Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: The (offering of) Salat (prayers) is a part of faith)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں۔ یعنی تمہاری وہ نمازیں جو تم نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی ہیں، قبول ہیں
40.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے ددھیال یا ننھیال، جو انصار سے تھے، کے ہاں اترے اور (مدینے میں) سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے، البتہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ کعبے کی طرف ہو جائے (چنانچہ ہو گیا)۔ اور پہلی نماز جو آپ نے (کعبے کی طرف) پڑھی، وہ عصر کی نماز تھی اور آپ کے ہمراہ کچھ اور لوگ بھی تھے، پھر ان میں سے ایک شخص نکلا اور کسی مسجد والوں کے پاس سے اس کا گزر ہوا، وہ (بیت المقدس کی طرف منہ کیے ہوئے) رکوع کی حالت میں تھے تو اس نے کہا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مکے کی طرف نماز پڑھی ہے۔ (یہ سنتے ہی) وہ لوگ جس حالت میں تھے اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔ اور جب آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے تو یہودی اور دوسرے اہل کتاب (نصاریٰ) بہت خوش ہوتے تھے لیکن جب آپ نے اپنا منہ بیت اللہ کی طرف پھیر لیا تو یہ انہیں بہت ناگوار گزرا۔ اسی حدیث میں زہیر (راوی) نے بواسطہ ابو اسحاق، براء سے یہ بھی بیان کیا کہ تحویل قبلہ سے پہلے کچھ لوگ فوت اور شہید ہو چکے تھے۔ ان کے متعلق ہمیں معلوم نہ تھا کہ انہیں نمازوں کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ’’ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان (نمازیں) ضائع کر دے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس سے مراد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے حالانکہ قرآن کریم میں نماز کو ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور نماز کا خصوصی تعلق ہے کیونکہ نماز ایمان کا عظیم شعار ہے بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے، دین کا مستحکم ستون ہے، اس تعلق کی وجہ سے صلاۃ گویا عین ایمان ہے۔ جب یہ عمل ایمان ٹھہرا تو اس میں کمی بیشی بھی ممکن ہے۔ نماز پر ایمان کا اطلاق، اطلاق الکل علی الجزء ہے لہٰذا ایمان کے لیے نماز ایک جز ثابت ہوئی۔ ھذا ھوالمقصود 2۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی وہ نماز جو بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی نماز عصر تھی روایات کی رو سے وہ نماز ظہر تھی۔ دراصل واقعات یہ ہیں کہ بنو سلمہ جو مسجد نبوی سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے وہاں حضرت بشر بن براء کی وفات ہوگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جنازے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہیں نماز ظہر کا وقت ہو گیا تو آپ نے ظہر کی نماز مسجد بنو سلمہ میں اد افرمائی دو رکعت پڑھنے کے بعد تحویل قبلہ کا حکم آ گیا۔ آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اسی حالت میں بیت اللہ کی جانب متوجہ ہو گئے۔ اس مسجد کا نام مسجد قبلتین ہے۔ آج بھی اس مسجد میں دو محرابیں ہیں۔ اس کے بعد وہ پہلی نماز جو پوری بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی وہ نماز عصر تھی جو مسجد نبوی میں ادا ہوئی پھر ان کی وساطت سے دوسری مساجد تک اطلاع پہنچی چنانچہ ایک آدمی مسجد بنی حارثہ کے پاس سے گزرا تو وہ ابھی نماز عصر پڑھ رہے تھے انھیں دوران نماز میں تحویل قبلہ کی اطلاع دی گئی وہ بلا تردد گھوم گئے۔ پھر اگلے دن مدینے سے باہر اہل قباء کو نماز فجر کے وقت اطلاع ملی۔ اب ان مختلف روایات (ظہر عصر اور فجر) میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ (فتح الباري: 1؍ 131، 651) 3۔ روایت کے آخر میں زہیر راوی کا ایک طریق ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر (حدیث نمبر: 4488) میں متصلا ذکر فرمایا ہے۔ اس میں تحویل قبلہ سے پہلے چند صحابہ کے مقتول ہونے کا ذکر ہے۔ حالانکہ اس وقت تک کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی تھی لیکن ضروری نہیں کہ جنگ ہی سے قتل کا واقعہ پیش آئے کفار سے دشمنی کی وجہ سے بھی قتل کی نوبت آسکتی ہے۔ ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی تعداد جو تحویل قبلہ سے پہلے فوت ہوئے دس ہے تین مکہ مکرمہ میں عبد اللہ بن شہاب، مطلب بن ازہر اور سکران بن عمرو عامری اور پانچ حبشہ میں خطاب بن حارث، عمرو بن امیہ، عبد اللہ بن حارث، عمروبن عبد العزیٰ اور عدی بن نضلہ اور مدینہ منورہ میں براء بن معرور اور اسعد بن زرارۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان حضرات کے متعلق تشویش تھی جس کا روایت میں ذکر ہے چنانچہ آیت کے نزول سے تسلی ہو گئی۔ (فتح الباري:132/1) 4۔ اس حدیث سے خبرواحد کی حجیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ایک قطعی چیز کومحض ایک صحابی کے حلفیہ بیان سے بدل دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ بعض اوقات خبر واحد بھی قطعیت کا فائدہ دیتی ہے بالخصوص جب مقرون بالقرائن ہو۔ اگرچہ یقین کے مراتب مختلف ہوتے ہیں تاہم فقہاء کا یہ کہنا محل نظرہے کہ خبر واحد ہر وقت ظن کا فائدہ دیتی ہے۔ حدیث فقہاء کے اس خود ساختہ اصول کی تردید کرتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
40
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
40
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
40
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
40
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
جب بیت کا لفظ مطلق بولا جاتا ہے تو اس سے مراد بیت اللہ ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا(صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ) فرمانا محل نظر ہے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے(إِلَى البَيت) نہیں فرمایا کہ اس سے مرادبیت اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی نمازیں مراد ہوں بلکہ عندالبیت کہا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بیت اللہ کے نزدیک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی نمازوں کو اللہ تعالیٰ ضائع کرنے والا نہیں۔( فتح الباری1/129۔)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں۔ یعنی تمہاری وہ نمازیں جو تم نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی ہیں، قبول ہیں
حدیث ترجمہ:
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب (ہجرت کر کے) مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے ددھیال یا ننھیال، جو انصار سے تھے، کے ہاں اترے اور (مدینے میں) سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے، البتہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ کعبے کی طرف ہو جائے (چنانچہ ہو گیا)۔ اور پہلی نماز جو آپ نے (کعبے کی طرف) پڑھی، وہ عصر کی نماز تھی اور آپ کے ہمراہ کچھ اور لوگ بھی تھے، پھر ان میں سے ایک شخص نکلا اور کسی مسجد والوں کے پاس سے اس کا گزر ہوا، وہ (بیت المقدس کی طرف منہ کیے ہوئے) رکوع کی حالت میں تھے تو اس نے کہا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مکے کی طرف نماز پڑھی ہے۔ (یہ سنتے ہی) وہ لوگ جس حالت میں تھے اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔ اور جب آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے تو یہودی اور دوسرے اہل کتاب (نصاریٰ) بہت خوش ہوتے تھے لیکن جب آپ نے اپنا منہ بیت اللہ کی طرف پھیر لیا تو یہ انہیں بہت ناگوار گزرا۔ اسی حدیث میں زہیر (راوی) نے بواسطہ ابو اسحاق، براء سے یہ بھی بیان کیا کہ تحویل قبلہ سے پہلے کچھ لوگ فوت اور شہید ہو چکے تھے۔ ان کے متعلق ہمیں معلوم نہ تھا کہ انہیں نمازوں کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ’’ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان (نمازیں) ضائع کر دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس سے مراد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں کہ اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے حالانکہ قرآن کریم میں نماز کو ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور نماز کا خصوصی تعلق ہے کیونکہ نماز ایمان کا عظیم شعار ہے بندے اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے، دین کا مستحکم ستون ہے، اس تعلق کی وجہ سے صلاۃ گویا عین ایمان ہے۔ جب یہ عمل ایمان ٹھہرا تو اس میں کمی بیشی بھی ممکن ہے۔ نماز پر ایمان کا اطلاق، اطلاق الکل علی الجزء ہے لہٰذا ایمان کے لیے نماز ایک جز ثابت ہوئی۔ ھذا ھوالمقصود 2۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی وہ نماز جو بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی نماز عصر تھی روایات کی رو سے وہ نماز ظہر تھی۔ دراصل واقعات یہ ہیں کہ بنو سلمہ جو مسجد نبوی سے تین میل کے فاصلے پر رہائش پذیر تھے وہاں حضرت بشر بن براء کی وفات ہوگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں جنازے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہیں نماز ظہر کا وقت ہو گیا تو آپ نے ظہر کی نماز مسجد بنو سلمہ میں اد افرمائی دو رکعت پڑھنے کے بعد تحویل قبلہ کا حکم آ گیا۔ آپ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اسی حالت میں بیت اللہ کی جانب متوجہ ہو گئے۔ اس مسجد کا نام مسجد قبلتین ہے۔ آج بھی اس مسجد میں دو محرابیں ہیں۔ اس کے بعد وہ پہلی نماز جو پوری بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی وہ نماز عصر تھی جو مسجد نبوی میں ادا ہوئی پھر ان کی وساطت سے دوسری مساجد تک اطلاع پہنچی چنانچہ ایک آدمی مسجد بنی حارثہ کے پاس سے گزرا تو وہ ابھی نماز عصر پڑھ رہے تھے انھیں دوران نماز میں تحویل قبلہ کی اطلاع دی گئی وہ بلا تردد گھوم گئے۔ پھر اگلے دن مدینے سے باہر اہل قباء کو نماز فجر کے وقت اطلاع ملی۔ اب ان مختلف روایات (ظہر عصر اور فجر) میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ (فتح الباري: 1؍ 131، 651) 3۔ روایت کے آخر میں زہیر راوی کا ایک طریق ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب التفسیر (حدیث نمبر: 4488) میں متصلا ذکر فرمایا ہے۔ اس میں تحویل قبلہ سے پہلے چند صحابہ کے مقتول ہونے کا ذکر ہے۔ حالانکہ اس وقت تک کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی تھی لیکن ضروری نہیں کہ جنگ ہی سے قتل کا واقعہ پیش آئے کفار سے دشمنی کی وجہ سے بھی قتل کی نوبت آسکتی ہے۔ ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی تعداد جو تحویل قبلہ سے پہلے فوت ہوئے دس ہے تین مکہ مکرمہ میں عبد اللہ بن شہاب، مطلب بن ازہر اور سکران بن عمرو عامری اور پانچ حبشہ میں خطاب بن حارث، عمرو بن امیہ، عبد اللہ بن حارث، عمروبن عبد العزیٰ اور عدی بن نضلہ اور مدینہ منورہ میں براء بن معرور اور اسعد بن زرارۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان حضرات کے متعلق تشویش تھی جس کا روایت میں ذکر ہے چنانچہ آیت کے نزول سے تسلی ہو گئی۔ (فتح الباري:132/1) 4۔ اس حدیث سے خبرواحد کی حجیت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے ایک قطعی چیز کومحض ایک صحابی کے حلفیہ بیان سے بدل دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ بعض اوقات خبر واحد بھی قطعیت کا فائدہ دیتی ہے بالخصوص جب مقرون بالقرائن ہو۔ اگرچہ یقین کے مراتب مختلف ہوتے ہیں تاہم فقہاء کا یہ کہنا محل نظرہے کہ خبر واحد ہر وقت ظن کا فائدہ دیتی ہے۔ حدیث فقہاء کے اس خود ساختہ اصول کی تردید کرتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔" اس سے مراد بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی نمازیں ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا، ان کو حضرت براء بن عازب نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنی نانہال میں اترے، جو انصار تھے۔ اور وہاں آپ نے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی اور آپ کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ کی طرف ہو (جب بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہو گیا) تو سب سے پہلی نماز جو آپ ﷺ نے بیت اللہ کی طرف پڑھی عصر کی نماز تھی۔ وہاں آپ ﷺ کے ساتھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی، پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک آدمی نکلا اور اس کا مسجد (بنی حارثہ) کی طرف گزر ہوا تو وہ لوگ رکوع میں تھے۔ وہ بولا کہ میں اللہ کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ (یہ سن کر) وہ لوگ اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے اور جب رسول اللہ ﷺ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے تو یہود اور عیسائی خوش ہوتے تھے مگر جب آپ ﷺ نے بیت اللہ کی طرف منہ پھیر لیا تو انھیں یہ امر ناگوار ہوا۔ زہیر (ایک راوی) کہتے ہیں کہ ہم سے ابواسحاق نے براء سے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ قبلہ کی تبدیلی سے پہلے کچھ مسلمان انتقال کر چکے تھے۔ تو ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کی نمازوں کے بارے میں کیا کہیں۔ تب اللہ نے یہ آیت نازل کی: ﴿وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ﴾(البقرة: 143)
حدیث حاشیہ:
مبارک خواب: ایمان میں اعمال صالحہ بھی داخل ہیں، یہ بحث پیچھے بھی مفصل آچکی ہے مگروہاں یہ آیت نہ تھی الحمدللہ ایک رات تہجد کے وقت خواب میں مجھ کو باربار تاکید کے ساتھ یہ آیت پڑھ کر کہا گیا کہ اس کو یہاں بھی لکھو چنانچہ حدیث 39 میں یہ آیت میں نے اسی خواب کی بنا پر نقل کی ہے: ﴿وَكَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا﴾ (راز)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' (bin 'Azib): When the Prophet (ﷺ) came to Medina, he stayed first with his grandfathers or maternal uncles from Ansar. He offered his prayers facing Baitul-Maqdis (Jerusalem) for sixteen or seventeen months, but he wished that he could pray facing the Ka’bah (at Makkah). The first prayer which he offered facing the Ka’bah was the 'Asr prayer in the company of some people. Then one of those who had offered that prayer with him came out and passed by some people in a mosque who were bowing during their prayers (facing Jerusalem). He said addressing them, "By Allah, I testify that I have prayed with Allah's Apostle (ﷺ) facing Makkah (Ka’bah).' Hearing that, those people changed their direction towards the Ka’bah immediately. Jews and the people of the scriptures used to be pleased to see the Prophet (ﷺ) facing Jerusalem in prayers but when he changed his direction towards the Ka’bah, during the prayers, they disapproved of it. Al-Bara' added, "Before we changed our direction towards the Ka’bah (Makkah) in prayers, some Muslims had died or had been killed and we did not know what to say about them (regarding their prayers.) Allah then revealed: And Allah would never make your faith (prayers) to be lost (i.e. the prayers of those Muslims were valid).' " (2:143).