باب : جہاد کی فضیلت اور رسول اللہ ﷺ کے حالات کے بیان میں
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The superiority of Jihad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے ہیں کہ انہیں جنت ملے گی‘ وہ مسلمان اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور اس طرح ( محارب کفار کو ) یہ مارتے ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ( کہ مسلمانوں کو ان کی قربانیوں کے نتیجے میں جنت ملے گی ) سچاہے‘ تورات میں‘ انجیل میںاور قرآن میں اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا کو ن ہو سکتا ہے ؟ پس خوش ہو جاؤ تم اپنے اس سودا کی وجہ سے جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے‘ آخر آیت وبشر المومنین تک ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی حدوں سے مراد اس کے احکام کی اطاعت ہے ۔
2684.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ !ہمارے خیال کے مطابق جہاد تمام اعمال سے افضل ہے تو کیا ہم عورتیں جہاد نہ کریں؟آپ نےفرمایا: ’’لیکن (تمہارے لیے) سب سے افضل جہاد حج مقبول ہے (جس میں گناہ نہ ہو)۔‘‘
تشریح:
1۔اس حدیث کے مطابق حضرت عائشہ ؓ نے جہاد کو تمام اعمال سے افضل عمل قراردیا اور رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا۔2۔رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت سے فرمایا جس کا خاوند جہاد میں شریک ہوا تھا:’’ کیا تجھ میں طاقت ہے کہ تو آرام کیے بغیر متواتر قیام کرتی رہے اور کوئی روزہ چھوڑے بغیر مسلسل روزے رکھتی رہے، نیز غفلت کا شکار ہوئے بغیر ہمیشہ ذکر کرتی رہے حتی کہ تیرا خاوند واپس آجائے ؟‘‘ اس نے عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس قدر طاقت نہیں رکھتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اگر تجھ میں اتنی طاقت ہوتو پھر بھی تو اپنے خاوند کے جہادی اجر کے دسویں حصے کو نہیں پہنچ سکتی۔‘‘(المستدرك الحاکم: 73/2)
جہاد کے معنی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے طاقت صرف کرنا ہیں اور سِيَر كے مطلب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدين رضوان اللہ عنھم اجمعین کے وہ حالات ہیں جو کفار سے جنگ کرتے ہوئے رونما ہوئے۔واضح رہے کہ جہاد کی دوقسمیں ہیں"اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد۔اقدامی جہاد:غلبہ دین کفر وشرک کے خاتمے،سرحدوں کی حفاظت اور عہد شکنی کی سزادینے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے جو جنتگ لڑی جائے اسے اقدامی جہاد کیا جاتاہے۔دفاعی جہاد:اسلامی ریاست اور اہل اسلام کا دفاع کرتے ہوئے جو مدافعانہ جنگ لڑی جائے اسے دفاعی جہاد کا نام دیاجاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر جنگیں دفاعی تھیں۔البتہ غزوہ خندق کے بعد اقدامی جہاد کی بھی متعدد مثالیں ملتی ہیں،تاہم اقدامی قتال مسلمانوں کے اجتماعی امور سے متعلق ہے جسے آج کل روشن خیال سیکولر طبقہ تسلیم نہیں کرتا۔ان کے نزدیک دین کا اجتماعیات میں کوئی دخل نہیں ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےنزدیک حدود اللہ سے مراد اللہ کی طاعات ہیں۔ان کادائرہ بہت وسیع ہے جو انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے،یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد وعبادات ،اخلاق ومعاشرت ،تہذیب وتمدن،تجارت ومعیشت ،سیاست ورریاست اور صلح و جنگ کے معاملات میں جوحدیں مقرر کررکھیں ہیں وہ ان سے آگے نہیں بڑھتے۔ظاہر ہے کہ اللہ کی اطاعت کرنے والا ہی ان مذکورہ صفات والا ہوسکتاہے اور اس کے اوامر کو پورا کرسکتا ہے اور نواہی سے بچ سکتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے ہیں کہ انہیں جنت ملے گی‘ وہ مسلمان اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور اس طرح ( محارب کفار کو ) یہ مارتے ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ( کہ مسلمانوں کو ان کی قربانیوں کے نتیجے میں جنت ملے گی ) سچاہے‘ تورات میں‘ انجیل میںاور قرآن میں اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا کو ن ہو سکتا ہے ؟ پس خوش ہو جاؤ تم اپنے اس سودا کی وجہ سے جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے‘ آخر آیت وبشر المومنین تک ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی حدوں سے مراد اس کے احکام کی اطاعت ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ !ہمارے خیال کے مطابق جہاد تمام اعمال سے افضل ہے تو کیا ہم عورتیں جہاد نہ کریں؟آپ نےفرمایا: ’’لیکن (تمہارے لیے) سب سے افضل جہاد حج مقبول ہے (جس میں گناہ نہ ہو)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کے مطابق حضرت عائشہ ؓ نے جہاد کو تمام اعمال سے افضل عمل قراردیا اور رسول اللہ ﷺ نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا۔2۔رسول اللہ ﷺ نے ایک عورت سے فرمایا جس کا خاوند جہاد میں شریک ہوا تھا:’’ کیا تجھ میں طاقت ہے کہ تو آرام کیے بغیر متواتر قیام کرتی رہے اور کوئی روزہ چھوڑے بغیر مسلسل روزے رکھتی رہے، نیز غفلت کا شکار ہوئے بغیر ہمیشہ ذکر کرتی رہے حتی کہ تیرا خاوند واپس آجائے ؟‘‘ اس نے عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس قدر طاقت نہیں رکھتی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!اگر تجھ میں اتنی طاقت ہوتو پھر بھی تو اپنے خاوند کے جہادی اجر کے دسویں حصے کو نہیں پہنچ سکتی۔‘‘(المستدرك الحاکم: 73/2)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ "اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ تورات، انجیل اور قرآن سب کتابوں میں اللہ کے ذمے یہ پختہ وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو وفا کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟لہٰذا تم نے جو سودا کیا ہے اس پر خوشیاں مناؤ(اور یہی بہت بڑی کا میابی ہے۔ وہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، حمد کرنے والے، روزہ دار، رکوع کرنے والے، سجدہ گزار، بھلےکاموں کا چرچا کرنے والے، برے کاموں سے روکنے والے اور حدود اللہ کی خفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ )ایسے اہل کو آپ خوشخبری سنادیں۔ "حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ الحدود سے مراد اللہ تعالیٰ کی طاعات ہیں۔
فائدہ:جہاد کے معنی اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لیے طاقت صرف کرنا ہیں اورسِيَرکے معنی طریقہ ہیں۔ یہاںسِيَرکا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے وہ حالات ہیں جو کفار سے جنگ کرتے ہوئے رونما ہوئے۔ واضح رہے کہ جہاد کی دو اقسام ہیں۔ اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد۔ اقدامی جہاد، غلبہ دین کفرو شرک کے خاتمے، سرحدوں کی حفاظت اور عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے جو جنگ لڑی جائے اسے اقدامی جہاد کہا جا تا ہے۔ دفاعی جہاد، اسلامی ریاست اور اہل اسلام کا دفاع کرتے ہوئے جو مدافعانہ جنگ لڑی جائے اسے دفاعی جہاد کا نام دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر جنگیں دفاعی تھیں، البتہ غزوہ خندق کے بعد اقدامی جہاد کی بھی متعدد مثالیں ملتی ہیں، تاہم اقدامی قتال مسلمانوں کے اجتماعی امور سے متعلق ہے جسے آج کل روشن خیال سیکولر طبقہ تسلیم نہیں کرتا۔ ان کے نزدیک دین کا اجتماعیات میں کوئی دخل نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے حبیب بن ابی عمرہ نے بیان کیا عائشہ بنت طلحہ سے اور ان سے عائشہ ؓ (ام المومنین) نے کہ انہوں پوچھا یا رسول اللہ! ہم سمجھتے ہیں کہ جہاد افضل اعمال میں سے ہے پھر ہم (عورتیں) بھی کیوں نہ جہاد کریں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لیکن سب سے افضل جہاد مقبول حج ہے جس میں گناہ نہ ہوں۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے‘ باب کا مطلب اس حدیث سے یوں نکلا کہ حضرت عائشہ ؓ نے جہاد کو سب سے افضل کہا اور آنحضرت ﷺ نے اس پر انکار نہیں فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): (That she said), "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We consider Jihad as the best deed. Should we not fight in Allah's Cause?" He said, "The best Jihad (for women) is Hajj-Mabrur (i.e. Hajj which is done according to the Prophet's tradition and is accepted by Allah)."