باب: تکبیر منیٰ کے دنوں میں اور جب نویں تاریخ کو عرفات میں جائے
)
Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: To say Takbir on the days of Mina and while proceeding to Arafat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عمر ؓ منیٰ میں اپنے ڈیرے کے اندر تکبیر کہتے تو مسجد میں موجود لوگ اسے سنتے اور وہ بھی تکبیر کہنے لگتے پھر بازار میں موجود لوگ بھی تکبیر کہنے لگتے اور سارا منیٰ تکبیر سے گونج اٹھتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما منیٰ میں ان دنوں میں نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں، مجلس میں، راستے میں اور دن کے تمام ہی حصوں میں تکبیر کہتے تھے اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا دسویں تاریخ میں تکبیر کہتی تھیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عبدالعزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیر کہا کہتی تھیں۔
970.
حضرت محمد بن ابوبکر ثقفی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ہم صبح کے وقت منیٰ سے عرفات جا رہے تھے تو میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے تلبیہ کے متعلق سوال کیا کہ آپ حضرات نبی ﷺ کے ہمراہ جاتے وقت کس طرح کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ لبیك کہنے والا لبیك کہتا تو اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا اور اسی طرح تکبیر کہنے والا تکبیر کہتا تو اسے منع نہیں کیا جاتا تھا۔
تشریح:
(1) عیدین کی روح یہی ہے کہ ان میں بآواز بلند اللہ کی کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کیا جائے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان (ذوالحجہ کے) دنوں تلبیہ ترک کر دی جائے بلکہ تلبیہ کے ساتھ تکبیرات بھی بآواز بلند کہی جائیں۔ ان دنوں تکبیرات نویں ذوالحجہ سے شروع کر کے تیرہ ذوالحجہ تک ہیں۔ ہاں! اگر کوئی بارہ ذوالحجہ کو واپس آنا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایام منیٰ میں تکبیرات ہر وقت کہی جائیں، نمازوں کے بعد، خواہ وہ نفل ہوں یا فرض۔ اسی طرح مردوزن، مقیم و مسافر، الغرض ہر آدمی ہر حالت میں تکبیرات کہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کے لیے کوئی استثناء نہیں کیا بلکہ اس حکم کو عام رکھا ہے جیسا کہ آپ کے پیش کردہ آثار سے بھی واضح ہے۔ (3) یہ تکبیرات تشریق کہلاتی ہیں، البتہ یوم عرفہ کے دن منیٰ سے عرفات جاتے وقت تلبیہ کہنا بھی درست ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے کتاب الحج میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب التلبية والتكبير إذا غدا من منى إلى عرفة)’’منیٰ سے عرفہ جاتے وقت تلبیہ و تکبیر کہنے کا بیان۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
956
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
970
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
970
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
970
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
علامہ خطابی نے ان دنوں میں الله أكبر کہنے کی حکمت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ اہل جاہلیت کی مخالفت ہو کیونکہ وہ ان دنوں میں اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے، اس لیے اہل اسلام کے لیے ان دنوں میں الله أكبر کو شعار بنا دیا گیا تاکہ ایام ذبح میں غیراللہ کا نام ہی نہ آئے اور اللہ اکبر کی آواز سے فضا ہر وقت گونجتی رہے۔ (فتح الباری:2/594) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو سعید بن منصور نے اپنی سند سے متصل بیان کیا ہے۔ اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام ابن منذر اور علامہ فاکہی نے اخبار مکہ میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا عمل متصل سند سے دستیاب نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ حضرت ابان بن عثمان اور حضرت عمر بن عبدالعزیز سے متعلقہ اثر کو بھی ابوبکر بن ابی الدنیا نے اپنی کتاب "العیدین" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر و تلبیہ ان دنوں کا شعار ہے۔ تسبیح و تحمید میں یہ شان نہیں کہ انہیں ان دنوں کا شعار قرار دیا جائے۔ (فتح الباری:2/595)
اور عمر ؓ منیٰ میں اپنے ڈیرے کے اندر تکبیر کہتے تو مسجد میں موجود لوگ اسے سنتے اور وہ بھی تکبیر کہنے لگتے پھر بازار میں موجود لوگ بھی تکبیر کہنے لگتے اور سارا منیٰ تکبیر سے گونج اٹھتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما منیٰ میں ان دنوں میں نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں، مجلس میں، راستے میں اور دن کے تمام ہی حصوں میں تکبیر کہتے تھے اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا دسویں تاریخ میں تکبیر کہتی تھیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عبدالعزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیر کہا کہتی تھیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت محمد بن ابوبکر ثقفی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب ہم صبح کے وقت منیٰ سے عرفات جا رہے تھے تو میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے تلبیہ کے متعلق سوال کیا کہ آپ حضرات نبی ﷺ کے ہمراہ جاتے وقت کس طرح کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ لبیك کہنے والا لبیك کہتا تو اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا اور اسی طرح تکبیر کہنے والا تکبیر کہتا تو اسے منع نہیں کیا جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) عیدین کی روح یہی ہے کہ ان میں بآواز بلند اللہ کی کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کیا جائے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان (ذوالحجہ کے) دنوں تلبیہ ترک کر دی جائے بلکہ تلبیہ کے ساتھ تکبیرات بھی بآواز بلند کہی جائیں۔ ان دنوں تکبیرات نویں ذوالحجہ سے شروع کر کے تیرہ ذوالحجہ تک ہیں۔ ہاں! اگر کوئی بارہ ذوالحجہ کو واپس آنا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایام منیٰ میں تکبیرات ہر وقت کہی جائیں، نمازوں کے بعد، خواہ وہ نفل ہوں یا فرض۔ اسی طرح مردوزن، مقیم و مسافر، الغرض ہر آدمی ہر حالت میں تکبیرات کہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کے لیے کوئی استثناء نہیں کیا بلکہ اس حکم کو عام رکھا ہے جیسا کہ آپ کے پیش کردہ آثار سے بھی واضح ہے۔ (3) یہ تکبیرات تشریق کہلاتی ہیں، البتہ یوم عرفہ کے دن منیٰ سے عرفات جاتے وقت تلبیہ کہنا بھی درست ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے کتاب الحج میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب التلبية والتكبير إذا غدا من منى إلى عرفة)’’منیٰ سے عرفہ جاتے وقت تلبیہ و تکبیر کہنے کا بیان۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر ؓ منیٰ کے دنوں اپنے خیمے ہی میں تکبیر کہتے تھے جسے اہل مسجد سنتے اور وہ بھی تکبیر کہتے، اہل سوق، یعنی بازار والے بھی اللہ اکبر کہتے یہاں تک کہ منیٰ کی فضا اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھتی۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ان دنوں نمازوں کے بعد، اپنے بستر پر، اپنے خیمے میں، اپنی مجلس میں اور راستہ چلتے وقت، الغرض ان تمام دنوں میں تکبیرات کہتے تھے۔ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا یوم نحر، یعنی دسویں ذوالحجہ کو تکبیر کہتی تھیں، دوسری خواتین بھی تشریق کی راتوں میں حضرت ابان بن عثمان اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پیچھے مردوں کے ساتھ مسجد میں تکبیرات کہتی تھیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابی بکر ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے تلبیہ کے متعلق دریافت کیا کہ آپ لوگ نبی کریم ﷺ کے عہد میں اسے کس طرح کہتے تھے۔ اس وقت ہم منیٰ سے عرفات کی طرف جا رہے تھے، انہوں نے فرمایا کہ تلبیہ کہنے والے تلبیہ کہتے اور تکبیر کہنے والے تکبیر۔ اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا۔
حدیث حاشیہ:
لفظ منیٰ کی تحقیق حضرت علامہ قسطلانی شارح بخاری ؒ کے لفظوں میں یہ ہے: منى بکسر المیم یذکر ویؤنث فإن قصد الموضع فمذکر ویکتب بالألف وینصرف وإن قصد البقعة فمؤنث ولا ینصرف ویکتب بالیاء والمختارتذکیرہ۔یعنی لفظ منا میم کے زیر کے ساتھ اگر اس سے منا موضع مراد لیا جائے تو یہ مذکر ہے اور منصرف ہے اور یہ الف کے ساتھ ( منا ) لکھا جائے گا اور اگر اس سے مراد بقعہ ( مقام خاص ) لیا جائے تو پھر یہ مؤنث ہے اور لفظ یاءکے ساتھ منی لکھا جائے گا مگر مختار یہی ہے کہ یہ مذکر ہے اور منا کے ساتھ اس کی کتابت بہتر ہے۔ پھر فرماتے ہیں: وسمي منی لما یمنی فیي أي یراق من الدماء۔یعنی یہ مقام لفظ منی سے اس لیے موسوم ہوا کہ یہاں خون بہانے کا قصد ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Abi Bakr Al-Thaqafi (RA): While we were going from Mina to 'Arafat, I asked Anas bin Malik (RA), about Talbiya, "How did you use to say Talbiya in the company of the Prophet?" Anas (RA) said: "People used to say Talbiya and their saying was not objected to and they used to say Takbir and that was not objected to either. "