باب:اس بیان میں کہ رسول کریمﷺپر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The sin of a person who tells a lie against the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
109.
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد زبیر ؓ سے دریافت کیا: (والد محترم!) میں آپ کو رسول اللہ ﷺ سے احادیث بیان کرتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں جس طرح فلاں فلاں بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں کبھی رسول اللہ ﷺ سے الگ نہیں ہوا، لیکن میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جو کوئی مجھ پر جھوٹ باندھے گا، وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔‘‘
تشریح:
1۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہیں ہوا کا مطلب یہ نہیں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل الگ نہیں ہوئے الگ تو یقیناً ہوئے ہیں جیسا کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینے کی طرف ہجرت فرمائی اس وقت بھی آپ ساتھ نہیں تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اکثر اوقات میں آپ کے ساتھ رہا ہوں جب صحبت طویل ہے تو سماع بھی زیادہ ہے اور زیادہ سماع کا تقاضا ہے کہ میں کثرت سے آپ کی احادیث بیان کروں لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں غلطی سے کوئی ایسی بات آپ کی طرف منسوب نہ کر بیٹھوں جو آپ کی فرمودہ نہ ہو۔ (فتح الباري: 265/1) 2۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بایں الفاظ جواب دیا: اے میرے لخت جگر! تجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے ساتھ قرابت داری بھی زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی میری والدہ ہیں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میری پھوپھی ہیں تیری والدہ (حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میری بیوی ہے اور ان (اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں لیکن کثرت روایات سے مذکورہ احتیاط ہی روک رہی ہے۔ (فتح الباري: 265/1) 3۔ اس روایت میں’’دیدہ دانستہ ‘‘ کی شرط بھی نہیں لیکن بے احتیاطی بہر حال درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بلا ارادہ بھی غلط نسبت ہوگئی تو خطرے سے خالی نہیں۔ ایسے حالات میں احتیاط سے کام نہ لینا ایک اختیاری چیز سے غیراختیاری چیز کو پیدا ہونے کی گنجائش دینا ہے۔ اس بنا پر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہ کثرت سے بیان کرتا ہوں اور نہ میں خطرہ مول لیتا ہوں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
109
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
107
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
107
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
107
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد زبیر ؓ سے دریافت کیا: (والد محترم!) میں آپ کو رسول اللہ ﷺ سے احادیث بیان کرتے ہوئے نہیں دیکھتا ہوں جس طرح فلاں فلاں بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں کبھی رسول اللہ ﷺ سے الگ نہیں ہوا، لیکن میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’جو کوئی مجھ پر جھوٹ باندھے گا، وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنا لے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہیں ہوا کا مطلب یہ نہیں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل الگ نہیں ہوئے الگ تو یقیناً ہوئے ہیں جیسا کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینے کی طرف ہجرت فرمائی اس وقت بھی آپ ساتھ نہیں تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اکثر اوقات میں آپ کے ساتھ رہا ہوں جب صحبت طویل ہے تو سماع بھی زیادہ ہے اور زیادہ سماع کا تقاضا ہے کہ میں کثرت سے آپ کی احادیث بیان کروں لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں غلطی سے کوئی ایسی بات آپ کی طرف منسوب نہ کر بیٹھوں جو آپ کی فرمودہ نہ ہو۔ (فتح الباري: 265/1) 2۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بایں الفاظ جواب دیا: اے میرے لخت جگر! تجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے ساتھ قرابت داری بھی زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی میری والدہ ہیں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میری پھوپھی ہیں تیری والدہ (حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میری بیوی ہے اور ان (اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں لیکن کثرت روایات سے مذکورہ احتیاط ہی روک رہی ہے۔ (فتح الباري: 265/1) 3۔ اس روایت میں’’دیدہ دانستہ ‘‘ کی شرط بھی نہیں لیکن بے احتیاطی بہر حال درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بلا ارادہ بھی غلط نسبت ہوگئی تو خطرے سے خالی نہیں۔ ایسے حالات میں احتیاط سے کام نہ لینا ایک اختیاری چیز سے غیراختیاری چیز کو پیدا ہونے کی گنجائش دینا ہے۔ اس بنا پر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہ کثرت سے بیان کرتا ہوں اور نہ میں خطرہ مول لیتا ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے جامع بن شداد نے، وہ عامر بن عبداللہ بن زبیر سے اور وہ اپنے باپ عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا میں نے اپنے باپ یعنی زبیر سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ ﷺ کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں، کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
حدیث حاشیہ:
اسی لیے میں حدیث رسول بیان نہیں کرتا کہ مبادا کہیں غلط بیانی نہ ہوجائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Az-Zubair (RA): I said to my father, 'I do not hear from you any narration (Hadith) of Allah s Apostle (ﷺ) as I hear (his narrations) from so and so?" Az-Zubair replied. l was always with him (the Prophet) and I heard him saying "Whoever tells a lie against me (intentionally) then (surely) let him occupy, his seat in Hell-fire.