بیان غلط ہے اور ابھی آنحضرت ﷺ نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ یہ کس قدر جرات ہے کہ ایک صحابی رسول کو غلط بیانی کامرتکب گردانا جائے اور بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر محدثین کرام کی فقاہت حدیث اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے بیان کی نہایت بے باکی کے ساتھ تغلیط کی جائے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے اس سلسلہ کی دوسری حدیث عبد اللہ بن ابی مسرح سے یوں نقل فرمائی ہے: أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، دَخَلَ يَوْمَ الجُمُعَةِ وَمَرْوَانُ يَخْطُبُ، فَقَامَ يُصَلِّي، فَجَاءَ الحَرَسُ لِيُجْلِسُوهُ، فَأَبَى حَتَّى صَلَّى، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: رَحِمَكَ اللَّهُ، إِنْ كَادُوا لَيَقَعُوا بِكَ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لأَتْرُكَهُمَا بَعْدَ شَيْءٍ رَأَيْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَكَرَ أَنَّ رَجُلاً جَاءَ يَوْمَ الجُمُعَةِ فِي هَيْئَةٍ بَذَّةٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الجُمُعَةِ، فَأَمَرَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ. یعنی ابو سعید خدری ؓ صحابی رسول اللہ ؓ جمعہ کے دن مسجد میں اس حالت میں آئے کہ مروان خطبہ دے رہا تھا یہ نماز ( تحیۃ المسجد ) پڑھنے کھڑے ہوگئے۔یہ دیکھ کر سپاہی آئے اور ان کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر یہ نہ مانے اور پڑھ کر ہی سلام پھیرا، عبد اللہ بن ابی مسرح کہتے ہیں کہ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے ملا قات کی اور کہا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعتوں کو چھوڑنے والاہی نہیں تھا۔ خواہ سپاہی لوگ کچھ بھی کرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی پریشان شکل میں داخل مسجد ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو اسی حالت میں دو رکعت پڑھ لینے کا حکم فرمایا۔ وہ نماز پڑھتا رہا اور آنحضرت ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ دو عادل گواہ!حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ ہر دو عادل گواہوں کا بیان قارئین کے سامنے ہے۔ اس کے بعد مختلف تاویلات یا کمزور روایات کا سہارا لے کر ان ہر دو صحابیوں کی تغلیط کے درپے ہونا کسی بھی اہل علم کی شان کے خلاف ہے۔ حضرت امام ترمذی ؒ آگے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عیینہ اور حضرت عبد الرحمن مقری ہر دو بزرگوں کا یہی معمول تھا کہ وہ اس حالت مذکورہ میں ان ہر دو رکعتوں کو ترک نہیں کیاکرتے تھے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے اس سلسلے کی دیگر روایات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جن میں حضرت جابر کی ایک اور روایت طبرانی میں یوں مذکور ہے :عن جابر قال دخل النعمان بن نوفل ورسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم علی المنبر یخطب یوم الجمعة فقال له النبي صلی اللہ علیه وسلم رکعتین وتجوز فیھما فإذا أتی أحدکم یوم الجمعة والإمام یخطب فلیصل رکعتین ولیخففھما کذا في قوت المعتذي وتحفة الأحوذي، ج:2ص:264 یعنی ایک بزرگ نعمان بن نوفل نامی مسجد میں داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے ان کو حکم فرمایا کہ اٹھ کر دو رکعت پڑھ کر بیٹھیں اور ان کو ہلکا کر کے پڑھیں اور جب بھی کوئی تمہارا اس حالت میں مسجد میں آئے کہ امام خطبہ دے رہاہو تو وہ ہلکی دو رکعتیں پڑھ کر ہی بیٹھے اور ان کو ہلکا پڑھے۔ حضرت علامہ نووی ؒ شارح مسلم شریف فرماتے ہیں: هَذِهِ الْأَحَادِيثُ كُلُّهَا يَعْنِي الَّتِي رَوَاهَا مُسْلِمٌ صَرِيحَةٌ فِي الدَّلَالَةِ لِمَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَفُقَهَاءِ الْمُحَدِّثِينَ أَنَّهُ إِذَا دَخَلَ الْجَامِعَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ يُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ تَحِيَّةَ الْمَسْجِدِ وَيُكْرَهُ الْجُلُوسُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَهُمَا وَأَنَّهُ يُسْتَحَبُّ أَنْ يَتَجَوَّزَ فِيهِمَا لِيَسْمَعَ بَعْدَهُمَا الْخُطْبَةَ وَحُكِيَ هَذَا الْمَذْهَبُ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَغَيْرِهِ مِنَ الْمُتَقَدِّمِينَ۔(تحفة الأحوذي)یعنی ان جملہ احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ امام جب خطبہ جمعہ دے رہا ہو اور کوئی آنے والا آئے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کر کے ہی بیٹھے۔ بغیر ان دو رکعتوں کے اس کا بیٹھنا مکروہ ہے اور مستحب ہے کہ ہلکا پڑھے تاکہ پھرخطبہ سنے۔ یہی مسلک امام حسن بصری وغیرہ متقدمین کا ہے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے دوسرے حضرات کا مسلک بھی ذکر فرمایا ہے جو ان دو رکعتوں کے قائل نہیں ہیں پھر حضرت امام ترمذی ؒ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے: والقول الأول أصح۔یعنی ان ہی حضرات کا مسلک صحیح ہے جو ان دو رکعتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی شخص ان دورکعتوں کو ناجائز تصور کرے تو یہ خود اس کی ذمہ داری ہے۔ آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا ارشاد گرامی بھی سن لیجیے آپ فرماتے ہیں: فَإِذا جاءو الإِمَام يخْطب فليركع رَكْعَتَيْنِ، وليتجوز فيهمَا رِعَايَة لسنة الرَّاتِبَة وأدب الْخطْبَة جَمِيعًا بِقدر الْإِمْكَان، وَلَا تغتر فِي هَذِه الْمَسْأَلَة بِمَا يلهج بِهِ أهل بلدك فَإِن الحَدِيث صَحِيح وَاجِب اتِّبَاعه.(حجة اللہ البالغة، جلد:دومص:101)یعنی جب کوئی نماز ی ایسے حال میں مسجد میں داخل ہو کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت ہلکی خفیف پڑھ لے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے اور اس مسئلہ کے بارے میں تمہارے شہر کے لوگ جو شور کرتے ہیں اور ان رکعتوں کے پڑھنے سے روکتے ہیں؟ ان کے دھوکا میں نہ آنا کیونکہ اس مسئلہ کے حق میں حدیث صحیح وارد ہے جس کا اتباع واجب ہے۔وبا للّٰہ التوفیق۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): A man entered the Mosque while the Prophet (ﷺ) was delivering the Khutba. The Prophet (ﷺ) said to him, "Have you prayed?" The man replied in the negative. The Prophet (ﷺ) said, "Pray two Rakat."