Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: The right of the body in observing As-Saum)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1839.
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عبداللہ! کیا مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ آپ دن میں روزے سے ہوتے ہیں اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں اللہ کے رسول ﷺ ! ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسا مت کیا کرو، روزہ رکھو افطار بھی کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کروکیونکہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے۔ تم پر تمہاری آنکھوں کا حق ہے اور تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے اور تم پر تمہارے مہمان کا بھی حق ہے۔ تجھے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھے کیونکہ تیرے لیے ہر نیک عمل کا دس گنا اجروثواب ہے۔ اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہیں۔‘‘ لیکن میں نے جسم پر سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں اپنے اندر ا س سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں!آپ نے فرمایا: ’’اگر ایسا ہے تو اللہ کے نبی حضرت داود ؑ کا روزہ رکھو اور اس پر زیادتی نہ کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی حضرت داود ؑ کے روزے کیسے تھے؟فرمایا: ’’نصف زندگی۔‘‘ یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار۔ بعد ازاں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ جب بوڑھے ہوگئے تو کہا کرتے تھے: کاش! میں نے نبی کریم ﷺ کی رخصت کوقبول کیا ہوتا(تو آج یہ حال نہ ہوتا)۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں نفلی عبادت کرتے وقت جسم کا حق بیان کیا گیا ہے۔ اس حق سے مراد واجب نہیں بلکہ رعایت و نرمی ہے، یعنی نفلی روزہ رکھتے وقت جسم کی رعایت کرنی چاہیے اور اس پر سختی نہ کی جائے تاکہ دیگر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے حضرت داود ؑ کے روزوں جیسے روزے رکھنے کی تلقین فرمائی، یعنی ایک دن روزہ رکھا جائے اور ایک دن چھوڑ دیا جائے لیکن حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے جس عبادت کا التزام کر رکھا تھا، بڑھاپے اور قوت میں کمی کے باعث اس میں کمی آنے لگی، لیکن اس التزام کو چھوڑنا پسند نہ کیا جسے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں خود پر لازم کر لیا تھا، لیکن کف افسوس ضرور ملتے کہ کاش! میں آپ کی عطا کردہ رخصت قبول کر لیتا تو آج مجھے اس قدر سختی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ دراصل صحابۂ کرام ؓ کے لیے وہ حالت چھوڑنا مشکل تھی جس پر رسول اللہ ﷺ سے جدا ہوئے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تھا: "کاش! میں بھی حضرت سودہ ؓ کی طرح شب مزدلفہ سے اجازت مانگ لیتی تو اچھا ہوتا مگر اب اس حالت کو نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ (فتح الباري:280/4) (2) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ بڑھاپے کے وقت یہ پابندی دشوار ہوئی تو کہنے لگے: کاش! میں نے آپ کی اجازت قبول کی ہوتی اور ایک مہینے کے تین روزے رکھنے کی عادت اختیار کرتا لیکن اب مجھ سے اتنے روزے نہیں رکھے جاتے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1918
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1975
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1975
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1975
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عبداللہ! کیا مجھے یہ خبر نہیں پہنچی کہ آپ دن میں روزے سے ہوتے ہیں اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں اللہ کے رسول ﷺ ! ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ایسا مت کیا کرو، روزہ رکھو افطار بھی کرو، نماز پڑھو اور آرام بھی کروکیونکہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے۔ تم پر تمہاری آنکھوں کا حق ہے اور تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے اور تم پر تمہارے مہمان کا بھی حق ہے۔ تجھے یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھے کیونکہ تیرے لیے ہر نیک عمل کا دس گنا اجروثواب ہے۔ اس طرح یہ پورے سال کے روزے ہیں۔‘‘ لیکن میں نے جسم پر سختی کی تو مجھ پر سختی کی گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں اپنے اندر ا س سے زیادہ کی طاقت پاتا ہوں!آپ نے فرمایا: ’’اگر ایسا ہے تو اللہ کے نبی حضرت داود ؑ کا روزہ رکھو اور اس پر زیادتی نہ کرو۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی حضرت داود ؑ کے روزے کیسے تھے؟فرمایا: ’’نصف زندگی۔‘‘ یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار۔ بعد ازاں حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ جب بوڑھے ہوگئے تو کہا کرتے تھے: کاش! میں نے نبی کریم ﷺ کی رخصت کوقبول کیا ہوتا(تو آج یہ حال نہ ہوتا)۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں نفلی عبادت کرتے وقت جسم کا حق بیان کیا گیا ہے۔ اس حق سے مراد واجب نہیں بلکہ رعایت و نرمی ہے، یعنی نفلی روزہ رکھتے وقت جسم کی رعایت کرنی چاہیے اور اس پر سختی نہ کی جائے تاکہ دیگر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے حضرت داود ؑ کے روزوں جیسے روزے رکھنے کی تلقین فرمائی، یعنی ایک دن روزہ رکھا جائے اور ایک دن چھوڑ دیا جائے لیکن حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے جس عبادت کا التزام کر رکھا تھا، بڑھاپے اور قوت میں کمی کے باعث اس میں کمی آنے لگی، لیکن اس التزام کو چھوڑنا پسند نہ کیا جسے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں خود پر لازم کر لیا تھا، لیکن کف افسوس ضرور ملتے کہ کاش! میں آپ کی عطا کردہ رخصت قبول کر لیتا تو آج مجھے اس قدر سختی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ دراصل صحابۂ کرام ؓ کے لیے وہ حالت چھوڑنا مشکل تھی جس پر رسول اللہ ﷺ سے جدا ہوئے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تھا: "کاش! میں بھی حضرت سودہ ؓ کی طرح شب مزدلفہ سے اجازت مانگ لیتی تو اچھا ہوتا مگر اب اس حالت کو نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ (فتح الباري:280/4) (2) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ بڑھاپے کے وقت یہ پابندی دشوار ہوئی تو کہنے لگے: کاش! میں نے آپ کی اجازت قبول کی ہوتی اور ایک مہینے کے تین روزے رکھنے کی عادت اختیار کرتا لیکن اب مجھ سے اتنے روزے نہیں رکھے جاتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو اوزاعی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ نے بیان کیا، کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، عبداللہ ! کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم دن میں تو روزہ رکھتے ہو اور ساری رات نماز پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی صحیح ہے یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے فرمایا، کہ ایسا نہ کر، روزہ بھی رکھ اور بے روزہ کے بھی رہ۔ نماز بھی پڑھ اور سوؤ بھی۔ کیوں کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تم سے ملاقات کرنے والوں کا بھی تم پر حق ہے بس یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو، کیوں کہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا اور اس طرح یہ ساری عمر کا روزہ ہو جائے گا، لیکن میں نے اپنے پر سختی چاہی تو مجھ پر سختی کر دی گئی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! میں اپنے میں قوت پاتا ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر اللہ کے نبی داؤد ؑ کا روزہ رکھ اور اس سے آگے نہ بڑھ، میں نے پوچھا اللہ کے نبی داؤد ؑ کا روزہ کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا، ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بے روزہ رہا کرتے تھے۔ عبداللہ ؓ بعد میں جب ضعیف ہو گئے تو کہا کرتے تھے کاش ! میں رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی رخصت مان لیتا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں پچھلے مضمون کی مزید وضاحت ہے۔ پھر ان لوگوں کے لیے جو عبادت میں زیادہ سے زیادہ انہماک کے خواہش مند ہوں ان کے لیے داؤد ؑ کے روزے کو بطور مثال بیان فرمایا اور ترغیب دلائی کہ ایسے لوگوں کے لیے مناسب ہے کہ صوم داؤدی کی اقتداءکریں اور اس میانہ راوی سے ثواب عبادت حاصل کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr bin Al-'As (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said to me, "O 'Abdullah! Have I not been informed that you fast during the day and offer prayers all the night." 'Abdullah replied, "Yes, O Allah's Apostle! (ﷺ) " The Prophet (ﷺ) said, "Don't do that; fast for few days and then give it up for few days, offer prayers and also sleep at night, as your body has a right on you, and your wife has a right on you, and your guest has a right on you. And it is sufficient for you to fast three days in a month, as the reward of a good deed is multiplied ten times, so it will be like fasting throughout the year." I insisted (on fasting) and so I was given a hard instruction. I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have power." The Prophet (ﷺ) said, "Fast like the fasting of the Prophet (ﷺ) David and do not fast more than that." I said, "How was the fasting of the Prophet (ﷺ) of Allah, David?" He said, "Half of the year," (i.e. he used to fast on every alternate day). Afterwards when 'Abdullah became old, he used to say, "It would have been better for me if I had accepted the permission of the Prophet (ﷺ) (which he gave me i.e. to fast only three days a month)."