Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: To offer As-Salat (the prayer) in the camel yards (the places where the camels are stationed))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
412.
حضرت نافع کہتے ہیں: میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو دیکھا کہ وہ اپنے اونٹ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور فرماتے کہ میں نے نبی ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔
تشریح:
اونٹوں کی جگہ پر نماز پڑھنے کی ممانعت کے متعلق متعدد احادیث وارد ہیں جو اگرچہ امام بخاری ؒ کی شرائط کے مطابق نہیں، تاہم ان کی اسناد قوی ہیں۔ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث صحیح مسلم میں ،حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی حدیث ابوداؤد میں، حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ترمذی میں ، حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کی روایت سنن نسائی میں اور حضرت سبرہ بن معبد ؓ سے مروی حدیث ابن ماجہ میں ہے۔ اکثر روایات میں لفظ (مَعَاطِن) آیا ہے، جس کے معنی ہیں، اونٹوں کو پانی پلاکر بٹھانے کی جگہ۔ بعض روایات میں (مَبَارِك الاِبِل) اور بعض میں (مناخ الإبل) کے الفاظ ہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے ان تمام مروی الفاظ سے ہٹ کر مواضع کا لفظ استعمال کیا ہے، کیونکہ یہ تمام کو شامل ہے، نیز آپ کا کمال ادب واحترام اور احتیاط ہے کہ مبادا حدیث کے الفاظ سے تقابل ہوجائے۔ بعض روایات میں ممانعت کی وجہ ان کاشیاطین سے ہونابیان ہوئی ہے۔ کچھ ائمہ کا خیال ہے کہ (مَعَاطِن إبل) میں نماز پڑھنا درست نہیں، جبکہ امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے کہ اگر مقامات پر ممانعت کی علت اونٹ کاشیاطین سے ہونا مان لیا جائے تو اس میں معاطن کی کیا خصوصیت ہے، اونٹ جہاں بھی ہوجس حالت میں ہو، اس کے قریب نماز درست نہیں ہونی چاہیے۔ جب کہ روایات میں اس کا گھٹنا باندھ کر اسے سترہ بنانے کا ذکر موجود ہے۔ اونٹ پر سواری کی حالت میں نماز پڑھنا ثابت ہے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک مذکورہ علت صحیح نہیں۔ ان کے نزدیک اصل بات یہ ہے کہ پانی پینے کی جگہ جہاں بہت زیادہ اونٹ جمع ہوتے ہیں اور پانی پی کر تازہ دم ہوجاتے ہیں، وہاں نماز پڑھنے میں اطمینان قلب میسر نہیں آتا، اس لیے ممانعت کردی گئی ہے۔ اگرجگہ پاک ہو اور اونٹ کو نکیل ڈال کر اور اس کا گھٹنا باندھ کر اس کے خطرات کو کم کردیا گیاہوتو ان مقامات پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اونٹ کو سامنے بٹھا کر نماز پڑھی اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ا یسا کرتے دیکھا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اونٹ کی شرارت سے اگر تحفظ ہوتواس کے قریب نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:683/1) ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ اونٹوں کی جگہ پر نماز پڑھنا درست نہیں، کیونکہ متعدد احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہے۔ اور امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اونٹ سامنے بیٹھا ہو اور اس سے کسی قسم کاخطرہ نہ ہوتو ایسے حالات میں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اور جن احادیث میں ممانعت آئی ہے وہاں یہ مقصود ہے کہ اونٹ کھڑے ہوں۔ اور ان کی طرف سے مستی میں آنے کا لات مارنے کا اندیشہ ہوتو اس سے نماز کا خشوع اوراطمینان غارت ہوگا، لہذا ایسے حالات میں وہاں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ بعض ائمہ کرام نے متعارض احادیث کو اس طرح جمع کیا ہے کہ ﴿ وَجُعِلَتْ لي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا﴾ کے عموم کے پیش نظر متعلقہ ممانعت کو نہی تنزیہی پر محمول کیاجائے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اسے بہترقراردیاہے۔ (فتح الباري:683/1) 2۔ بھینسوں اور گایوں کے فارم میں نماز پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے؟کیا ان کا اطلاق بکریوں کے ساتھ ہے کہ وہاں نماز میں کوئی قباحت نہیں یا انھیں اونٹوں کے حکم میں شامل کرکے وہاں نماز پڑھنے کو مکروہ کہا جائے گا؟ابوبکرابن المنذر ؒ نے اسے بکریوں پر قیاس کرتے ہوئے ان کے فارموں میں نماز پڑھنے کو جائز قراردیا ہے۔ جبکہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے، لیکن اونٹوں اور گایوں کے طویلے میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ (مسند احمد:178/2) لیکن اس کی سند میں ایک مشہور راوی ابن لیعہ ہے جس کے متعلق محدثین نے کلام کیا ہے۔ اس بنا پر یہ روایت صحت حدیث کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ (عمدة القاري:439/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
427
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
430
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
430
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
430
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت نافع کہتے ہیں: میں نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو دیکھا کہ وہ اپنے اونٹ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور فرماتے کہ میں نے نبی ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اونٹوں کی جگہ پر نماز پڑھنے کی ممانعت کے متعلق متعدد احادیث وارد ہیں جو اگرچہ امام بخاری ؒ کی شرائط کے مطابق نہیں، تاہم ان کی اسناد قوی ہیں۔ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث صحیح مسلم میں ،حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی حدیث ابوداؤد میں، حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ترمذی میں ، حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کی روایت سنن نسائی میں اور حضرت سبرہ بن معبد ؓ سے مروی حدیث ابن ماجہ میں ہے۔ اکثر روایات میں لفظ (مَعَاطِن) آیا ہے، جس کے معنی ہیں، اونٹوں کو پانی پلاکر بٹھانے کی جگہ۔ بعض روایات میں (مَبَارِك الاِبِل) اور بعض میں (مناخ الإبل) کے الفاظ ہیں، لیکن امام بخاری ؒ نے ان تمام مروی الفاظ سے ہٹ کر مواضع کا لفظ استعمال کیا ہے، کیونکہ یہ تمام کو شامل ہے، نیز آپ کا کمال ادب واحترام اور احتیاط ہے کہ مبادا حدیث کے الفاظ سے تقابل ہوجائے۔ بعض روایات میں ممانعت کی وجہ ان کاشیاطین سے ہونابیان ہوئی ہے۔ کچھ ائمہ کا خیال ہے کہ (مَعَاطِن إبل) میں نماز پڑھنا درست نہیں، جبکہ امام بخاری ؒ یہ واضح کرنا چاہتے کہ اگر مقامات پر ممانعت کی علت اونٹ کاشیاطین سے ہونا مان لیا جائے تو اس میں معاطن کی کیا خصوصیت ہے، اونٹ جہاں بھی ہوجس حالت میں ہو، اس کے قریب نماز درست نہیں ہونی چاہیے۔ جب کہ روایات میں اس کا گھٹنا باندھ کر اسے سترہ بنانے کا ذکر موجود ہے۔ اونٹ پر سواری کی حالت میں نماز پڑھنا ثابت ہے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک مذکورہ علت صحیح نہیں۔ ان کے نزدیک اصل بات یہ ہے کہ پانی پینے کی جگہ جہاں بہت زیادہ اونٹ جمع ہوتے ہیں اور پانی پی کر تازہ دم ہوجاتے ہیں، وہاں نماز پڑھنے میں اطمینان قلب میسر نہیں آتا، اس لیے ممانعت کردی گئی ہے۔ اگرجگہ پاک ہو اور اونٹ کو نکیل ڈال کر اور اس کا گھٹنا باندھ کر اس کے خطرات کو کم کردیا گیاہوتو ان مقامات پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اونٹ کو سامنے بٹھا کر نماز پڑھی اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ا یسا کرتے دیکھا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اونٹ کی شرارت سے اگر تحفظ ہوتواس کے قریب نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:683/1) ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ اونٹوں کی جگہ پر نماز پڑھنا درست نہیں، کیونکہ متعدد احادیث میں اس کی ممانعت وارد ہے۔ اور امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اونٹ سامنے بیٹھا ہو اور اس سے کسی قسم کاخطرہ نہ ہوتو ایسے حالات میں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اور جن احادیث میں ممانعت آئی ہے وہاں یہ مقصود ہے کہ اونٹ کھڑے ہوں۔ اور ان کی طرف سے مستی میں آنے کا لات مارنے کا اندیشہ ہوتو اس سے نماز کا خشوع اوراطمینان غارت ہوگا، لہذا ایسے حالات میں وہاں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ بعض ائمہ کرام نے متعارض احادیث کو اس طرح جمع کیا ہے کہ ﴿ وَجُعِلَتْ لي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا﴾ کے عموم کے پیش نظر متعلقہ ممانعت کو نہی تنزیہی پر محمول کیاجائے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اسے بہترقراردیاہے۔ (فتح الباري:683/1) 2۔ بھینسوں اور گایوں کے فارم میں نماز پڑھنے کے متعلق کیا حکم ہے؟کیا ان کا اطلاق بکریوں کے ساتھ ہے کہ وہاں نماز میں کوئی قباحت نہیں یا انھیں اونٹوں کے حکم میں شامل کرکے وہاں نماز پڑھنے کو مکروہ کہا جائے گا؟ابوبکرابن المنذر ؒ نے اسے بکریوں پر قیاس کرتے ہوئے ان کے فارموں میں نماز پڑھنے کو جائز قراردیا ہے۔ جبکہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے، لیکن اونٹوں اور گایوں کے طویلے میں نماز نہیں پڑھتے تھے۔ (مسند احمد:178/2) لیکن اس کی سند میں ایک مشہور راوی ابن لیعہ ہے جس کے متعلق محدثین نے کلام کیا ہے۔ اس بنا پر یہ روایت صحت حدیث کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ (عمدة القاري:439/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سلیمان بن حیان نے، کہا ہم سے عبیداللہ نے نافع کے واسطہ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر ؓ کو اپنے اونٹ کی طرف نماز پڑھتے دیکھا اور انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اسی طرح پڑھتے دیکھا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): "I saw Ibn 'Umar (RA) praying while taking his camel as a Sutra in front of him and he said, "I saw the Prophet (ﷺ) doing the same."