باب: فرمان مبارک کہ اگر میں کسی کو جانی دوست بناتا تو ابوبکرؓکو بناتا
)
Sahi-Bukhari:
Companions of the Prophet
(Chapter: "If I were to take Khalil ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
3393.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے اللہ کی راہ میں کسی چیز کاجوڑا خرچ کیا اسے جنت کے تمام دروازوں سے بلایاجائے گا۔ اے اللہ کے بندے!یہ بہتر ہے۔ جو شخص نمازی ہوگا اسے باب الصلاۃ سے پکارا جائے گا۔ جو شخص مجاہدین سے ہوگا اسے باب الجہاد سے دعوت دی جائے گی۔ جو شخص صدقہ کرنے والوں سے ہوگا اسے باب الصدقہ سے بلایا جائے گا۔ اورجو شخص روزہ داروں سے ہوگا اسے باب الصیام اور باب الریان سے بلایا جائے گا۔‘‘حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ ! جس شخص کو تمام دروازں سے پکارا جائے گا اسے کوئی ضرورت نہ ہوگی، پھر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا کسی شخص کو تمام دروازوں سے دعوت دی جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اسے ابوبکر ! میں امید رکھتا ہوں کہ تم ان لوگوں سے ہو۔‘‘
تشریح:
ایک حدیث میں ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3257) اس حدیث میں تین دروازوں کا ذکر ہے۔ ارکان اسلام کے اعتبار سے ایک باب الحج ہوگا۔باقی تین دروازوں کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تفصیل یہ ہے کہ ایک دروازہ باب الکا ظمین ہے مسند امام احمد میں ہے کہ ایک دروازہ باب الایمن ہے جسے باب المتوکلین بھی کہا جاتا ہے۔ (مسند أحمد:436/2) اس سے بلا حساب جنت میں داخل ہونے والوں کو گزارا جائے گا۔ ایک دروازہ باب الذکر یا باب العلم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ سے متعلق دروازے جنت کے بڑے آٹھ دروازوں کے بعد ہوں گے اور ان کی تعداد آٹھ سے زیادہ ہوگی نیز جن لوگوں کو آٹھوں دروازوں سے آواز آئے گی وہ تعداد میں بہت کم ہوں گے اور ان سے مراد وہ خوش قسمت حضرات ہیں جنھوں نے ہر قسم کے نیک اعمال کا ااحاطہ کیا ہو گا کیونکہ تمام واجبات (فرائض) پر عمل کرنے والے تو بے شمار ہوں گے لیکن تمام تطوعات یعنی نوافل کا احاطہ کوئی کوئی کرے گا۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے امید ہے کہ ابو بکر! وہ آپ ہوں گے۔‘‘ کیونکہ فرائض ونوافل کو جمع کرنے والے آپ ہی ہیں۔واضح رہے کہ جو شخص جس عمل کو بکثرت کرتا ہوگا اسے اسی دروازے سے گزارا جائے گا اگرچہ دعوت تمام دروازوں سے گزرنے کی دی جائے گی۔ (فتح الباري:37/7)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3529
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3666
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
3666
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
3666
تمہید کتاب
لغوی اعتبار سے فضائل،فضیلت کی جمع ہے۔اس کے معنی اضافہ اور زیادتی کے ہیں۔اصطلاحی طور پر فضائل سے مراد اچھی خصلتیں اور پسندیدہ عادات ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحابی کی تعریف کی ہے کہ وہ مسلمان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو یا وہ آپ کے دیدار سے شرف یاب ہوا ہو۔اس تعریف کے اعتبار سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی دوقسمیں ہیں:1۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو اگرچہ آپ کو دیکھ نہ سکا ہو،جیسے:حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔2۔وہ صحابی جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ہو جیسا کہ دیگرصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔ہمارے رجحان کے مطابق صحابی کی جامع تعریف یہ ہے کہ وہ مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی رہا ہو یا آپ کو بیداری کے عالم میں دیکھا ہو اور اسلام پر فوت ہوا ہواسے صحابی کہا جائے گا۔اس تعریف کے اعتبار سے جو اسلام لانے کے بعد مرتد ہوگیا اور کفر پر مرا جیسے ابن خطل وغیرہ انھیں صحابی نہیں کہا جائےگا اور جومرتد ہونے کے بعد پھر مسلمان ہوگیا،پھر اسلام میں واپس آگیا پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکا ہوتو اسے صحابی کہا جائے گا کیونکہ تمام محدثین نے حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیاہے جومرتد ہونے کے بعدپھر حلقہ بگوش اسلام ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ نہ سکے۔اسلا م پرموت آنے کی شرط اس لیے ضروری ہے کہ بعض محدثین نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کی حدیث کو بیان کیا ہے جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوا اور حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے احادیث بھی بیان کیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں کسی بات پر ناراض ہوا تو عیسائی بن کرروم چلا گیا۔شاید جن محدثین نے اس کی حدیث بیان کی ہے انھیں اس کے مرتد ہونے کا علم نہ ہوسکا۔واللہ اعلم۔جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالتِ خوا ب میں دیکھا اسے صحابی نہیں کہا جائے گا اگرچہ آپ کو خواب میں دیکھنا بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے:"جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے یقیناً مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کرسکتا۔"( صحیح البخاری التعبیرحدیث 6994۔) بہرحال صحابیت کے لیے حالتِ بیداری میں دیکھنا ضروری ہے۔اسی طرح صحابی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی زندگی میں دیکھے جس نے آپ کو فوت ہونے کے بعد،دفن سے پہلے دیکھا اس کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا۔پھر کیا شرف صحابیت کے لیے صرف دیکھنا ہی کافی ہے یا صاحب تمیز ہونا بھی ضروری ہے ۔اس سلسلے میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ تمیز ضروری نہیں جیسا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے جن کی ولادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین ماہ پہلے ہوئی تھی۔ان کی والدہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حجۃ الوداع کے لیے جاتے ہوئے دوران سفرمکہ میں داخل ہونے سے پہلے ماہ ذوالقعدہ کے آخر میں انھیں جنم دیا تھا،لیکن ان کی مرویات کو مراسیل صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے۔جمہور محدثین تو اس جم غفیر کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں شمار کرتے ہیں جو صرف حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے اجتماع میں شامل ہوئے،پھر صحابیت کا علم تواتر سے یا شہرت سے یا ایک صحابی کا دوسرے کو صحابی کہنے سے ثابت ہوتاہے ،یا وہ خود اپنے آپ کو صحابی کہے بشرط یہ کہ وہ عادل ہو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سب سے افضل خلفائے راشدین ہیں،پھر باقی عشرہ مبشرہ،ان کے بعد اہل بدر ،اہل احد،پھر وہ جو بیعت رضوان میں شامل ہوئے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی عدول اور خیارصحابہ میں شامل ہیں۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کے اختلافات اجتہادی ہیں جن کی وجہ سے ان کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوتی۔بہرحال امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل وضابط ہیں۔وہ نزول وحی کے عینی شاہد ہیں۔ان پر حرف گیری اور لب کشائی سے ایمان خطرے میں پڑسکتاہے۔اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تومطلق طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں۔اس کے بعد مہاجرین کی منقبت کے متعلق احادیث پیش کی ہیں۔ان میں خلفائے اربعہ:حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں،پھر جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت عمارہ وحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ وحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،بلال بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بیان کیے ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ۔طلحہ بن عبیداللہ،اسامہ بن زید،مصعب بن عمیر،عبداللہ بن عباس رضوان اللہ عنھم اجمعین اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔آخر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی منقبت اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی فضیلت بیان کی ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوستائیس مرفوع اور متصل احادیث پیش کی ہیں،ان کے علاوہ سترہ معلق احادیث ذکر کی ہیں۔مناسب معلوم ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے حوالے سے رتن مہندی کا ذکر بھی کردیاجائے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ سوسال بعد صحابی ہونے کا دعویٰ کیا ،جس کے متعلق علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"بلاشبہ یہ شیخ دجال تھا جس نے چھ سو سال بعد صحابیت کا دعویٰ کیا،حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین جھوٹ نہیں بولتے لیکن اس نے جھوٹ بولنے میں ریکارڈ قائم کیا۔ہم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔"( میزان الاعتدال 45/2۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے چند ماہ قبل فرمایا تھا:"آج سے سو سال بعد اس وقت موجود کوئی ذی روح چیز زندہ نہیں رہے گی۔( مسند احمد 93/1۔وسلسلۃ الاحادیث الصحیحہ رقم 2906۔) اس حدیث کی روشنی میں رتن ہندی کا دعوائے صحابیت محض جھوٹ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی قدرومنزلت بجالانے کی توفیق دے کیونکہ ان کی قربانیوں سے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ رضوان اللہ عنھم اجمعین ۔
تمہید باب
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت پیچھے حدیث نمبر:3654 کے تحت گزری ہے۔
یہ ابوسعید ؓ سے مروی ہے۔اس باب کے ذیل میں بہت سی روایات درج کی گئی ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح سے حضرت سید نا ابوبکر صدیق کی فضیلت نکلتی ہے۔ اس نکتہ کو سمجھ کر مندرجہ ذیل روایات کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے اللہ کی راہ میں کسی چیز کاجوڑا خرچ کیا اسے جنت کے تمام دروازوں سے بلایاجائے گا۔ اے اللہ کے بندے!یہ بہتر ہے۔ جو شخص نمازی ہوگا اسے باب الصلاۃ سے پکارا جائے گا۔ جو شخص مجاہدین سے ہوگا اسے باب الجہاد سے دعوت دی جائے گی۔ جو شخص صدقہ کرنے والوں سے ہوگا اسے باب الصدقہ سے بلایا جائے گا۔ اورجو شخص روزہ داروں سے ہوگا اسے باب الصیام اور باب الریان سے بلایا جائے گا۔‘‘حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ ! جس شخص کو تمام دروازں سے پکارا جائے گا اسے کوئی ضرورت نہ ہوگی، پھر عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! کیا کسی شخص کو تمام دروازوں سے دعوت دی جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، اسے ابوبکر ! میں امید رکھتا ہوں کہ تم ان لوگوں سے ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ایک حدیث میں ہے کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3257) اس حدیث میں تین دروازوں کا ذکر ہے۔ ارکان اسلام کے اعتبار سے ایک باب الحج ہوگا۔باقی تین دروازوں کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تفصیل یہ ہے کہ ایک دروازہ باب الکا ظمین ہے مسند امام احمد میں ہے کہ ایک دروازہ باب الایمن ہے جسے باب المتوکلین بھی کہا جاتا ہے۔ (مسند أحمد:436/2) اس سے بلا حساب جنت میں داخل ہونے والوں کو گزارا جائے گا۔ ایک دروازہ باب الذکر یا باب العلم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ سے متعلق دروازے جنت کے بڑے آٹھ دروازوں کے بعد ہوں گے اور ان کی تعداد آٹھ سے زیادہ ہوگی نیز جن لوگوں کو آٹھوں دروازوں سے آواز آئے گی وہ تعداد میں بہت کم ہوں گے اور ان سے مراد وہ خوش قسمت حضرات ہیں جنھوں نے ہر قسم کے نیک اعمال کا ااحاطہ کیا ہو گا کیونکہ تمام واجبات (فرائض) پر عمل کرنے والے تو بے شمار ہوں گے لیکن تمام تطوعات یعنی نوافل کا احاطہ کوئی کوئی کرے گا۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے امید ہے کہ ابو بکر! وہ آپ ہوں گے۔‘‘ کیونکہ فرائض ونوافل کو جمع کرنے والے آپ ہی ہیں۔واضح رہے کہ جو شخص جس عمل کو بکثرت کرتا ہوگا اسے اسی دروازے سے گزارا جائے گا اگرچہ دعوت تمام دروازوں سے گزرنے کی دی جائے گی۔ (فتح الباري:37/7)
ترجمۃ الباب:
ان الفاظ کو حضرت ابو سعید خدریؓ نے ذکر کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھے حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے خبردی اور ان سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا ۔ ، آپ نے فرمایا کہ جس نے اللہ کے راستے میں کسی چیز کا ایک جوڑا خرچ کیا ( مثلا ًدوروپے ، دوکپڑے ، دوگھوڑے اللہ تعالیٰ کے راستے میں دیے ) تو اسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا کہ اے اللہ کے بندے ! ادھر آ ، یہ دروازہ بہتر ہے پس جو شخص نمازی ہو گا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا ، جو شخص مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دوازے سے بلایا جائے گا ، جوشخص اہل صدقہ میں سے ہو گا اسے صدقہ کے دروازہ سے بلایا جائے گا اور جو شخص روزہ دار ہوگا اسے صیام اور ریان (سیرابی) کے دروازے سے بلایا جائے گا ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا جس شخص کو ان تمام ہی درازوں سے بلایاجائے گا پھر تو اسے کسی قسم کا خوف باقی نہیں رہے گا اور پوچھا کیا کوئی شخص ایسا بھی ہوگا جسے ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا : ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم بھی انہیں میں سے ہو گے اے ابوبکر !
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "Anybody who spends a pair of something in Allah's Cause will be called from all the gates of Paradise, "O Allah's slave! This is good.' He who is amongst those who pray will be called from the gate of the prayer (in Paradise) and he who is from the people of Jihad will be called from the gate of Jihad, and he who is from those' who give in charity (i.e. Zakat) will be called from the gate of charity, and he who is amongst those who observe fast will be called from the gate of fasting, the gate of Raiyan." Abu Bakr (RA) said, "He who is called from all those gates will need nothing," He added, "Will anyone be called from all those gates, O Allah's Apostle?" He said, "Yes, and I hope you will be among those, O Abu Bakr."